موبائل سے ویڈیو
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، ’ جو تم اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو اگر تم مومن ہو‘، جزاک اللہ، کیا خوب صورت اصول وضع فرمادیا گیا، سماج کو منضبط کرنے کے حوالے سے جو اصول میرے نبی کے دئیے ہوئے دین نے وضع کئے ہیں ان کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا۔مجھے یہ حدیث اس وقت یاد آئی جب وفاقی وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی انوشہ رحمان کی ایک صحافی نے اپنے موبائل سے ویڈیو بنانے کی کوشش تو مبینہ طور پر انہوں نے وہ موبائل چھین لیا ، مذکورہ صحافی کا کہنا ہے کہ وفاقی وزیر نے اسے چودہ برس تک جیل بھجوانے کی دھمکی بھی دی ۔
یہ معاملہ سپریم کورٹ کی عمارت میں پیش آیا جہاں پہلے ہی موبائل کے استعمال پر پابندی ہے اور پابندی ریاست کی سب سے بڑی عدالت کے احترام کا حصہ ہے مگرقانونی کے ساتھ ساتھ اس معاملے کے ایک اخلاقی اور معاشرتی پہلو بھی ہیں۔ پہلاسوال ہی یہ ہے کہ کیاکسی شخص کو کسی بھی دوسرے شخص کی مرضی کے بغیر اس کی ویڈیو بنانے کا حق دیا جا سکتا ہے چاہے وہ ایک سیاستدان ہی کیوں نہ ہوں اور دوسرے یہ کہ وہ وقت کب آئے گا جب معاشرے کے ججوں ، جرنیلوں اور جرنلسٹوں جیسے بااثر طبقات کے لئے بھی قانون وہی ہو گا جو باقی سب کے لئے ہے۔ اس صحافی نے اپنے آپ کو ہر قانونی اور اخلاقی ضابطے سے بالاتر سمجھا، وہ مغرب کاپاپا رازی بنا اور پھر وہی ہوا کہ صحافتی برادری اس کے غیر قانونی اور غیر اخلاقی اقدام کے دفاع میں میدان میںآگئی ۔ لاہور پریس کلب کے دوستوں نے بھی احتجاجی مظاہرہ کر ڈالا حالانکہ یہ ذمہ داری پنجاب یونین آف جرنلسٹس کی تھی جو اب کئی دھڑوں میں تقسیم ہوچکی، کلب ارکان کو سہولتیں دینے کے لئے ہوتے ہیں ، ٹریڈ یونینوں کے طور پر مظاہرے کرنا ان کا مینڈیٹ نہیں ہوتا، ہمارے دوست انوشہ رحمان کے ردعمل کو غلط قرار دیتے ہیں مگر ردعمل پر بحث کرنے سے پہلے یہ طے کرنا ضروری ہے کہ کیا عمل درست ہے؟
جی،مجھے یہ حدیث اس وجہ سے یاد آئی کہ ہمارے ایک مذہبی سیاسی رہنما نے بھی خم ٹھونک کر انوشہ رحمان کی طرف سے مبینہ طور پر موبائل کے چھینے جانے پر شدید قسم کا مذمتی بیان جاری کر دیا۔ میں نے بہت احترام کے ساتھ پوچھا، اگران کی بیوی کی کوئی ایسی ویڈیو بنائے تو وہ کیا اس کو جواز دیں گے، جواب یہی ملا کہ ان کی اہلیہ سیاست نہیں کرتیں اور نہ ہی ملازمت کرتی ہیں لہذا یہ ایک بے تکی مثال ہے، میرا سوال یہ ہے کہ جو عورتیں ملازمت یا سیاست کرتی ہیں وہ کون سا اخلاقی اور قانونی ضابطہ ہے جس کے تحت ان کی عزت نہ کرنا جائز قرار دیا جا سکتا ہے اور ان کی مرضی کے بغیرپبلک پلیس پر ان کی ویڈیوز بنا ئی جا سکتی ہیں۔ مزید کہا گیا کہ تم حدیثوں کی بات کرتے ہو، انوشہ رحمان کون سی حدیثوں پر خود عمل کرتی ہے، وہ ڈائس پر آکر خو د ویڈیوز بنواتی ہیں تو میرا جواب ہے کہ میں نے انوشہ رحمان کو کبھی بغیر دوپٹے کے نہیں دیکھا اور کسی خاتون عزت دینے کا معیار دین اور حدیثوں پر عمل کرنا ہی بنا دیا جائے تو پھر تمام غیر مسلم عورتیں تو ہر قسم کی بے عزتی کے لئے حلال ہوجائیں گی کہ وہ تو کسی حدیث پر عمل کی پابند نہیں ہیں۔دنیا بھر میں فردکی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے، یہ حق اس شخصیت کا ہے کہ وہ اپنی فوٹو یا ویڈیو بنوانا چاہتی ہے یا نہیں، میں پھر کہوں گا کہ میں اس بحث میں نہیں جاتا کہ سپریم کورٹ کے اندر ویڈیو بنانا تو ویسے ہی سپریم کورٹ کے اپنے قواعد و ضوابط کے منافی ہے، تان اسی پر ٹوٹتی ہے کہ اگر انوشہ رحمان نے اپنی مرضی کے بغیر ویڈیو نہیں بنوانی تو اپنے گھر بیٹھے۔
ہمارے دوست عامر ڈار کو امریکہ میں رپورٹنگ کے لیے پوسٹ کر دیا گیا، وہ کچھ ہی عرصے بعد واپس پاکستان آ گئے، ایک نشست میں ان سے تحقیق ہوئی تو بولے وہاں صحافت کرنا بہت مشکل ہے کہ قوانین بہت سخت ہیں، بتانے لگے کہ وہ اپنے گھر کے باہر کھڑے ہو کر امریکی انتخابات سے پہلے ایک ویڈیو بیپر ریکارڈ کروا رہے تھے کہ ہمسائے میں رہنے والا سنکی بوڑھا بکتا جھکتا باہر نکل آیا، اس کا اعتراض تھا کہ ویڈیو کیمرے کے فوکس میں اس کے مکان کا کچھ حصہ بھی آ رہا ہے اور وہ اس کی اجازت ہرگز نہیں دے گا۔ اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ یہ کوئی ذاتی نہیں بلکہ خبرکے حوالے سے ریکارڈ کیاجانے والا ایک بیپر ہے مگر اس نے شور مچا کر بہت ساروں کو اکٹھا کر لیا ، ہمارے پاکستانی صحافی دوست کو حیرت ہوئی کہ وہاں کے تمام لوگ اسی سنکی بوڑھے کی حمایت کر رہے تھے، بات یہاں تک پہنچی کہ اس بوڑھے نے پولیس تک بلانے کی دھمکی دے ڈالی۔ ان کے مطابق آپ کسی پارک میں اگر اپنی کھیل کود کی ویڈیو بھی بنا رہے ہیں تو آپ کے لئے لازم ہے کہ وہاں موجوددوسرے بچوں اور ان کے والدین سے باقاعدہ اجازت لیں کہ بغیر اجازت کے دوسروں کے بچوں کی ویڈیو بنانے پربھی آپ کے خلاف قانونی کارروائی ہو سکتی ہے۔
دنیا بھر کے بیشتر معاشروں کی طرح ہمارے معاشرے میں بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا اصول لاگو ہے، ہم لوگ اصولوں اور اخلاقیات کی بجائے دھڑوں کا ساتھ دیتے ہیں، یہاں وکلاء اس لئے احتجاج کرتے ہیں کہ ان کے پولیس اہلکاروں کو مارتے ہوئے ساتھیوں کا ہاتھ کیوں روکا گیا۔ یہاں وائے ڈی اے کے ارکان مریضوں اور ان کے لواحقین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قانونی کارروائی پر ہڑتال کر دیتے ہیں اور یہاں بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ ایک شخص کے ذاتی موبائل سے ویڈیو بنانے اور ویڈیو میں شوٹ ہونے والوں کی طرف سے اس ویڈیو کو ڈیلیٹ کروانے پر صحافتی برادری اسے آزادی صحافت کا مسئلہ بنا رہی ہے حالانکہ یہ مسئلہ بنیادی طور پر صحافت نہیں بلکہ افراد کی آزادی کا ہے۔ اگر ہم اسے ایک اصول اور ضابطے کے طو رپر قبول کر لیں تو ہردفتر، بازار اور پارک میں خواتین کی ویڈیوز بن رہی ہوں گی اور جب ان ویڈیو بنانے والوں کوروکا جائے گا تواب تک اختیار کی گئی منطق کے تحت یہی جواب ملے گا کہ اگر تم نے اپنی ویڈیو نہیں بنوانی تو اپنے گھر میں بیٹھو، باہر کیوں نکلتی ہو، تمہیں دفتر ، بازار یا پارک میں آنے کو کس نے کہا ہے۔ فیض احمد فیض نے شاید ایسی ہی کسی صورتحال بارے سگ آزاد اور سنگ مقید ہونے کی بات کی تھی۔ موبائل سے بنی ہوئی پرسنل ویڈیوز کسی وقت اس سے بھی کہیں بڑا مسئلہ کھڑا کر سکتی ہیں،اس پر گولیاں بھی چل سکتی ہیں اور قتل بھی ہو سکتے ہیں۔یہ تو ایک بااختیار خاتون کا معاملہ ہے جسے مسئلہ صرف یہ درپیش ہے کہ اس کی سیاسی بنیادوں پر اس کی پرائیویسی کے حق کی مخالفت کی جا رہی ہے ورنہ اصولی طور پر کسی بھی خاتون یا مرد کی اس کی مرضی کے بغیر ویڈیو کو بنانا اور اسے شئیر کرنا جرم ہے۔یہی کام اگر تحریک انصاف کی کسی خاتون کے ساتھ ہوا ہوتا تومسلم لیگ نون پر چڑھ دوڑنے والوں کا رویہ مختلف ہوتا ۔ میں سوچتا ہوں کہ ہم کچھ بنیادی اخلاقی، سیاسی اور جمہوری اصولوں پر اتفاق کیوں نہیں کرلیتے۔میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ مسلم لیگ نو ن کی حکومت اس سیاسی اور گروہی دباؤ کا شکار ہوجائے گی، انوشہ رحمان کو اس غصے کی قیمت ادا کرنا پڑے گی جو انہوں نے موبائل سے ان کی اجازت اور مرضی کے بغیر ویڈیو بنانے والے شخص پر کیا کیونکہ وہ ایک ترقی پذیر ملک کی ایک طاقت ور برادری سے تعلق رکھتا ہے، یہ ملک اپنی معاشرتی اور اخلاقی حالت میں بھی ترقی پذیر ہے، موبائل سے ویڈیو بنانے والے شخص کی برادری کے پاس یہ خوبی ہے کہ وہ فرد کی آزادی کے معاملے کو بھی صحافت کی آزادی کے معاملے کے طو ر پیش کر سکتے ہیں حالانکہ یہ بہت ہی سادہ معاملہ ہے کہ ایک عورت نے ایک ایسے مرد کو روکا جو اپنے موبائل سے اس کی ویڈیو بنا رہا تھا اور اس امر کا خدشہ تھا کہ سیاسی مخالفت رکھنے والی اس خاتون کی ویڈیو وائرل کی جا سکتی تھی۔
میں نے کہا،میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، ’ جو تم اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرو اگر تم مومن ہو‘ اور میرابہت بہت شور مچانے والوں سے سوال یہی ہے کہ اگر ان کی سیاسی مخالف انوشہ رحمان کی جگہ ان کی اپنی ماں، بہن، بیٹی، بیوی یا ساتھی ہوتی تو پھر بھی کیا وہ اس شخص کا ساتھ دے رہے ہوتے اور پلیز یہ گھٹیا دلیل مت دیجئے گا کہ اگرکسی خاتون نے ویڈیو نہیں بنوانی تو اپنے گھر بیٹھے۔