چھبیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

چھبیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان
چھبیسویں قسط۔۔۔ سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

سائیں سردار کا ایک اور مشاہدہ سن لیجئے’’نماز مغرب کے بعد ذکر میں مشغول ہوا تو روشنی ہو گئی۔ حضور قبلہ عالم کے تصوّر سے مشرف ہوا۔ ایک درویش آیا اور کہا کہ دربارِ غوثیت لگ گیا ہے اور تمہیں بلایا گیا ہے۔ پھر میں اس درویش کے ساتھ مغرب کی جانب چل پڑا، روشنی بہت تیز تھی۔ یہ پہلے سے بہت زیادہ تھی ، سامنے ایک باغ نظر آیا ۔ جب باغ کے سامنے گئے تو دروازہ بند پایا۔ عام مخلوقات کھڑی تھی ۔ ایک بزرگ نے اعلان کیا کہ جو بزرگ ہیں اندر تشریف لے آئیں چنانچہ دروازہ کھل گیا۔ سب بزرگ اندر چلے گئے۔ عام مبتدی درویش باہر کھڑے رہ گئے۔ آدھ گھنٹہ کے بعد دروازہ کھلا تو وہ بھی اندر چلے گئے ۔ پھر دوسرا دروازہ سامنے آ گیا۔ ایک لمبی داڑھی والے آدمی نے کہا کہ یہ راستہ بند ہے، اس راستے چلو۔ عام لوگ اس راستے پر روانہ ہو گئے۔ میں بھی ان میں شامل تھا۔ دیکھا کہ ایک آدمی تاج پہنے بیٹھا ہے اور سامنے میز پر سبز ریشمی پیراہن رکھے ہوئے ہیں ۔ جس شخص نے ہماری رہنمائی کی تھی۔ اس نے کہا کہ تمام زائرین اندر جاتے ہی سر بسجود ہوجائیں۔ چنانچہ تمام زائرین اندر داخل ہوئے تو کچھ جاتے ہی سر بسجود ہو گئے ۔ان کو کرسیوں پر بیٹھا دیا گیا ۔ان کو ریشمی پیراہن دئیے گئے مگر کچھ آدمی کھڑے رہے۔ میں بھی کھڑا رہا۔ دل میں خیال آیاکہ یہ کوئی شیطانی مجلس ہے۔ لاحول پڑھا تو تمام منظر غائب ہو گیا۔ پھر حضور قبلہ عالم کے تصوّر سے فیض یاب ہوا، دیکھا کہ اسی پہلے دروازے پر ہوں،سائبان جو دن کو دیکھا تھا وہاں مجلس گرم ہے۔ کرسی نما دو تخت موجود تھے ایک بڑا اور ایک چھوٹا۔ ان دونوں پر نورانی صورت دو بزرگ تشریف فرما تھے ۔دونوں کے آگے میزوں پر پیرہن رکھے ہوئے تھے۔ بڑے بزرگ والے میز پر سبز پیرہن اور دوسرے بزرگ کے سامنے جوگیا رنگ کے پیرہن تھے۔ علاوہ ازیں چھوٹی کرسیوں پر کئے بزرگ بیٹھے تھے جن کا نورانی چہرہ تھا ۔ چنانچہ ایک طرف سے آدمیوں کا امتحان شروع ہوا۔ سینکڑوں آدمیوں سے صرف پچیس آدمی منتخب ہوئے۔ بعض کو سبز اور بعض کو جوگیا رنگ کے پیراہن پہنائے گے اور اس کے بعد سب کو رخصت دی گئی۔

سلسلہ نوشاہیہ کی تحقیقی داستان ۔۔۔۔پچیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جن آدمیوں کو پیراہن دئیے گئے ان کے لئے علیحدہ راستہ تھا اور جو محروم رہ گئے تھے ان کے لئے علیحدہ راستہ تھا۔ پیراہن والے جب دروازہ پر پہنچے تو وہاں ایک آدمی ملا۔کہنے لگا جن پر انعام ہوا ہے اس جانب جائیں۔ چنانچہ ہم سب اسکی معیت میں چل پڑھے، ایک مکان میں داخل ہوئے جہاں بیشمار عورتیں زرق برق لباس پہنے ہوئے نظر آئیں۔ وہاں ایک بڑی ریش والے آدمی کو دیکھا جو یہ کہہ رہا تھا کہ یہ عورتیں ان لوگوں کے واسطے ہیں جن کو پیراہن دئیے گئے ہیں۔ چنانچہ ان عورتوں نے ہر آدمی کو ورغلانے کی کوشش کی ۔ فقیر نے لاحول پڑھا تو فوراً وہ منظر غائب ہو گیا۔اسکے بعد میں اپنے قبلہ شیخ کی زیارت سے بہ مشرف ہوا۔ تقریباًآدھ گھنٹہ تک زیارت کرتا رہا۔
سلوک کی تنہا منازل طے کرنا آسان کام نہیں ہے ۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے مرشد کامل کی نگاہ و توجہات و تصرفات کا غلبہ نہ ہو تو ایک سالک کو منازلِ سلوک کی جانب بڑھتے ہوئے، قدم قدم پر فریب و دغا ہوتا ہے۔ابلیس لعین ہرگز نہیں چاہتا کوئی بندہ، مومن کی معراج پانے اور اپنے باطنی نظام کو چلانے میں کامیاب ہوجائے ۔سائیں سردار کے مشاہدات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک مرید جب مرشد کامل کی انگلی پکڑ لیتا ہے تو وہ انہیں شیطانی مکروفریب کی ترغیبات ،لجانے لبھانے کی نفسانی حرکات سے کس طرح بچا کر لے جاتا ہے۔ تاہم اسکے لئے ایک سالک کی استقامت خود بھی بڑا امتحان ہوتی ہے۔ جو سالک مرشد کے التفات کا متمنی ہوتا ہے وہ ادب و خدمت سے فیض کے قابل ہوجاتا ہے۔اسکے دامنِ تارتار میں زم زم معرفت ٹھہر جاتا ہے،اسکی بے قراری واضطراب کو آسودگی حاصل ہو جاتی ہے، اسکے لطائف کو شعور کاملیت مل جاتا ہے،وہ اپنے دل کا میل صاف کرکے صوفی بنتا ہے تو دوسروں کے دلوں کی صفائی کے قابل ہوجاتا ہے،نخوت، تکبر ریاکاری، مالداری، ہوس گیری کی لت سے بے زار ہوجاتا ہے۔
حضرت سیّد ابوالکمال برقؒ نوشاہی کے خلیفہ سائیں سردار نے معرفت کی راہ پر چلتے ہوئے مشاہدات باطنی سے جو رموز حاصل کئے ،ایسا بہت کم خوش نصیبوں کو حاصل ہوتا ہے۔انکے مشاہدات درحقیقت اپنے مرشد کامل کے باطنی تصرفات اور مدارجِ معرفت کی شہادت دیتے ہیں۔ سائیں سردار کے مشاہدات و اسرار باطن کا جلوہ مزید دیکھئے۔وہ بیان کرتے ہیں’’حسب دستور حضور قبلہ پیرومرشد سے اذن پا کر میں مسجد میں گیا اور نماز ظہر سے پہلے جو نوشاہیہ اذکار کو دہرانے لگا۔میں محویت سے اذکار میں مشغول تھا کہ کیا دیکھتا ہوں میرے پیرومرشد سرخ لباس میں زیب تن ہیں ۔میں حضور کا دیدار کرتا رہا۔ آدھہ گھنٹہ بعد اندھیرا ہو گیا اور پھراچانک تیز روشنی پھیل گئی۔ اب کی بارقبلہ عالم کی شبیہ سفید لباس میں سامنے آئی اور فرمایا’’سائیں چلو، دربار میں حاضری ہے ۔‘‘
میں قبلہ کے پیچھے موؤب ہوکرچل دیا۔ مغرب کی جانب سے روشنی ہوئی ۔سامنے ہی ایک باغ نظرآیا۔ اس میں آدمیوں کو مختلف لباس دئیے گئے ۔باغ میں داخل ہوئے تو سامنے ایک اور دروازہ آیا ۔اس دروازے میں ایک بزرگ ہار لئے کھڑے تھے ۔انہوں نے ایک بڑا ہار قبلہ عالم کے گلے میں ڈالا اورباقی سب کو چھوٹے ہار دئیے۔ دروازہ سے اندر داخل ہوئے تو ایک اور بزرگ عطر لئے کھڑے تھے۔ انہوں نے پہلے قبلہ عالم کو عطر لگایا پھر دوسرے درویشوں کو عطر لگایا۔ سامنے ایک بنگلہ نما مکان دکھائی دیا ۔جب اس مکان میں داخل ہوئے تو دربار لگا ہوا تھا ۔ میں مجلس میں شامل ہو گیا۔ سامنے تخت پر دو بزرگ بیٹھے تھے۔ ان میں سے ایک بڑا تخت تھا اور ایک چھوٹا تخت تھا۔ باقی عام درویش نیچے بیٹھے تھے۔ میں دکن کی جانب دیکھتا ہوں۔ادھر دیوارگیر کھڑکیوں سے آدمی نظر آئے۔ ان کے منہ سیاہ تھے ۔ میں حیران ہوا کہ یہ کون ہیں؟ اس دوران،مجلس میں بیٹھے لوگوں کا امتحان ہونے لگا۔پندرہ آدمیوں سے صرف ایک پاس ہوا ۔ہمارے دس آدمیوں سے نو آدمی پاس ہوئے اور ایک فیل ہوا۔جو فیل ہوا تھا اس کا عقیدہ درست نہ تھا۔ اس لمحے پانچ مزید نئے آدمی ہمارے گروہ میں شامل ہو گئے ۔ ہمارے ساتھ پانچ عورتیں پاس ہوئیں۔ ان بزرگوں نے پہلے ہار اور رقم دینی چاہی تھی۔ اس کے بعد حکم ہوا کہ پانچ وقت کی نماز پڑھو اور تصوّر شیخ کی مشق کرو نیز تم پر کوئی پابندی نہیں۔تاہم تمہارے لئے ایک اور زیارت کرنی باقی ہے۔ اس کے ہونے کے بعد تم پر پابندی عائد کی جائے گی۔ اس کے بعد حکم ہواکہ نماز کا وقت ہو چلاہے لہٰذا ہم سب کواجازت دی جاتی ہے۔ وہاں سے فارغ ہو کر دروازہ سے نکلے تو دیکھاکہ کل جس آدمی نے مجھے بازو سے پکڑ کے کھینچا تھا وہ آگے کھڑا تھا ۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی طنزیہ اور قہریہ انداز میں کہا’’سائیں کل تیرا منہ سیاہ ہوگا اور تو گدھے پر سوارہوگا‘‘۔ اسکی بات سن کر میں نے پلٹ کر قبلہ پیر صاحب کی جانب دیکھا تو اسی لمحہ وہ گڑگڑا کر قبلہ عالم پیر صاحب سے معافی مانگنے لگا۔ میں نے پلٹ کر اسکی جانب دیکھا تو اسکا منہ سیاہ ہوچکا تھا۔وہ لعین تھا جو مجھے گمراہ کرنے کی نیت سے آیا تھا۔ قبلہ نے اسکی جانب دیکھ کر ابھی ہنکارا ہی بھر اتھاکہ وہ چلایا’’قبلہ مجھے معاف کردیں۔میں خطا کار ہوں،کل بھی غلطی کی اور سائیں کو گمراہ کرنا چاہا تھا اور آج بھی اسی نیت کے ساتھ آیا ہوں‘‘
پیر صاحب نے فرمایا’’اے لعنتی میں تجھے معاف نہیں کرسکتا۔تو ہمارے طالبان معرفت کو گمراہ کرتا ہے۔ہاں جب تک تم سجدہ نہیں کروگے تمہیں معافی نہیں دی جاسکتی‘‘ اس نے مزید منت سماجت کی،آہ وبکا کی تو حضرت پیر صاحب نے فرمایا ’’ آئندہ میرے آدمیوں کے ساتھ ایسی حرکت نہ کرنا ۔ آج تمہیں معافی دی جاتی ہے ،تمہارے لئے حکم ہے سجدہ کرو ۔ آئندہ غلطی کرنے پر تمہیں معافی نہیں دی جائے گی‘‘اس نے سنا تو سجدہ کرکے چلا گیا۔
جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں