فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ بارہویں قسط

فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ بارہویں قسط
فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ بارہویں قسط

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

یہ داستان آپ کو الف لیلہ سے مختلف نظر آئے گی کیونکہ اس میں بھی ایک کہانی سے دوسری اور دوسری کہانی سے تیسری داستان نکلتی رہے گی۔ اب یہی دیکھیے کہ قصہ ’’ چن وے ‘‘ کے زمانے کا ہو رہا تھا اور تان ٹوٹی جہانگیر خان اور مینا شوری پر۔
یہ داستان آپ اس کے بعد بھی تفصیل سے پڑھیں گے۔ تو ذکر ہو رہا تھا۔ ’’ چن وے ‘‘ کی شوٹنگ کا۔ شوٹنگ تو خیر شاہ نور میں ہو ہی رہی تھی مگر ’’چن وے ‘‘کی شوٹنگ کے زمانے میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے سارے ملک میں شہرت حاصل کر لی اور دیکھا جائے تو اسی واقعے کی بدولت فلمی دنیا سے ہمارا رابطہ زیادہ قریبی ہو گیا۔ ہوا یہ کہ ’’ چن وے ‘‘ میں نور جہاں ہیروئن تھیں مگر اس فلم میں سائیڈ ہیروئن کا کردار نگہت سلطانہ کر رہی تھیں۔

فلمی، ا دبی شخصیات کے سکینڈلز ۔ ۔ ۔ گیارہویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
’’ چن وے ‘‘ میں انہوں نے کام کیا تو شوخی وبے باکی کے باعث بہت جلد فلمی حلقوں میں ان کاچرچا ہونے لگا۔ اسی زمانے میں یہ بھی سننے میں آیا کہ شوکت حسین رضوی ان پر مہربان ہو گئے ہیں۔ یہ افواہ اتنی زیادہ پھیلی کہ مادام نور جہاں کے کانوں تک پہنچ گئی۔ شوکت صاحب کی رہائش گاہ اس وقت شاہ نور اسٹوڈیو ہی میں تھی۔ انہوں نے اپنے لیے ایک خوبصورت آرام دہ کوٹھی تعمیر کرالی تھی اور بڑے سلیقے سے اس کی آرائش کی تھی۔ ایک روز جب ’’ چن وے ‘‘ کی شوٹنگ ہو رہی تھی اور سیٹ پر نگہت سلطانہ موجود تھیں کسی نے جا کر مادام نور جہاں کے کانوں میں پھونک دیاکہ وہ شوکت صاحب سے بہت زیادہ بے تکلف ہو رہی ہیں۔ یقین نہ آئے تو خود جا کر دیکھ لیں۔
نورجہاں میں صبرو برداشت کہاں۔ فوراً کوٹھی سے نکل کر فلم کے سیٹ پر پہنچ گئیں اور وہاں جاکر نگہت سلطانہ کو کھری کھری سنائیں بلکہ مار پیٹ بھی شروع کر دی۔ شوکت صاحب اور دوسرے لوگ سنبھالتے ہی رہ گئے مگر وہ ایک بپھری ہوئی شیرنی بنی ہوئی تھیں۔ظاہر ہے کہ فلم کی شوٹنگ ملتوی کر دی گئی اور شوکت صاحب نور جہاں کو سمجھا بجھا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ نگہت سلطانہ پہلے تو عذر و معذرت کے موڈ میں تھیں مگر فلم انڈسٹری میں ہمیشہ سے کچھ ایسے عناصر بھی موجود ہیں جو بات کا بتنگڑ بنا کر اور معاملات کو بڑھا کر خوش ہوتے ہیں۔چنانچہ یہ لوگ نگہت سلطانہ کے پاس پہنچ گئے۔ پہلے تواظہار ہمدردی کیا۔ پھر نور جہاں کی زیادتی پر احتجاج کیا۔ اس کے بعد نگہت سلطانہ کو اس بات پر اکسایا کہ وہ مادام نور جہاں کے خلاف پولیس میں رپورٹ لکھوا دیں اور عدالت میں دعویٰ دائر کر دیں۔نگہت سلطانہ اس بات کے لیے تیار نہ تھیں۔ نہ تو وہ مالی اعتبار سے مقدمے کے اخراجات برداشت کر سکتی تھیں اور نہ شوکت رضوی اور نور جہاں ہستیوں سے بگاڑ کر اپنا مستقبل خطرے میں ڈالنا چاہتی تھیں۔یہ تو ایسی ہی بات تھی کہ سمندر میں رہ کر مگر مچھ سے بیر کر لیا جائے۔ شوکت صاحب اس وقت بہت بڑا نام تھے۔ اسٹوڈیو اونر تھے۔ نور جہاں کے نام کا اس زمانے میں بھی سکہ چلتا تھا۔ نگہت سلطانہ نے بہت انکار کیا مگر یار لوگوں نے انہیں مقدمہ دائر کرنے پر رضا مند کر لیا۔انہیں بڑے بڑے سبز باغ دکھائے۔ یہ بھی کہا کہ نور جہاں تم سے حاسد اور خائف ہیں کیونکہ تم بہت جلد نور جہاں کی جگہ لے لو گی۔ وہ کتنی ہی سینئر سہی ان کو تمھارے ساتھ یہ ہتک آمیز سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا۔ اس طرح لاہور کی ایک عدالت میں نگہت سلطانہ کی طرف سے نور جہاں اور شوکت حسین رضوی کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا گیا۔
اخبارات ویسے تو فلم والوں کی کوئی خبر شائع نہیں کرتے تھے مگر یہ نور جہاں اور شوکت حسین رضوی جیسی ہستیوں کا معاملہ تھا۔ پھر ایک ابھرتی ہوئی نوخیز اداکارہ کانام بھی اس میں شامل تھا۔ اس لیے قارئین کے لیے اس خبر میں دلچسپی کا کافی سامان تھا۔ چنانچہ ایک روز صبح کے تمام اخبارات کے صفحہ اول پر دو اور تین کالمی خبر شائع ہو گئی۔ نور جہاں اور شوکت حسین کا نام سرفہرست تھا۔ پھر خبر میں بیان بھی درج تھا جو نگہت سلطانہ کی جانب سے دیا گیا تھا۔گویا مسالے کا تمام سامان موجود تھا۔ اس خبر کو ان لوگوں نے بھی پڑھا جو اخبار نہیں پڑھتے تھے۔ تمام دن اس پر تبصرے ہوتے رہے۔ فلمی دنیا کے حوالے سے اچھائیاں اور برائیاں بھی ہوتی رہیں۔ہم بھی اپنے اخبار کے دفتر میں پہنچے تو یہی تذکرہ تھا۔ شام کو لکشمی چوک اور مال روڈ کے ریستورانوں میں بھی یہی خبر موضوع بحث بنی ہوئی تھی۔ ہر کوئی اپنی معلومات اور بساط کے مطابق حاشیہ آرائی کر رہا تھا۔ دوسرے دن اخباری کالموں میں اس خبر پر سب نے تبصرے کیے۔ اس طرح دو تین روز تک یہ خبر سارے شہر کے لیے بلکہ سارے ملک کے لیے موضوع بحث بنی رہی۔
نور جہاں اور شوکت حسین رضوی کو تو ساری دنیا جانتی تھی مگر ہر ایک دوسرے سے پوچھ رہا تھا ’’یہ نگہت سلطانہ کون ہے ؟‘‘
اس زمانے میں اخبارات میں تصاویر تو شائع ہوتی نہیں تھیں۔ کبھی کبھار اکا دکا بعض تصویریں بلاک پرنٹنگ میں شائع ہو جاتی تھیں۔کسی نے نگہت کا چہرہ نہیں دیکھا تھا۔ اس لیے ہر کوئی یہ جاننے کے لیے بے تاب تھا کہ آخر یہ نگہت سلطانہ کون ہے۔ کہاں سے آئی ہے۔ ایسی کون توپ چیز ہے کہ جس پر شوکت حسین رضوی جیسا شخص مہربان ہو گیا۔ جسے دیکھئے وہ نگہت سلطانہ کو دیکھنے اور اس کے بارے میں جاننے کے لیے بے تاب تھا۔
ہم نے عرض کیا ہے کہ اس زمانے میں روزنامہ ’’آفاق ‘‘ کے سنڈے ایڈیشن کے انچارج تھے۔ ہمارے انچارج ظہور عالم شہید صاحب(مرحوم ) تھے۔ وہ ’’آفاق ‘‘ کے نیوز ایڈیٹر بھی تھے۔ ہم ان کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ جب یہ خبر شائع ہوئی ہے اور ہر شخص نگہت سلطانہ کے بارے میں جاننا چاہتا ہے کیوں نہ کچھ کیا جائے۔‘‘
وہ کہنے لگا۔ ’’ ہاں بھئی۔ یہ تو میں بھی جاننا چاہتا ہوں کہ یہ نگہت سلطانہ کیا شے ہے؟‘‘
ہم نے کہا۔ ’’اگر آپ اجازت دیں تو ہم نگہت سلطانہ سے ایک انٹرویو کر لیں ؟‘‘
وہ سوچ میں پڑ گئے۔ پھر بولے۔ ’’ ہاں۔ انٹر ویو تو ہونا چاہیے مگر فلم ایکٹریس کا انٹرویو چھاپو گے ؟‘‘
ہم نے کہا۔’’ کیا حرج ہے۔ قارئین ا س کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں تو ہمیں انہیں معلومات پہچانی چاہیں۔‘‘
کہنے لگے ’’ ٹھیک ہے۔ کر لو انٹر ویو۔ مگر مجھے دکھا ضرور دینا۔‘‘
ہم دفتر سے نکلے اور سیدھے لکشمی چوک پہنچ گئے۔ ایک ریستوران کے اندر گئے۔ چند شعرا وہاں بیٹھے چائے نوشی میں مصروف تھے۔ سبھی ہمارے شناسا تھے۔ ہم نے ان کے ساتھ چائے بھی پی اور معلومات بھی حاصل کیں۔ ایک شاعر نے بتایا کہ وہ نگہت سلطانہ کا فلیٹ جانتے ہیں۔ سامنے رائل پارک میں ہے۔ دوسری منزل پر نگہت سلطانہ کی رہائش ہے۔ انہوں نے یہ پیش کش بھی کر دی کہ اگر کہو تو تمھارے ساتھ چلوں ؟
ہم نے کہا ’’ نہیں بھئی۔ ہمیں انٹر ویو لینا ہے۔ کسی اور شخص کی موجودگی مناسب نہ ہو گی۔‘‘
رائل پارک میں ہم نگہت سلطانہ کے فلیٹ تک پہنچ گئے۔ سامنے گلی میں چند بچے کھیل رہے تھے۔ اس زمانے میں رائل پارک اتنا آباد نہیں تھا۔ نہ ہی دولت کی اتنی فراوانی تھی۔ کار دیکھنے کو نہیں ملتی تھی۔ چند پریس تھے۔ کچھ دکانیں بھی تھیں۔ نگہت سلطانہ جس گلی میں رہتی تھیں وہ رہائشی علاقہ تھا۔ گلی میں جو بچے کھیل رہے تھے ہم نے ان سے پوچھا تو ایک بچہ کمر پر ہاتھ رکھ کر کھڑا ہو گیا۔ ’’ کیا کام ہے آپ کو نگہت باجی سے ؟‘‘
ہم نے پوچھا’’ وہ تمھاری باجی ہیں ؟‘‘
’’ جی ہاں وہ میری باجی ہیں۔ میں ان کے ساتھ رہتا ہوں۔‘‘
ہم نے کہا ’’ تو ہمیں اپنی باجی کے گھر لے چلو۔ ہم اخبار سے آئے ہیں۔ ان سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔‘‘
وہ کچھ فکر مند سا ہو گیا۔ بولا ’’تم انہیں پکڑنے تو نہیں آئے ؟‘‘
ہم نے کہا ’’ نہیں بھئی۔ ہم پولیس والے نہیں۔اخبار والے ہیں۔ تم چل کر ان کا فلیٹ دکھا دو۔‘‘
بچے نے فوراً رہنمائی کی اورسیڑھیاں چڑھ کر ہم دوسری منزل پر پہنچ گئے۔بچے نے کہا۔ ’’آپ یہاں ٹھہریں میں باجی کو بتاتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر وہ اندر چلا گیا۔
ہم نے چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔معمولی سا فلیٹ تھا۔ ہم نے فلم ایکٹریسوں کے بارے میں جس گلیمر اور چمک دمک کا تصوروابستہ کر رکھا تھا یہ جگہ اس کے بر عکس تھی۔ چند لمحے بعد دروازہ کھلا اور ایک سانولی سلونی‘ خوش شکل لڑکی سامنے جلوہ گر ہو گئی۔
’’ آپ کون ہیں۔ کیا کام ہے ؟‘‘
ہم نے کہا ’’ہم آفاق اخبار سے آئے ہیں۔نگہت سلطانہ سے انٹرویو کرنا ہے۔‘‘
’’آپ کو شوکت صاحب یا نورجہاں نے تو نہیں بھیجا؟‘‘
’’ ارے نہیں بھئی بتا تو رہے ہیں کہ ہم اخبار کے دفتر سے آئے ہیں۔‘‘
ہم اندر گئے تو فلیٹ کے اندربھی وہی عالم تھاجوباہر نظر آرہا تھا۔ غالباً دو کمروں کا فلیٹ تھا۔ بالکل سادہ‘ برآمدے میں ایک دو چارپائیاں پڑی تھیں۔ امارت تو کیا خوشحالی کی کوئی علامت بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ بلکہ غربت کا راج تھا۔ ایک نہایت پرکشش اور متناسب جسم کی جو لڑکی ہمارے آگے آگے چل رہی تھی وہ معمولی سی شلوار قمیص میں ملبوس تھی۔ بال بکھرے ہوئے تھے۔ چہرہ میک اپ سے خالی تھا۔ مگر وہ مسلسل بولے جارہی تھی۔ ’’ آپ کا کیا نام ہے۔ کون سے اخبار سے آئے ہیں۔ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں۔ آپ کو شوکت صاحب نے تو نہیں بھیجا۔ آپ میرا انٹر ویو کب چھاپیں گے ؟‘‘
وہ ہمارے جواب کا انتظار کیے بغیر سوال پہ سوال کیے جا رہی تھی۔ اس دوران میں ہم ایک چھوٹے سے کمرے میں پہنچ گئے تھے۔ یہاں ایک پرانا سا صوفہ سیٹ رکھا ہوا تھا۔ درمیان میں چھوٹی سی میز پر کچھ فلمی پرچے بکھرے ہوئے تھے۔
’’ آیئے بیٹھ جایئے۔ یہ جگہ زیادہ اچھی تو نہیں ہے مگر ہم لوگ تھوڑے دن پہلے ہی کراچی سے آئے ہیں۔ سوچاتھا کہ لاہور کی فلموں میں کام مل جائے گا مگر یہاں تو ایک اور ہی جھگڑا شروع ہو گیا ہے۔ پتا نہیں اب یہاں رہ بھی سکیں گے یا واپس کراچی جانا پڑے گا۔ کراچی میں تو انڈسٹری ہے ہی نہیں۔ کبھی کبھار کوئی فلم بن جاتی ہے۔ مجھے فلموں میں کام کرنے کا بہت شوق ہے۔ سب کہتے ہیں کہ میں ہیروئن بن سکتی ہوں۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟ ‘‘
اس سوال پر ان کی باتوں کا تسلسل ٹوٹا تو ہم نے ایک بار پھر غور سے ان کا جائزہ لیا۔ رنگ سانولا ضرور تھا مگر چہرہ اور جسم بہت دلکش تھا۔ ہمارے خیال میں فلموں کے لئے وہ بہت موزوں تھیں۔ ناک نقشہ تو خوبصورت تھا ہی مگر سب سے نمایاں اور حسین ان کی آنکھیں تھیں۔ ہم نے سوچا کہ اگر یہ لڑکی سنجیدگی سے کام کرے اور باتیں کم کرے تو واقعی ہیروئن بن سکتی ہے۔
اب وہ صوفے پر بیٹھ گئی تھیں۔ ’’یہ بتائیے آپ کیا پئیں گے ؟ چائے یا ٹھنڈا؟‘‘
ہم نے کہا ’’تکلف کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’یہ سگا بھائی نہیں ہے۔ مگر بالکل بھائیوں کی طرح ہے۔ یہ میرے ساتھ ہی رہتا ہے۔ ‘‘
یہ اسحاق اکرام تھے جو واقعی نگہت سلطانہ کے لئے بھائیوں سے زیادہ ہمدرد اور غم گسار تھے۔ بعد میں وہ ہدایت کار حسن طارق کے چیف اسسٹنٹ بھی ہو گئے تھے اور جب تک طارق صاحب زندہ رہے وہ ان ہی سے وابستہ رہے۔ کچھ عرصے پہلے ان کا انتقال ہو گیا ہے۔

جاری ہے۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

(علی سفیان آفاقی ایک لیجنڈ صحافی اور کہانی نویس کی حیثیت میں منفرد شہرہ اور مقام رکھتے تھے ۔انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے بھی ساٹھ سے زائد مقبول ترین فلمیں بنائیں اور کئی نئے چہروں کو ہیرو اور ہیروئن بنا کر انہیں صف اوّل میں لاکھڑا کیا۔ پاکستان کی فلمی صنعت میں ان کا احترام محض انکی قابلیت کا مرہون منت نہ تھا بلکہ وہ شرافت اور کردار کا نمونہ تھے۔انہیں اپنے عہد کے نامور ادباء اور صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا اور بہت سے قلمکار انکی تربیت سے اعلا مقام تک پہنچے ۔علی سفیان آفاقی غیر معمولی طور انتھک اور خوش مزاج انسان تھے ۔انکا حافظہ بلا کا تھا۔انہوں نے متعدد ممالک کے سفرنامے لکھ کر رپوتاژ کی انوکھی طرح ڈالی ۔آفاقی صاحب نے اپنی زندگی میں سرگزشت ڈائجسٹ میں کم و بیش پندرہ سال تک فلمی الف لیلہ کے عنوان سے عہد ساز شخصیات کی زندگی کے بھیدوں کو آشکار کیا تھا ۔اس اعتبار سے یہ دنیا کی طویل ترین ہڈ بیتی اور جگ بیتی ہے ۔اس داستان کی خوبی یہ ہے کہ اس میں کہانی سے کہانیاں جنم لیتیں اور ہمارے سامنے اُس دور کی تصویرکشی کرتی ہیں۔ روزنامہ پاکستان آن لائن انکے قلمی اثاثے کو یہاں محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کررہا ہے)