ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات

ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات
ڈونلڈ ٹرمپ کی ترجیحات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

امریکی انتخابی مہم میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت امریکی عوام کے علاوہ دُنیا کے دیگر ممالک لئے بھی حیران کُن رہی ہے۔ چونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی کا زیادہ تیر حصہ بز نس میں صرف ہوُا ہے لہذ ا لوگ اُنکی سیا سی سوچ کے بارے میں کم علم رکھتے ہیں۔ اِسلئے اُن کا ہر ایک سیاسی قدم تمام دُنیا کے لوگوں کے لئے موضوعِ بحث بن جاتا ہے۔ اُنکے صدارتی احکامات خاص طورپر امیگریش کے سلسلے میں جاری کردہ احکامات سات اسلامی ممال کے کے لئے خاص پریشانی کا باعث ہیں۔ اُن احکامات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کی ڈونلڈ ٹر مپ نے مُسلمانوں کو جان بوجھ کر ٹا رگٹ کیا ہے۔ لیکن اگر حقائق کا بچشم غور مطالعہ کیا جائے تو یہ بات جان کر حیرت ہوگی کہ اوبامہ انتظامیہ نے مذکورہ ممالک کی پہلے ہی سی ایسی فہرست مرتب کر رکھی تھی جن پر ویزے کی پا بندیاں لگانا مقصُود تھا۔ لیکن چند سیاسی مصلحتوں کی بنیاد پراِن مما لک کے خلاف عملی طور پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ کیونکہ صدر اوبامہ اِن ممالکے کے منفی ردِ عمل اور اثرات سے خود کو بچانا چاہتے تھے۔ تاکہ اِن مُلکوں کے عوام صدر اوبامہ کے اپنا دُشمن نہ سمجھیں۔ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ سیاست میں نو آموز ہیں۔ سیاسی تجر بہ نہ ہونے کے باعث وُہ بہت سارے فیصلے جلد بازی میں کر جاتے ہیں۔ جن سے اُنکی شخصی ساکھ متاثر ہو تی ہے ،۔ تاہم وُہ سمجھتے ہیں کہ مُلک کے مُفادات میں درست فیصلے کرنا اُنکی ذ مہ داری ہے۔ امریکہ کو مضبوط کرنا اور سَب سے مقدم رکھنا ہی اُنکا مقدس فریضہ ہے۔ اُس پر کوئی سودا بازی نہیں ہونی چاہئے۔
یہ بات بھی لوگ جانتے ہیں کہ اوبامہ خُود اور اُنکی ساری انتظامیہ ہلیر ی کلنٹن کو انتخابات میں سپورٹ کرتے تھے۔ اُنکی خو اہش تھی کہ انتخابات میں ہلیر ی کلنٹن کو جیتنا چاہئے ۔ کیونکہ اُنکے نزدیک صدارتی اُمیدوار کے طور پر یلیری ایک منجھی ہوئی سیاستدان تھیں۔ جنہوں نے بطور سیکٹریری خارجہ امریکہ کی خدمت کی تھی۔علاوہ ازیں، وُہ ماضی میں لمبی مُدت کے لئے خاتون، اوّل رہ چُکی ہیں اور اُنکو سابقہ صدر امریکہ بِل کلنٹن کی مد د اور مشاورت حاصل تھی۔ جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو بیشک تجربہ کار انتخابی ٹیم میسر تھی تاہم اُنکوذاتی طور پر سیاست کا زیادہ تجربہ نہ تھا۔ اوبامہ کا تعلق چونکہ ڈیمو کرٹیک پارٹی سے تھا اور ہلیر ی کلنٹن بھی اُسی ساسی جما عت سے وابستہ تھی۔ لہذا اوبامہ اور ہلیری کے درمیاں ذہنی اور عملی تال میل موجود تھا۔ وُہ ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے تھے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابات میں جیت اوبامہ اور ہلیر ی کے لئے ایک اچنبھے سے کم نہ تھی۔ اوبامہ نے ڈونلڈ ٹرمپ کو محتاط انداز میں کھری کھری سُنائیں اور عوام کو یہ تا ثر دینے کی کوشش کہ عوام کو ہلیر ی کلنٹن کو بطور صدر مُنتخب کرنا چاہئے۔ لیکن بد قسمتی سے اوبامہ ، ہلیری اور اُنکے سپوٹروں کی خواہشات کے خلاف عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بطور صدر منتخب کر لیا۔ اِس انتخاب کو ہلیری کلنٹن کے سپوٹروں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بعض ریا ستوں میں صدر دونلڈ ٹرمپ کی جیت کو چیلنج کیا گیا۔ جو کہ یقیناً نو مُنتخب صدر کے لئے پریشانی کا با عث تھا۔ اُنکو پریشان کرنے کے لئے عوام میں مظاہرے ہوئے۔ حتیٰ کہ امریکہ کے خفیہ ادارے نے یہ کہا کہ انتخا بات میں روسی کی خفیہ ایجنسی نے ڈونلد ٹرمپ کی مد دکی تھی ۔ کسی بھی نو منتخب صدر پرایسا الزام لگانا بہت بڑا قدم ہے۔ جس کو امریکہ اور یوروپ میں رہنے والے لوگ اٹھانے سے گُریز کر تے ہیں۔ لیکن اُوبامہ نے مشتعل لوگوں کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کو ہارڈ ٹایم دینے کے لئے انکوائر ی کا حکم دیا۔ لیکن اِس تحقیق سے بھی کوئی خاطر خواہ ثبوت نہیں مِل سکا جس سے انتخابات کو کالعدم کرنے کے لئے قانون چارہ جوئی کی جاسکے۔ تاہم اوبامہ کے اِس رویے سے دونلڈ ٹرمپ کو یہ تا ثر مِلا کہ اوبامہ ہر ممکن طریقے سے اُنکو نُقصان پہنچانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ لہذا ا نہوں نے اوبامہ کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار اِس طرح کیا کہ تقریب حلف وفاداری اٹھانے کے بعد انہوں اوبامہ ہیلتھ کئیر پلان کو ختم کرنے کے صدارتی حُکم نامہ جاری کیا۔ انہوں ہر وُہ کام کرنے کی ٹھانی جس سے اوبامہ انتظامہیہ کو ذہنی طور پر ٹھیس پہنچے۔ اِس کے علاوہ، ٹرمپ کا المیہ یہ تھا کہ اپنی انتخا بی مہم میں کئے گئے وعدوں کو بھی وُہ جلد از جلد پایہ ء تکمیل تک پہنچانا چاہتے تھے تاکہ وُہ اپنے ووٹروں کو با ور کر وا سکیں کہ وُہ ایک عملی شخص ہیں اور اپنے وعدوں کو ہر لحاظ میں پورا کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔
امریکی عوام میں یہ تا ثر بھی پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ رُوس کے ساتھ اُن کے خاص تعلقات ہیں اور روس اُنکو اپنے مُفادات کے لئے اپنی اُنگلیوں پر نچائے گا۔ باالفاظِ دیگر ، رُوس کو ایک سُنہری موقعہ مِل جائے گا کہ وُہ امریکہ پر فوقیت حا صل کر لے۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ رویے اور بیانات سے یہ بات ظاہر کر دِی ہے کہ وُہ امریکی مُفادات پر کسی قسم کی نرمی نہیں دکھائیں گے۔ پہلے امریکی صدور کے خیالات کے بر عکس وُہ ایٹمی ہتھیاروں میں تخفیف کے قائل نہیں۔ اُنکی خواہش ہے کہ دُنیا سے ایٹمی ہتھیاروں کو ختم کیا جائے لیکن وُہ یکہ طرفہ طور پر ایٹمی ہتھیاروں کرنے پر آمادہ نہیں بلکہ وُہ دُنیا کے تمام ممالک سے زیادہ ایٹمی ہتھیار بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ کیونکہ وُہ کسی بھی سطح پر امریکہ کو دُنیا میں کمزور نہیں دیکھنا چاہتے ، جبکہ رُوس کی یہ خو اہش ہے کہ وُہ امریکہ کو یہ باور کروائے کہ وُہ بھی امریکہ کی طر ح ایک سُپر پاور ہے اور امریکہ کو ہر محاذپر ٹکردینے کی اہلیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے برعکس رُوس نے اپنی توجہ ایٹمی ہتھیاروں کو مزید بڑ ھانے کی بجائے سا ئبر جنگ میں زیادہ مہارت حاصل کرنے پر مرکوز کر ر کھی ہے۔ وُہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگوں کو بھی اَب روائیتی انداز جنگ خیال کرتا ہے۔ اُن کو نزدیک ایک گولی کو چلائے بغیر کسی بھی مُلک کے کنٹرول اور کمانڈ سسٹم کو سائبر جنگ کی بدولت زیر کیا جا سکتا ہے۔ رُوس نے2008میں باقاعدہ طور پر فوج کی ایک ڈویژن کو سائبر جنگ میں نَت نئے تجربے کرنے، انفرمیش حاصل کرنے اور نئی ایجادات کے لئے وقف کر ر کھا ہے۔ لیکن قارئین کی دلچسپی کے لئے یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ آج بھی رُوس کے پاس امریکہ سے زیادہ ا یٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ روس ہر شعبے میں امریکہ کو ٹکر دینے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔ لیکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں یہ سمجھنا کہ امریکہ کے رُوس کے ساتھ زیادہ دوستانہ تعلقات ہونگے، محض خام خیالی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مُطابق، شام میں دونوں فریق د اعش کو ختم کرنے کے لئے اپنے اختلافات بھُلا کر ایک دوسرے سے تعاون کر سکتے ہیں ۔لیکن مشرقی یوروپ میں دونوں ایک دوسرے کے مِد مقابل ہی رہیں گے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیٹو جیسی تنظیم سے ہر گز نہیں نکلیں گے بلکہ اُسکو مضبوظ بنا نے کی کوشش میں ہیں ۔ تاہم اُنکی خواہش ہے کے اِس تنظیم میں شامِل تمام اراکین طے شُدہ فارمولے کے تحت مُلک کی پیدوار کا دو فیصد حصہ نیٹو فنڈز میں دیں۔
امریکہ کے نائب صدر مسٹر پنس نے چند روز قبل نیٹو کے دفاتر کا دورہ کرتے ہوئے اِس تا ثر کی نفی کی کہ امریکہ نیٹو سے نکلنا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا امریکہ اِس تنظیم کو مضبوط سے مضبوط بنانا چاہتا ہے۔ لیکن دوسرے ممالک سے اُمید رکھتا ہے کہ وُہ بھی اپنا بھی فنڈز طے شُدہ فامولے کے مُطابق نیٹو فنڈز میں ڈالتی رہیں گی۔ امریکہ اکیلا سارا بو جھ برد اشت نہیں کر سکتا۔ تاہم دونلڈ ٹرمپ کے دورِ صدارت میں رُوس کے ساتھ اچھے تجارتی تعلقات تو امریکہ کے قایم ہو سکتے ہیں لیکن مسابقت کے رویے میں کوئی تبدیلی ممکن نہ سکے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کو ہر صورت ایک طاقتور مُلک بنانا چاہتا ہے۔

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -