جمہوریت، ٹکے کے کھیل سے نجات کا بہترین حل حاضر ہے
اصل میں جمہوریت عوام یعنی جمہور کی رائے کی بنیاد پر حکمرانی کے طرز کا نام ہے عام رائج الوقت سیکولر ڈیمو کریسی میں ون مین ون ووٹ کا طریقہ انتخاب خالصتاً پیسے ٹکے کا کھیل بن چکا ہے ۔اسلئے پاکستان کے اندر موجودمفادپرست طبقات جاگیرداروں لٹیرے صنعتکاروں ،سود خور نو دولتیے سرمایہ داروں کاہمیشہ پروپیگنڈا رہتا ہے کہ متناسب نمائندگی جمہوریت کی ضد ہے انتخابات کے دنوں میں کسی سیٹ کو جیتنے کے لیے جو چالیس پچا س ہزار ووٹ لینا ہوتے ہیں وہ نام نہاد سیاسی مالی طور پر مضبوط افراد بھاری رقوم سے حاصل کرنے میں آج تک کامیاب ہوتے رہے ہیں الیکشن کمیشن کودس بیس لاکھ کا خرچہ کی رپورٹ بھیجناان کا جھوٹا اور لغو عمل ہو تا ہے ۔اگر دوبارہ بھی عام انتخابات انھی بنیادوں پر منعقد کیے گئے تو لازماً 95فیصد سے زائد افراد کا تعلق بظاہر دین دار مگر سیکولرمفاد پرست کرپٹ لالچی سرمایہ پرست طبقات سے ہی ہو گا۔اور وہ 65فیصد افراد جو کہ غربت کی لکیر سے نیچے اپنی گزر بسر کررہے ہیں ۔ان کی نمائندگی ماضی کی طرح نامعلوم ہی رہے گی۔اورپسماندہ وپسے ہوئے دیگر طبقات کی نمائندگی بھی شاید ایک یا دو فیصد سے نہ بڑھ سکے۔سیاسی پارٹیوں کی ریڑھ کی ہڈی قیمتی نوجوان کارکن کے لیے انتخابات میں ٹکٹوں کا ہی حصول ناممکن ہے کہ وہ "قیادتوں کو کروڑوں کا چندہ "ہی نہیں دے سکتا اگر کسی کو پارٹی ٹکٹ جاری بھی کردے تو روپوں پیسوں کی محتاجی وکمزوری کی وجہ سے وہ رائج جمہوری نظام میں منتخب ہی نہیں ہو سکتا ۔
اصل بات یہی ہے کہ تیس پینتیس ہزار ووٹ لازماً خرید کر ہی انتخاب جیتا جا سکتا ہے۔اور یہ بھی کہ اپنے تمام عزیز و اقارب ،برادری کے تعلق دار افراد و دیگر دوست احباب کے ملک بھر سے ووٹ اپنے مخصوص حلقہ انتخاب میں لا کر درج کروائے ۔تبھی وہ اپنی سیٹ کو جیت سکتا ہے ۔اسطرح کسی ارب پتی صنعتکار ہزاروں ایکڑوں کے مالک وڈیرے ،تمندار یا جاگیر دار اور نودولتیے سود خور سرمایہ داروں کی طرف سے پیسے کی بہتات کی وجہ سے ان کی کامیابی یقینی ہوتی ہے۔ایسے تمام افراد جتنا خرچ کرتے ہیں اس سے پندرہ بیس گنا زیادہ سرمایہ سڑکوں کی تعمیرات و دیگر سرکاری کاموں اور براہ راست خزانوں کو ہی لوٹ کر بنا لیتے ہیں۔پھر اگلے انتخابات میں یہی " کماؤ پتر" غریبوں کے خون سے چوسے گئے اسی سرمایہ کو خرچ کرکے نچلے طبقات کی گردنوں پر سوار ہو جاتے ہیں۔قائد اعظم کی وفات کے بعد یہی گھن چکر چل رہا ہے۔تقریباً سبھی بڑی سیاسی پارٹیاں مفاد پرست کرپٹ طبقات کی راج دھانیاں اور آماجگاہیں بنی ہوئی ہیں مزدوروں کسانوں اور نچلے طبقات کی نمائندگی نہ ہو سکتی ہے اور نہ ہی کسی طرح ممکن ہے جب تک ان طبقات کی نمائندگی ہماری اسمبلیوں میں نہیں ہو جاتی ان کے مسائل کو سمجھنا اور حل کرنا ناممکنات میں سے ہے ۔ان کے مسائل کے حل کاواحد پہلااور آخری طریقہ صرف اور صرف یہی ہے کہ ان طبقات کی متناسب نمائندگی بلحاظ تعداد آبادی ہو۔جو اپنے طبقے کے مسائل سے مکمل آگاہی رکھتے ہوں گے تو تبھی حل ممکن ہو گا اسلئے اصل جمہوری طریقہ بھی یہی ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی کی بنیاد پر ہوں اور یہ طریقہ کوئی نیا نہیں۔بیشتر سارک ممالک سمیت دنیا بھر کے 80 سے زائد ممالک میں رائج ہے جو کامیابی سے جاری ہے اور لوگ خصوصاً نچلے طبقے کے افراد بھی برابری کی بنیادیں ہونے پر خوش و خرم زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔سب سے احسن مناسب متناسب نمائندگی کی صورت صرف طبقاتی نمائندگی ہے یعنی مزدور کسان محنت کش وکلاء انجنئیرز ڈاکٹر صحافی دوکاندار علماء پیران عظام موچی نائی دھوبی ترکھان و دیگر سبھی کو ان کی تعداد کے تناسب کے مطابق سیٹیں الاٹ کی جائیں ۔ووٹ براہ راست سیاسی پارٹیوں کو دیے جائیں ۔آزاد امیدواروں کا تصور ختم ہو ہر سیاسی پارٹی سبھی طبقات کی تعداد کے مطابق اپنی تمام سیٹوں کی ریزرویشن کے لیے الیکشن کمیشن میں اندراج کروائے۔امیدواروں کی بھی اسی ترتیب سے فہرست الیکشن کمیشن میں جمع ہو تاکہ جو پارٹی جس تناسب سے ووٹ حاصل کرے اس کے امیدوار بھی طبقات کی تعداد کے مطابق آٹومیٹک طریقہ سے منتخب قرار پاجائیں ہر طبقہ کے افراد مکمل مطمئن ہوگئے تو کسی کو فکر نہ ہو گی۔ ہر طبقہ کی نمائندگی کرنے والے افراد ممبران اسمبلی ہوں گے تو ان کے مسائل مکمل اجاگر ہو کر ان کا حل ممکن ہو گا ۔ایسے نظام کے نفاذ کے بعد کسی کو ضیاء الحق نواز شریف ،پرویز مشرف یازرداری بننے کی اجازت نہ ہو گی اور نہ ہی جرآت کہ خود ا حتسابی کا نظام نافذ ہو کر منتخب ممبران خود محتسب بھی ہوں گے۔ اس طرح اغلب امر یہی ہے کہ مزدوروں کسانوں و دیگر نچلے پسے طبقات کوانتخابات میں 75فیصد سے زائد نشستیں ملیں گی۔ سارے مفاد پرست جاگیرداروں ،سرمایہ داروں اور ڈھیروں گنازیادہ منافع کمانے والے صنعتکاروں کو شاید حصہ میں ایک سیٹ ہی آئے گی جبکہ رواج شدہ جمہوریت میں ان کی سیٹیں نوے فیصد سے زائدرہتی ہیں۔متناسب نمائندگی جو کہ اصل جمہوریت ہی ہے تو گلیوں کوچوں چکوں گوٹھوں سے کچلے ہوئے طبقات کے لوگ تنگ آمد بجنگ آمد کی طرح اللہ اکبر اللہ اکبر کے نعرے لگاتے تحریک کی صورت میں نکل کر بلحاظ تعداد آبادی متناسب نمائندگی کے ذریعے انتخابات میں روایتی سیاستدانوں کا تیا پانچا کر ڈالیں گے ۔جس سے قائم شدہ حکومت بیروز گاری غربت مہنگائی دہشت گردی جیسے مسائل کو حل کرکے ملک کو فلا حی مملکت بنا ڈالے گی ہمارے ہاں تو منتخب اسمبلیاں بھی توڑی جاتی رہی ہیں کہ ایک جاگیردار گروہ دوسرے وڈیرہ گروہ کو برداشت نہ کرسکتا تھا اقتداری بندر بانٹ کے لیے تو اس وقت کے سیاستدانوں نے ملک دو لخت کر ڈالا ہمیشہ انتخابات کے بعد دھاندلیوں کے الزامات مگر ہم ٹھہرے لکیر کے فقیر پرانی ڈگر کو تبدیل کرنے یا کوئی نیا طریقہ انتخاب اختیار کرنے سے کتراتے ہیں کہ اس طرح کہیں مفاد پرست سیاسی گروہوں کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد نہ ڈھ جائے۔
ابھی سابقہ انتخابات میں مسلم لیگ نے ایک کروڑ بیس لاکھ ووٹ لیکر سو نشستیں مگر پی ٹی آئی نے ساٹھ لاکھ ووٹ لیے مگر اسے پچاس کی جگہ چو نتیس نشستیں مل سکیں۔اسطرح امیدوار ستر ہزر ووٹ لے تو 69ہزار والے شکست خوردہ امیدوار کے ووٹر پانچ سال تک اپوزیشن میں رہیں گے ۔ان کا کوئی جائز کام بھی نہ ہو سکے گا۔متناسب نمائندگی کے تحت ہر ووٹر برسر اقتدار ہو گاآزاد بندے جیت کر " بکاؤ " بن کر ذاتی مفادات نہ سمیٹ سکیں گے اور مفاداتی گروہ من مانی نہ کر سکیں گے۔
.
نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔