”کیا آپ کو میر ی آواز سنائی دے رہی ہے “جعل سازوں نے فون پر لوگوں سے پیسے ہتھیانے کا نیا طریقہ اپنا لیا

”کیا آپ کو میر ی آواز سنائی دے رہی ہے “جعل سازوں نے فون پر لوگوں سے پیسے ...
”کیا آپ کو میر ی آواز سنائی دے رہی ہے “جعل سازوں نے فون پر لوگوں سے پیسے ہتھیانے کا نیا طریقہ اپنا لیا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن )”کیا آپ کو میری آواز سنائی دے رہی ہے “، یہ وہ عام سا لفظ ہے جو ہم سے جب بھی فون پر پوچھا جاتا ہے تو ہم ا س کا جواب ”ہاں“ میں دیتے ہیں مگر اب جعل ساز لفظ ’ہاں‘  کو پیسے ہتھیانے کیلئے استعمال کرنے لگے ہیں ۔

خلیج ٹائمز نے ڈیلی میل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ بعض جعلساز فون کال کے ذریعے لوگوں سے بات کرتے ہیں اور ان کی زبان سے”ہاں“ کا لفظ اگلوا کر جواب ایڈیٹ کرتے ہیں اور پھر ان کی رقم چرا تے ہیں ، ماہرین کا کہنا ہے کہ جعل سازی کا یہ نیا طریقہ آہستہ آہستہ دنیا بھر میں پھیل سکتا ہے ۔

شادی کے سیزن میں اس چیز سے بال دھونے سے ان میں ایسی چمک آئے گی کہ سب آپ کی تعریف کرنے پر مجبور ہوجائیں گے

جعل سازی کے اس طریقہ کار میں ملزمان لوکل نمبر سے کسی کو فون کال کرتے ہیں اور اپنا اور اپنی کمپنی کا تعارف کراتے ہیں ۔ اس مختصر سے کلام کے بعد ملزمان انتہائی چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے فون لائن پر موجود شخص سے اچانک پوچھتا ہے کہ کیا آپ کو میری آواز سنائی دے رہی ہے ؟
اگر آپ اس پر” ہاں “میں جواب دیتے ہیں تو ملزمان آپ کا جواب ریکارڈ کر لیتے ہیں اور پھر اسے ایڈٹ کر کے ایسے بیان میں ڈھال لیتے ہیں جس سے یہ لگتا ہے کہ آپ نے کیساتھ زبانی معاہدہ طے کر لیا ہے اور پھر آپ کی آواز پر مشتمل اس تبدیل شدہ ساﺅنڈ کو استعمال کر کے آپ سے بہت بڑی رقم چرا لی جاتی ہے ۔
ایک بار آپ کی زبان سے ”ہاں “کا لفظ نکل گیا تو اس کے بعد اپنے موقف کو تبدیل کرنے کی آپ کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہونے والی کیونکہ جعل ساز ”ہاں “ کے الفاظ پر مشتمل آپ کی آواز کو دوبارہ چلا کر اس پر قانونی کارروائی بھی کر سکتے ہیں ۔

TapMad نے ہمہ وقت سرگرم رہنے والوں کے لئے انٹرٹینمنٹ کی نئی دنیا متعارف کروادی

اس کے علاوہ جعل سازوں کے بعض گروہ لوگوں کی آوازوں کو کریڈٹ کارڈز چرانے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں تاہم اس قسم کی جعل سازی سے بچنے کا صرف ایک ہی حل ہے کہ آپ کسی غیر متعلقہ فون کالر کو اپنی ذاتی یا حساس معلومات دینے سے گریز کریں ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جعل سازی کے یہ طریقے زیادہ تر امریکا میں عام ہیں جہاں روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو پیسوں سے محروم کیا جا رہا ہے اور خدشہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ٹیکنالوجی کو استعمال میں لاکر جعل سازی کرنے والے گروہ اس طریقہ واردات کو دنیا کے دیگر ممالک تک بھی پھیلا سکتے ہیں ۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -