پڑھو استغفراللہ....

پڑھو استغفراللہ....
پڑھو استغفراللہ....

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

قرآن میں ارشاد ہوتاہے”اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو"
عدالت عظمیٰ پانامہ سکینڈل کیس پر سماعت مکمل کر چکی، فیصلہ محفوظ ہوچکا اوراب یہ کسی بھی دن سنایا جا سکتا ہے۔ فیصلہ کیا ہوگا، اِس پر قطعی بات کرنا تو درکنار ہم تبصرہ کرنے کے بھی مجاز نہیں۔البتہ دیکھنا ہوگااونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، کیا تمام سیاسی جماعتیں فیصلہ قبول کر لیں گی؟ کیا تمام فریق خوش ہو جائیں گے؟ کیا فیصلہ عوام کی امنگوں کے مطابق یعنی اخلاقی گراؤنڈز کو مدنظر رکھتے ہوئے سنایا جائے گا یا قانون و شواہد کی روشنی میں ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن پر بات ہو سکتی ہے مگر ہم اِن پر بھی بات نہیں کریں گے۔لیکن ذرا ملک کی اقتصادی حالت ملاحظہ کیجئے۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اکتوبر 2016 میں قومی اسمبلی میں تحریری طور پر بیان جمع کرایا کہ حکومت نے گزشتہ پانچ برس کے دوران چھے ہزار دو سو نوے ارب روپے کا ملکی اور نو ارب ستر کروڑ ڈالر کا غیرملکی قرضہ حاصل کیا۔ غیرملکی قرضہ 2060تک واپس کیا جائے گا۔ بی بی سی کے مطابق قومی اسمبلی کو بتایا گیا کہ جب موجودہ حکومت برسراقتدار آئی تو یہ قرضے 48 ارب دس کروڑ ڈالر تھے۔ موجودہ حکومت کا قرضہ شامل کر لیا جائے تو یہ 57 ارب 80کروڑ ڈالر کی سطح پر پہنچ چکا ہے۔دوسری طرف حکومت قومی ادارے اور بیرون ملک موجود جائیداد اونے پونے داموں فروخت کیے جا رہی ہے۔ موٹرویز،ائیرپورٹس اور دیگر اہم سرکاری عمارتیں گروی رکھ دی گئی ہیں۔ تیسری جانب ہر وزیر مشیر اور چپڑاسی تک گردن تک کرپشن کی دلدل میں غرق ہو چکا ہے۔
ڈاکٹر عاصم حسین کو پکڑیں تو 462ارب روپے کے ریفرنسز تیار ہو جاتے ہیں، سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق رئیسانی اور مشیر وزیراعلیٰ بلوچستان خالد لانگو 2 ارب 20کروڑ روپے کی کرپشن کا اعتراف کر لیتے ہیں۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اسلم رئیسانی کے خلاف 100 ملین سے زائد کے اثاثے بنانے کی تحقیقات کی جاتی ہیں۔ اِسی طرح نیب نے سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا امیر حیدر ہوتی، سابق وزیر مواصلات ارباب عالمگیر و دیگر کے خلاف تحقیقات مکمل کر لی ہیں۔ ایک شخص تقسیم ہند کے بعد قبضہ میں لیے گئے سینما گھر میں بلیک میں ٹکٹس بیچتے بیچتے ملک کا تیسرا امیر ترین فرد بن گیا مگر کیسے؟ اس کا منہ بولا بھائی، ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ بن بیٹھا اور بہن نے وطن عزیز کو چراگاہ بنا لیا۔ پرویز مشرف سے جب خطیر دولت کی بابت دریافت کیا جاتا ہے تو کہتے ہیں، شاہ عبداللہ مرحوم نے اکاؤنٹس میں پیسے ڈال دیے تھے۔ جنرل کیانی کے بھائیوں کے قصے بھی زبان زدعام ہیں۔ اِدھر مے فئیر فلیٹس کے معاملہ پر نواز شریف کا خاندان تقریباً ایک سال سے میڈیا میں زیربحث ہے، شہباز شریف پر بھی انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ ان کے صاحبزادے ڈی فیکٹو وزیراعلیٰ بنے ہوئے ہیں اور سرکاری چھتری تلے "دن دوگنی رات چوگنی" ترقی کر رہے ہیں۔
جناب شہباز شریف ہر تقریر میں فرماتے ہیں، سوئس اکاؤنٹس میں ساٹھ ارب روپے (حالانکہ اسحاق ڈار نے تسلیم کیا ہے کہ یہ رقم دو کھرب روپے سے زائد ہے) پڑے ہیں جو پکار پکار کر کہہ رہے ہیں، پاکستانیو! ہم تمہارے ہیں، آ کے لے جاؤ۔۔
میاں صاحب! آپ کے بڑے بھائی، وزیراعظم ہیں، ایک مراسلہ لکھ کر تمام دولت واپس منگوائی جا سکتی ہے، آپ ان سے خط لکھنے کا کیوں نہیں کہتے؟
یاد رہے، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے نااہلی قبول کر لی تھی مگر سوئس حکومت کو خط لکھنا گوارا نہ کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو کیا اِسی بنیاد پر بڑے میاں صاحب کو بھی نااہل نہ کر دیا جائے؟۔ سیاستدان ہوں یا فوجی، بیوروکریٹ ہوں یا علماء، صحافی ہوں یا وکیل کس نے بہتی گنگا میں ہاتھ نہیں دھوئے، ریاست کو بچانا ہے تو بے رحم احتساب کرنا ہو گا مگر سب کا۔
نواز شریف ایک فرد کا نام نہیں بلکہ مافیا کے نمائندہ ہیں، یہ مافیا پورے ملک پر ، ہر کاروبار پر، ہر شعبہ پر قابض ہے، اِس سے نجات حاصل کرنا ہو گی۔
قوم کو دو اقدامات کرنا ہوں گے، ایک یہ کہ کثرت سے استغفار اور دوسرا کرپٹ سیاسی قیادت سے چھٹکارہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورنہ اللہ کا کوڑا حرکت میں آئے گا اور کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ اوپر کی فصل کاٹی جائے گی تو نیچے سے نئی اور اچھی فصل اگے گی۔
پانامہ سکینڈل کیس کا جو بھی فیصلہ آئے، ایک فریق قطعاً خوش نہ ہو گا، وہ سڑکوں پر دھرنا دے گا، پھر دوسرے کیونکر نچلا بیٹھیں گے، خاکم بدہن، لگتا ایسے ہے، گلی گلی محلے محلے دمادم مست قلندر ہو گا۔
وطن عزیز میں اب جھاڑو پھرنے والا ہے، اِن شاءاللہ آئندہ چھے ماہ سے آٹھ برس میں پاکستان ساٹھ اور ستر کی دہائی والی رفعتوں سے ہمکنار ہو جائے گا مگر اِس میں کرپٹ،نااہل اور اقربا پرور سیاسی قیادت کی کوئی گنجائش نہ ہو گی۔ نوجوان، صالح اور دیانتدار قیادت اِس ملک کا مقدر بن چکی ہے، بس۔۔۔۔
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ

.

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -