شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 42

Feb 25, 2018 | 12:55 PM

دوسری رات بھی اسی طرح ڈیوڑھی کی چھت پر بیٹھ کر گزری اور شیر کا کوئی پتہ نہ چلا۔تیسری شب میں نے اپنا طریقہ کار بدل دیا ۔عسکری اور عتیق کو بدستور ڈیوڑھی پر رہنے دیا اور دلاور کو ایک دوسری سمت میں ایک بہت اونچے درخت پر چڑھا دیا اور اشارہ مقرر کردیا کہ اگر اسے شیر نظر آئے تو اس اشارے کے ذریعے مجھے مطلع کردے ۔میں خود چوپال کے قریب ایک درخت پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔
درخت زیادہ اونچا نہیں تھا، لیکن اس کی دوشاخیں کچھ اس انداز سے پھیلی ہوئی تھیں کہ ان کے درمیان پھنس کر بیٹھا جا سکتا تھا۔
اس نشست میں یہ خرابی تھی کہ میں صرف سامنے ہی دیکھ سکتا تھا۔لیکن شیر کے عقب سے آنے کی امید نہیں تھی ۔اس لیے مجھے خیال بھی نہیں ہوا کہ پیچھے گھومنے کی ضرورت پیش آسکتی ہے ۔درخت پر میں عشا کی نماز پڑھ کر بیٹھا تھا۔تمام رات نہایت تکلیف میں گزاری ، لیکن شیر کا کوئی نشان نہ ملا۔

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 41 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
صبح کو میں حسبِ معمول گاؤں کے اطراف میں گشت کرنے نکلا اور کھیتوں سے گزر کر یونہی آگے بڑھا چلا گیا۔۔۔۔کھیت ختم ہوئے تو چھوٹی چھوٹی چھدری جھاڑیاں شروع ہوگئیں۔اس کے بعد کہیں کہیں تناور درخت اور جنگل کا سلسلہ تھا۔
اس سمت مور بہت کثرت سے تھے اور دو ایک جگہ کھا ربھی نظر آئی ،جہاں سانبھر،چیتل اور نیل گائے وغیرہ کے کھروں کے نشانات سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ جانور ان کھاروں میں نمک چاٹنے آتے ہیں ۔اس سے کچھ ہی دور چل کر ایک اکھر بھی ملا،اکھر شکاریوں کی اصطلاح میں اس جگہ کو کہتے ہیں ،جہاں جانور رفعِ حاجت کرتے ہوں ۔نیل گائے ،سانبھر اور چیتل اکثر ایک مقررہ مقام پر ہی ضرورت سے فارغ ہوتے ہیں اور طاقت ور نر کمزورنروں کو اپنی موجودگی میں اکھر پر نہیں آنے دیتے ۔
میں نے اس سلسلے میں ایک بڑا عجیب واقعہ دیکھا ہے ،جس کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔
ایک دفعہ سانبھر کے شکار کے سلسلہ میں مَیں ایک درخت پر بیٹھا ۔اس درخت کے پاس ہی اکھر تھا۔جہاں سانبھر بھی آکر ضرورت سے فارغ ہوتے تھے ۔چاندنی رات تھی۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک بہت پرانا نیل آیا اور ادھر اُدھر سونگھنے کے بعد ایک جگہ رفعِ حاجت کے ارادے سے کھڑا ہوا۔۔۔۔ابھی اس نے اپنی پچھلی ٹانگیں خم کرکے پٹھے جھکائے ہی تھے کہ اکھر کے کنارے ایک نو جوان نیل نمودار ہوا۔اس کی رفتار کی تیزی اور بے چینی ظاہر کرتی تھی کہ اسے فوری ضرورت ہے ۔ادھر بڑے میاں کے لیے یہ بات تھی کہ ان کی موجودگی میں کوئی نوجوان اس اکھر کو استعمال کرے ۔چنانچہ انھوں نے فراغت ملتوی کرکے نوجوان پر حملہ کردیا۔
نوجوانے تابِ مقابلہ نہ پائی تو ایک طرف کو بھاگ نکلا ۔بڑے میاں اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے تھے، وہ تھک ہار کر واپس اسی جگہ آگئے ۔لیکن ٹانگیں خم کرکے پٹھے جھکائے ہی تھے کہ وہی بے چین نوجوان حاجت کی شدت سے مجبور ہوکر پھر نمودار ہوا۔۔۔اور بڑے میاں پھر غضب ناک ہوکر اسے بھگانے دوڑے ۔۔۔چار مرتبہ اسی طرح ہوا ۔ جب بھی بڑا نیل آکر رفعِ حاجت کا ارادہ کرتا ،وہ نوجوان بھی آکر نمودار ہوجاتا اور اس کو مار بھگانے کے لیے بڈھے نیل کو اپنی ضرورت ملتوی کرکے دوڑنا پڑتا۔۔۔
پانچویں بار جب بڈھا نیل واپس آیا تو اس میں برداشت کی تاب نہیں تھی ۔منتخب جگہ سے چند قدم پہلے ہی اسے پٹھے جھکا دینا پڑے ۔نوجوان بھی بے چارہ کیا کرتا۔۔۔وہ اکھر کے پاس آیا تو اس کے پٹھے پہلے ہی جھکے ہوئے تھے اور وہ حرکت کرنے کے دوران ہی فراغت کر رہا تھا۔
بہرحال دونوں کی حالت قابلِ رحم تھی۔بڑے میاں غضب ناک تو بے حد تھے لیکن مجبوری کی وجہ سے دل ہی دل میں پیچ وتاب کھا رہے تھے۔نوجوان اس کوشش میں تھا کہ جلد از جلد فارغ ہو کر بھاگ لے۔جب وہ فارغ ہوگیا تو اس نے بڑے میاں کی طرف رخ کرکے اگلے سموں سے زمین کو کھرچا اور سر جھکا کر بڑے نیل پر حملے کا انداز بنایا۔یہ گویااس بڈھے سے استہزا تھا۔بڑے میاں پہلے ہی برافروختہ تھے۔اس حرکت پر تو ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی ۔وہ ایک دم دوڑ پڑے ۔۔۔نوجوان نیل نے ایک لمبی سی جست لگائی اور جب تک بڑے میاں اکھر کے کنارے تک پہنچیں ،اس وقت تک وہ چالیس پچاس گز دور جا چکا تھا۔(جاری ہے )

شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ...قسط نمبر 43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

مزیدخبریں