کشمیر ۔۔۔۔۔۔رویوں کو بدلنے کی ضرورت

کشمیر ۔۔۔۔۔۔رویوں کو بدلنے کی ضرورت
کشمیر ۔۔۔۔۔۔رویوں کو بدلنے کی ضرورت

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

کشمیر میں تشدد کی بھڑکتی ہوئی آگ کا پس منظر اس تاریخ سے جا جڑتا ہے، جب ڈوگر ہ راجا اسی ہزار کے عوض کشمیر کو ہندوستان کی جھولی میں ڈال دیتا ہے۔قوموں کے درمیان اختلافات ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں،اصل بات یہ ہے کہ اس اختلاف کو انتہائی دشمنی تک نہیں جانا چاہیے،دونوں ممالک نے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کئے مگر اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا کیو نکہ ایک ملک کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیتا ہے اور دوسرا اسے اٹوٹ انگ کہتا ہے۔دونوں کے بیانات سے ےہی ثابت ہوتا ہے کہ میں نہ مانوں۔۔۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان شہ رگ کٹنے کے بعد بھی سانس لے رہا ہے اور بھارت اپنے اٹوٹ انگ کا ایک حصہ الگ ہو جانے کے بعد بھی زندہ ہے۔شہ رگ کٹ جائے تو زندہ کیسے رہا جا سکتا ہے؟انگ کا ایک حصہ بھی معطل ہو جائے تو مفلوجیت کا سفر شروع ہو جاتا ہے،یہاں تو دونوں نہ صرف زندہ بلکہ ایک دوسرے کو للکارتے بھی رہتے ہیں۔

دونوں ملک اپنا اپنا دعویٰ کشمیر پر جتاتے رہتے ہیں، مذاکرات کیسے کا میاب ہو سکتے ہیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی اپنے دعوی سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں اور نہ ہی رویوں میں لچک پیدا کرنے کو تیار ہے،یہاں تو ہر آ نے والے وقت میں تشدد میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے،جس کا مظاہرہ وادی میں ہونے والے روح فرسا واقعات کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔اِن خون آ لود منا ظر کو دیکھنے کے بعد بھی اگر کوئی یہ توقع رکھتا ہے کہ مسئلہ کشمیر مذاکرات کے ذریعے حل ہو جائے گا تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ ہاتھ میں ہتھیار اٹھا لئے جا ئیں اور وادی کو لہو میں نہلا دیا جائے ، اس مسئلے پر سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے،وہ ہے سمجھوتہ۔۔۔

جان کی امان پر کئے جانے والے سمجھوتے جب مصلحتوں میں ڈھل جاتے ہیں تو گناہ نہیں رہتے، جنگ اس مسئلے کا حل نہیں،نوجوان نسلوں کا خون بہانا کو ئی رسم نہیں کہ جس کا جاری رہنا ضروری ہے،ماتم کی فضا کو کشمیریوں کا مقدر بنا دینے سے کشمیر نہیں ملے گا،تشدد کو بھڑکانے اور  ظلم سے کیا ملے گا؟لا شیں بس       لا شیں،ہمیں آزادی نہیں،لاشوں کے ڈھیر ضرور ملیں گے جس پر مفادات کے رکھوالے رقص کریں گے اور ان کی اپنی اولادیں محفوظ و سلامت ہو نگی،یہ وہ آگ ہے کہ جس میں کشمیری جل رہے ہیں،مر رہے ہیں،کٹ رہے ہیں،باقی کنارے پر کھڑے ہیں ۔ اسے تحریک آزادی ہی مان لیتے ہیں کہ آزادی کے متوالے اس کے لئے جانیں ہتھیلی پر لئے پھر تے ہیں اور آ زادی کے اس سفر میں کئی نوجوان اپنی جان سے جا چکے ہیں۔

جس گھر کا چراغ بجھتا ہوگا،اس کا دکھ تو وہی جانتا ہوگا،جس نے اپنی کسی بھی عزیز ہستی کو موت کے ہاتھوں میں جاتے دیکھا ہوگا،اپنے کسی پیارے کو دشمنوں کے نرغے میں پھنسے دیکھنا قیامت سے کم نہیں ہوتا،جس نے یہ سب دیکھا ہے،اس کے لئے یہ سمجھنا بھی آ سان ہے کہ کشمیریوں کی آزادی کی یہ جنگ خون آشام ہے،یہ خون آشام جنگ بس کشمیریوں کی نسل کشی ہے،اس مسئلے کا حل لڑنا بھڑنا نہیں،آج کی جنگ ایٹمی ہے،یہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ ہے،جس کا کوئی بھی خطہ متحمل نہیں ہو سکتا، ایٹمی جنگ قوموں کی تباہی و بربادی ہے، وادی کشمیر کو خاک وخون میں نہلا دینا عاقبت اندیشی نہیں۔کیا ھی بہتر ہو کہ اس وادی کو اپنی مرضی سے جینے کا حق دیا جائے،اس وادی کے مکینوں کو علم و دانش کی ان وادیوں میں اتارا جائے کہ جب وہ بین الاقو امی فورمز پر ایک طاقت ور آواز بن کر سامنے ٓٓ آئیں کہ دنیا ان کا موقف سننے پر مجبور ہو جائے۔

جب ان کے حریف ملک کی نسلوں میں بھی تعلیم اور آ گا ہی اپنے پر اس طر ح سے وا کر دے کہ وہ اس حقیقت کو سمجھنے لگیں کہ کسی کو ساتھ رکھنا زبردستی کا سودا نہیں بلکہ من مر ضی کا سودا ہے،یہ کوئی ناممکن امر نہیں کہ میرا ا س بات پر ایمان ہے کہ ہر آنے والی نسل اپنی موجودہ یا گزشتہ نسل سے بہتر ہوگی اور اس امر کا ثبوت آ پ کو رویوں کے تقابل سے بخوبی مل سکتا ہے۔آج ہم نے شخصی آزادی کو ایک حق تسلیم کر لیا ہے جسے کل ہم چھلنی میں رکھ کر تولتے تھے اور انسان کے معیار کا مر تبہ بھی اس سے متعین کر تے تھے۔ وادی میں تعینات سات لاکھ سے زائد بھارتی فوج نے کشمیریوں پر مظالم کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے،بھارت نے کشمیر کو اپنانے کے لئے کئی حربے آزمائے جن میں مختلف اصلاحات اور انتخا بات اہم ہیں،جن کا نتیجہ بے سود رہا مگر اس دوران ایک ایسی نسل بھی سامنے آئی کہ جس نے بھا رت کے سا تھ سمجھوتے کی راہ اپنائی،بھلے وہ دل سے تھی یا نہیں؟اس کے حاملین نے بھارت کے شہروں میں روزگار کمانے کے لئے کوچ کیا اور تعلیم کے حصول کے لئے بھارت کے تعلیمی اداروں میں داخلہ لیا،معتدل روش اپنانے والوں کے پاس یہی ایک چارا تھا کہ وہ خاموشی کو اپنا شعار بنا لیں،انہوں نے یہی کیا کہ مگر کیا یہ خامشی نہ ٹوٹنے والی زنجیر ہے؟۔

کیا آ پ یہ سمجھتے ہیں؟کیا آ پ کی یہ سو چ درست ہے مگر ضروری نہیں کہ پرکھوں کا حساب جا نیں دے کر چکایا جائے،وقت کے ساتھ ساتھ حساب کتاب چکانے کے طریقے بھی بدل جاتے ہیں،پھر بھی اگر کوئی پھانس نہیں نکلتی تو پھر کسی گھر کے مکینوں کو حق ہے کہ وہ اپنے گھر میں اپنی مرضی سے رہیں اور جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چا ہیں نہ آ نے دیں؟اب اس میں بھی کیا کوئی معمہ لا ینجل ہے۔ کشمیر میں ہندوؤں کو باہر سے لا کر بسانے کی پالیسی فلسطین میں یہودیوں کو لا کر بسانے اور پھر فلسطین کو یہودیانے جیسی ہے۔اسی طرح اب بھارت کشمیر میں کر رہا ہے، فلسطین میں بھی دو طرح کے لوگ ہیں،ایک غزہ کی بستی،جہاں بھوک کا راج ہے،جہاں لاکھوں انسان تڑ پتے ہیں، جہاں بچوں کی مفلوج نسلیں تیار ہو رہی ہیں،جہاں نہ مناسب تعلیم ہے،نہ صحت،نہ روزگار، مارو یا مر جاؤ ، بھوکے پیاسے لوگ کیا لڑیں گے اور کتنے دن تک ؟کس سے لڑیں گے جن کے پاس جدید ترین ایٹمی ہتھیار ہیں،کیا کشمیری اور فلسطینی ایٹمی جنگ جیت سکتے ہیں، غزہ کے مقابل پی ایل او فلسطین اتھارٹی کی قائم کردہ ریاست ہے،جہاں نسبتا ً سکون ہے،وہاں کے مکین بہتر حال میں ہیں،ایک وقت تھا کہ مجھے یاسر عرفات کی پالیسیوں سے اتفا ق نہیں تھا مگر آ ج میرے نچوڑ کے مطابق جب مارو یا مر جاؤ سے کوئی نتیجہ نہ نکلے تو پھر سمجھوتے کے سفر پر نکل جا نا چا ہیے،اس سفر میں کسی ایسے موڑ کی امید رکھنی چا ہیے جب کئی فیصلے آ پ کے ہاتھو ں میں آجائیں اور منزل صاف نظر آ نے لگے۔

کشمیر کا اصل مسئلہ استصواب را ئے کا حق ہے،جو کہ اقوام متحدہ نے منظور بھی کیا مگر بھارت ہنوز کشمیریوں کو یہ حق دینے کو تیا ر نہیں لیکن کب تک گھروں کے چراغوں کو موت کی نیند سلایا جائے گا اور لاشوں پر لا شیں اٹھائی جائیں گی اور مزید کشمیری نوجوانوں اور دیگر جہادی متوالوں کو جانیں دینے کے لئے تیار کیا جائے گا،کشمیر کا بہترین حل اس کو کشمیریوں کے حوالے کرنا ہے،پاکستان کے لئے کشمیر شہ رگ ہے اور بھارت کے لئے اٹوٹ انگ مگر کشمیریوں کے لئے ان کا گھر ہے،ان کی جنت ہے،ان کا مسکن ہے،ان کا حا صل زندگی ہے،جنت میں رہنے کا عادی کسی اور جگہ نہیں رہ سکتا،اسے جنت ہی رہنے دیجیئے،اسے عقوبت خانہ مت بنائیں۔اس وادی میں سکون تبھی آ سکتا ہے کہ جب ہم اپنے رویوں میں لچک لائیں، کشمیریوں کا سب سے اہم مسئلہ کشمیر میں امن ہے جو بھارتیوں اور پاکستانیوں سے زیادہ کشمیریوں کے لئے ضروری ہے،جسے ہم سمجھنا نہیں چاہتے۔امن کے لئے جھکنا بھی پڑتا ہے اورناقابل برداشت حل بھی قبول کرنا پڑتے ہیں،جانوں کو بچانے کے لئے رویوں کو بدلنا ہوگا ،انتہا پسندی سے یہ ممکن نہیں۔

نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔

مزید :

بلاگ -