پاکستان اور بھارت میں کشیدگی دور کرانے کی عالمی کوششیں
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ امریکہ سمیت کئی ممالک پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کی کوشش کر رہے ہیں دونوں ملکوں میں جاری تناؤ خطرناک ہے۔ ان کا کہنا تھا پاکستانی حکام کے ساتھ جلد ملاقاتوں کا بھی امکان ہے ہم نے انتہائی کم وقت میں پاکستان کے ساتھ بہت بہتر تعلقات بنا لئے ہیں پلوامہ واقعہ پر امریکی صدر نے کہا بہت سارے لوگ مارے گئے امریکہ چاہتا ہے کہ صورت حال بہتر ہو ہمیں اس تمام تر صورت حال کو روکنا ہوگا امریکی صدر نے بھارت کو یقین دلایا کہ امریکہ ان کے احساسات کو سمجھتا ہے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ ہم نے پاکستان کو 1.3 ارب ڈالر کی ادائیگی روک دی ہے جو ہم ان کو دیا کرتے تھے اس دوران ہم پاکستان کے ساتھ چند ملاقاتوں کا اہتمام کر سکتے ہیں۔امریکی صدر ٹرمپ اور دوسری عالمی طاقتیں اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے کے لئے کسی بھی سطح پر کوششیں کر رہی ہیں تو ان کا خیر مقدم کرنا چاہئے اور اس ضمن میں عالمی کوششوں کی کامیابی کے لئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں ساری دنیا جانتی ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی نہ تو آج پیدا ہوئی ہے اور نہ ہی اس کی وجوہ کوئی نئی ہیں یہ کشیدگی ستر سال پرانی ہے اور قیام پاکستان سے چلی آ رہی ہے اور اتنی ہی پرانی اس کی جڑیں ہیں اس لئے جو کوئی بھی صدق دل کے ساتھ دونوں ملکوں میں کشیدگی کم کرنے کا خواہاں ہے اس کے لئے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ کشیدگی آخر اتنی گہری کیوں ہے اور ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بہت سی کوششوں کے بعد اس کی سطح میں اگر کمی آتی ہے تو زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ یہ پھر عود کر آتی ہے ۔
تازہ کشیدگی کی وجہ بظاہر پلوامہ کا واقعہ بنا ہے جس میں ایک کشمیری باشندے نے فوجی گاڑیوں کے کانوائے میں خود کو اڑا لیا اور اس میں کئی فوجی مر گئے، انسانی جانوں کا ضیاع چاہے وہ کہیں بھی ہوں ایک دکھ دینے والا واقعہ ہے لیکن اگر کوئی پاکستان میں ایسے ہی دہشت گردی کے واقعہ پر خوش ہو یا کم از کم خاموش رہے اور بھارت میں ہو جائے تو اس کے آنسو تھمتے نہ ہوں تو اسے کیا کہا جائے گا؟ کشمیر میں عشروں سے کشمیریوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے سارا حساب تو بہت لمبا ہو جائے گا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حالیہ بیس برسوں میں کم و بیش ایک لاکھ سے زائد کشمیری، سیکیورٹی فورسز نے شہید کر دیئے ان شہادتوں کی تاریخ سے صدر ٹرمپ ضرور واقف ہوں گے اگر نہیں تو وہ اپنی انتظامیہ سے پوچھ لیں اور پھر اس سوال کا جواب تلاش کریں کہ ان لوگوں کو کس جرم میں قتل کیا گیا؟ اس لئے کہ وہ اپنے لئے آزادی و حریت کا مطالبہ کرنے کے لئے سٹرکوں پر نکل آئے تھے دنیا میں کتنے ایسے ملک ہیں جو اس مقصد کے لئے تحریکیں چلاتے رہے اور کامیاب بھی ہو گئے۔ بھارت اور صدر ٹرمپ کے نزدیک پچاس فوجیوں کا خون جتنا بھی قیمتی ہو ایک لاکھ جیتے جاگتے انسانوں کے خون پر تو حاوی نہیں ہو سکتا۔ اس لئے صدر ٹرمپ اگر یہ جان لیں کہ ایک کشمیری نے چند فوجیوں کی جان لینے کے لئے اپنی جان کیوں قربان کر دی تو بہت سے معاملات ان پر روز روشن کی طرح عیاں ہو جائیں گے۔ لیکن لگتا ہے انہیں پچاس فوجیوں کا تو دکھ ہے لاکھوں کشمیریوں کی موت کا کوئی ملال نہیں اور ان کئی لاکھ خاندانوں سے بھی کوئی ہمدردی نہیں جو یہ زخم کھا کر زندہ در گور ہو گئے۔
تازہ کشیدگی کیوں پیدا ہوئی اور جنگی جنون کیوں ابھارا گیا اس کا درست ادراک کرنے کے لئے ان بھارتی دانشوروں کے بیانات پر بھی غور کر لینا چاہئے جو کھل کر کہہ رہے ہیں کہ نریندر مودی الیکشن جیتنے کے لئے یہ ڈرامہ کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے محسوس کرلیا تھا کہ ان کی انتخابی مہم ٹھنڈی ٹھار جا رہی ہے حالیہ ریاستی انتخابات کا نتیجہ بھی ان کے سامنے ہے اس لئے انہوں نے الیکشن جیتنے کے لئے کوئی نہ کوئی ڈرامہ تو کرنا تھا مقبوضہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ مودی کی جماعت بی جے پی انتخابات جیتنے کے لئے کشمیر کارڈ استعمال کر رہی ہے۔ فرض کیجئے پلوامہ کا واقعہ نہ ہوتا اور جان دینے والا کشمیری اپنا منصوبہ چند ماہ کے لئے مؤخر کر دیتا تو اس سے ملتا جلتا واقعہ کہیں دوسری جگہ ہو جاتا اور مودی کا شور و غوغا اسی طرح جاری رہتا اب تو بھارت میں بڑی تعداد میں ایسے لوگ سامنے آ رہے ہیں جو صاف کہہ رہے ہیں کہ پلوامہ حملے میں کوئی پاکستانی ملوث نہیں سابق وزیر داخلہ پی چدم برم ان میں سے ایک ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس حملے میں کشمیری نوجوان ملوث ہے لیکن مودی سرکار نے جو جنگی جنون پیدا کر رکھا ہے اس کا اظہار یوں بھی ہو رہا ہے کہ انتہا پسند ’’کراچی بیکری‘‘ کا بورڈ دیکھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں جب کہ پاکستان کے مختلف شہروں میں جالندھر اور امرتسر کی مٹھائیوں کے بورڈ عام نظر آتے ہیں اور کسی کو اشتعال نہیں دلاتے، بنارسی ساڑھیوں کے ذکر بلکہ پہناوے پر بھی کوئی مشتعل نہیں ہوتا۔
بھارت کے ایک سابق را چیف امرجیت سنگھ دُلت نے ، جنہوں نے پاکستان کے سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) اسد درانی کے ساتھ مل کر ایک کتاب بھی لکھی ہے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ جنگ نہیں سفارت کاری کا راستہ چنا جائے پاکستان بار بار بھارت کو کہہ چکا ہے کہ مذاکرات کی میز پر بیٹھے اور دہشت گردی سمیت ہر موضوع پر مذاکرات کر لے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن رمیش کمار وزیر اعظم عمران خان کا پیغام پہنچانے نئی دہلی گئے ہیں اور انہوں نے بھارتی وزیر اعظم مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے ملاقات کی ہے ان کا اچھا استقبال بھی ہوا ہے وزیر اعظم عمران خان نے جو پیغام ان کے ذریعے بھارت کو پہنچایا وہ یہی ہے کہ امن سے رہیں اور جنگ کا نہیں مذاکرات کا راستہ اختیار کریں دنیا بھی یہی چاہتی ہے یہاں تک کہ پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھارتی آرمی چیف کے ایک بیان کے جواب میں کہا ہے کہ وہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا امن وژن فالو کریں، یہ سارے بیانات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت امن چاہتی ہے، اگر اس راستے پر چل کر آگے بڑھا جائے تو کشیدگی بھی کم ہو سکتی ہے اور اس کی وجوہ تلاش کر کے ایسا اتنظام بھی کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ تعلقات کشیدگی کی انتہا کو نہ چھوئیں۔
مودی خود بھی دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑنے کی بات کرتے ہیں تو پھر سوچنا چاہئے کہ خرابی آخر ہے کہاں چلئے اگر مذاکرات فی الحال زیادہ موضوعات پر نہیں ہو سکتے تو اس موضوع پر کر لئے جائیں کہ آخر دونوں ملکوں کے تعلقات میں بنیادی خرابی کیا ہے کہ یہ ہر چند برس بعد اچانک شعلے کی طرح بھڑک اٹھتے ہیں اور جنگ کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں بھارت میں پاکستان پر ایٹم بم گرانے کی باتیں ہونے لگتی ہیں تو پاکستان میں یہ کہنے والے موجود ہوتے ہیں کہ ایٹم بم ہم نے شو کیسوں میں سجانے کے لئے نہیں بنایا۔ لیکن ان دونوں بیانات میں جو ’’منطق‘‘ جھلکتی ہے وہ فرسٹریشن کی پیداوار ہے اور اسی کو کم کرنے کی ضرورت ہے بھارت کو یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اور ہمیشہ اس کا ہمسایہ رہے گا اس لئے وہ اچھی ہمسائیگی کے طور طریقے سیکھ لے تو زیادہ بہتر ہے صدر ٹرمپ اور عالمی طاقتیں کشیدگی کم کرنے کی جو کوششیں کر رہی ہیں وہ اسی صورت کامیاب ہوں گی جب ہر طرح کے انتہا پسندوں کو ہوش کے ناخن لینے پر آمادہ کیا جائے گا اور محض مخصوص اہداف نہیں رکھے جائیں گے۔ صدر ٹرمپ اگر کشیدگی کی حقیقی وجوہ جان گئے تو یہ دور بھی ہو سکتی ہے ورنہ ادھوری کوشش وقتی طور پر تو بار آور ہو سکتی ہے چند ماہ یا چند برس بعد پھر ایسی صورت حال پیدا ہو جائے گی اس لئے عبوری نہیں مستقل اور دیرپا حل نکالنا ہوگا۔