صاحبانِ علم کی محفل میں
گزشتہ دِنوں استاد محترم جاوید احمد غامدی لاہور تشریف لائے تو ان کے صاحبزادے نے فون کر کے بتایا کہ ماڈل ٹاؤن میں ان کے ساتھ ایک مخصوص نشست کا اہتمام کیا گیا ہے۔جب تقریب میں پہنچے تو ایک نہایت خوشگوار منظر ہمارا منتظر تھا۔شہر بھر کے صاحبانِ علم و دانش وہاں موجود تھے،جو غامدی صاحب کی دانش بھری گفتگو سننے کے متمنی تھے۔ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا،جو لوگ ہال میں جگہ حاصل نہ کر سکے وہ باہر لان میں بیٹھ کر ان کو سنتے رہے۔شاید ہی کوئی موضوع ایسا ہو، جس پراس چھ گھنٹے کی نشست میں گفتگونہ ہوئی ہو۔ حاضرین کی طرف سے مختلف عصری مسائل پر ان سے مسلسل سوالات پوچھے جا رہے تھے، مسلکی اور مذہبی تنازعات کا شکارقوم کے لئے ایسی محافل کا انعقاد کسی عظیم نعمت سے کم نہیں،کیونکہ یہاں کسی کے مذہبی یا مسلکی جذبات کی تضحیک نہیں کی جاتی۔ غامدی صاحب کی تمام تر تعلیمات کا بنیادی نکتہ ہی احترام انسانیت ہے اور یہی وہ پیغام ہے،جو ہر الہامی مذہب میں دیا گیا ہے، لیکن بُرا ہو ہمارے فرعونی نظام کا، جس کی نحوست زندگی کے ہر طبقے میں چھائی ہوئی ہے۔ بلا سوچے سمجھے مذہبی تقلید کی رسم نے گذشتہ چند دہائیوں میں ہمارے سماج میں جو زہر گھولا ہے، ہم سب کے سامنے ہے، دوسرے مسلک اور مذہب کی تضحیک کو اپنے ایمان کا حصہ سمجھنے کی روش نے ہمارے معاشرے میں جو گل کھلائے ہیں،ان سے ہم سب آگاہ ہیں۔ حالات یہاں تک آ چکے ہیں کہ کسی سے مذہبی یا مسلکی معاملات پر بات کرتے ہوئے بھی انسان ڈرتا ہے کہ کوئی کسی بھی وقت کافر، مشرک، بدعتی یاغیر مومن ہونے کا فتویٰ نہ جڑ دے۔
کتنے ہی صاحبان علم تھے، جو مذہبی جنون کا شکار ہو کر اللہ کے حضور پیش ہو چکے۔ڈاکٹرفاروق احمد خان ہو یا مفتی شامزئی ایک لمبی فہرست ہے،جو فرسودہ ذہنیت کا نشانہ بن کر ہم سے بچھڑ گئے۔دراصل افغان جنگ اور ایرانی انقلاب کے بطن سے جو ”اختلافات“ پھو ٹے، ہم ان کی بروقت سرکوبی نہ کر سکے، سرکوبی تو دور کی بات ہے ہم تو بڑی محنت سے ہر ایک کی پرورش کرتے رہے، ہماری اس روش نے وطن ِ عزیز کو جہنم کدہ بنا دیا،ہر مفتی اپنے تئیں سچا مسلمان بنا پھرتا ہے اور ہر وقت دوسروں کی گردن اڑا کر جنت میں جانے کا خواہش مند ہے۔ جاوید احمد غامدی کی کتب کا مطالعہ کریں، ان کے بیانات سنیں، کہیں سے بھی آپ کوکسی تضحیک کی بُو نہیں آئے گی، لیکن افسوس کہ اس نابغہ روزگار شخصیت کواس کے اپنے ہی وطن سے دیس نکالا دے دیا گیا۔ اب وہ برسوں سے ملائشیا میں رہ کر علم ودانش کے پھول بکھیر رہے ہیں۔عجیب بات ہے کہ حق سچ کی بات کرنے والوں کو ہمیشہ ہر طرف سے دشنام کا سامنا رہا ہے، مذہب ہو یا سیاست کی راہ گزر، ہر جگہ ”سٹیٹس کو“ کے نمائندے موجود ہوتے ہیں،جو نئے خیال جدت و ندرت کے ازلی دشمن ہیں،کیونکہ ہر نیا خیال اور اپنے اندر حیات تازہ کا پیغام لئے ہوتا ہے،جبکہ ”سٹیٹس کو“ کے یہ نمائندے اس کو اپنے لئے موت کا پیغام سمجھتے ہیں۔ اس وقت شاید وطن ِ عزیز میں کوئی ایک بھی مذہبی جماعت ایسی نہیں، جس کی بنیاد کسی فرقے پر قائم نہ ہوئی ہو اور وہ تشددکی راہ پر گامزن نہ ہو۔ حال ہی میں اُٹھنے والا خادم حسین رضوی کا“قصہ“ تو ابھی کل ہی کی بات ہے کی، جس نے تشدد، گالی اوربد زبانی کو مذہبی رسومات کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔
راقم نے اس نشست میں غامدی صاحب سے سوال کیا کہ حضرت آپ کو حقیقی قرآنی تعلیمات کے فروغ کے لئے کام کرتے ہوئے عشر ے بیت گئے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں تشدد کا رجحان کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے، ہر ماہ کسی نہ کسی صاحب عقل کو مذہبی جنون کا نشانہ بنا نے کی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں، جس کے بعدہم لوگ محض تعزیت کااظہار ہی کر پاتے ہیں، کیوں نہ اہل ِ علم بھی ایک پریشر گروپ کی طرح معاشرے میں بڑھتے ہو ئے تشدد کو روکنے کے لئے سڑکوں کا رخ کریں، آخر کب تک ہم محض جنازے اُٹھانے کا کام ہی کرتے رہیں گے، کب تک ہم مسلکی اور مذہبی دہشت گردی کا شکار ہوتے رہیں گے؟ استاد محترم غا مدی صاحب نے اپنے مخصوص تبسم کے ساتھ فرمایا کہ سڑکوں پر نکل کر اور جتھے بنا کر ہم تشدد کوپروان تو چڑھا سکتے ہیں، اس میں کمی نہیں کر سکتے اس لئے ہمارا کام صرف قانون کی حدود میں رہ کر وعظ و تلقین ہی ہونا چاہئے۔ قارئین کرام یہ باتیں وہ انسان کر رہا تھا،جس کو تشدد کا نشانہ بنا کر اپنے وطن سے نکال دیا گیا ہے اور وہ برسوں سے غریب الوطنی کا دکھ جھیل رہا ہے، لیکن مجال ہے ان کے لہجے میں کوئی تلخی محسوس ہوئی ہو۔اسی نشست میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اصغر زیدی بھی تشریف فرما تھے، جنہوں نے غامدی صاحب سے سوال کیا کہ ہم تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی کرپشن پر کیسے قابو پا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر اصغر زیدی نے جن الفاظ میں سوال کیا وہ ان کی اس تڑپ کو ظاہر کر رہے تھے،جو ایک سچے محب وطن کو کرپشن دیکھ کر ہوتی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر اصغر زیدی جیسے انصاف پسند سربراہ اگر ہماری جامعات میں ہوں تو یقینا ہمارے طلباء کی اخلاقی تربیت بہترین خطوط پر ہو سکتی ہے۔ ڈاکٹر اصغر زیدی نے چند ماہ کے قلیل عرصے میں اپنی یوینورسٹی کوا س کا کھویا ہوا مقا م دِلانے کی جو کوششیں کی ہیں، اس پر وہ خراجِ تحسین کے مستحق ہیں۔