ذرا اپنی اداؤں پر بھی غور کر لیں!
ڈسکہ این اے75 کے ضمنی انتخاب میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ابتدائی طور پر یہی بتایا گیا کہ بادی النظر میں کم از کم 14پولنگ سٹیشنوں کے ووٹوں میں ردوبدل کیا گیا۔بیس میں چار مشتبہ پولنگ سٹیشن کلیئر قرار دیئے گئے۔ابھی تحقیق کا مزید سلسلہ جاری ہے، حتمی فیصلہ بہرحال الیکشن کمشن کا ہو گا، مسلم لیگ(ن) تو بیس کیا پورے حلقے کا انتخاب پھر سے کرانے کا بھی کہہ رہی ہے، جبکہ تحریک انصاف کے چیئرمین اور وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت کے رہنماؤں کو ہدایت کی کہ وہ مشتبہ پولنگ سٹیشنوں پر ری پولنگ نہ صرف مان لیں، بلکہ خود مطالبہ کریں، لیکن وزیراعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کہتی ہیں کہ ڈسکہ کے عوام نے مسلم لیگ(ن) کو دھول چٹا دی، اس ساری شر میں سے جو ایک خیر کا پہلو بھی دکھائی دیا ہے جیسے اندھرے میں سرنگ کے اگلے کونے پر روشنی کی کرن ہو۔یہ روشنی اپوزیشن،یعنی پی ڈی ایم خصوصاً مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے اعتماد کی ہے کہ رانا ثناء اللہ نے واضح طور پر کہا اور تسلیم کیا کہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا کوئی ثبوت نہیں ملا،خود امیدوار سینیٹ سابق وزیراعظم مخدوم سید یوسف رضا گیلانی نے بھی غیر جانبداری کا تاثر دیا، جبکہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف علی زرداری تو یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ غیر جانبدار ہو گئی ہے۔
یہ بہت بڑی تبدیلی ہے کہ مجموعی طور پر یہ تاثر بن گیا تھا اور خود حکومتی وسائل سے یہ باور کرایا جا رہا تھا کہ پی ڈی ایم فوج مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے، اس کے لئے سابق وزیراعظم محمد نواز شریف کے بیانیے کو وجوہ قرار دیا جا رہا تھا اور پھر یہ بھی بحث چھیڑ دی گئی تھی کہ نواز شریف اور زرداری مخالف، جبکہ بلاول اور شہباز شریف مفاہمت کے قائل ہیں۔ یہ درست ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی تقریروں اور گفتگو میں اسٹیبلشمنٹ کو براہِ راست نشانہ بنانے کی بجائے، اس سے غیر جانبداری اور مدد مانگی، جبکہ محمد شہباز شریف تو برسوں سے ”قابل ِ قبول“ کا درجہ رکھتے ہیں،لیکن کچھ عرصہ سے محمد نواز شریف اور مریم نواز نے بھی محتاط کھیلنا شروع کر دیا تھا،اور اب تو غیر جانبداری اور مداخلت نہ ہونے کی بات برملا کہی گئی اور ایسے افراد کے منہ سے نکلی ہے،جو محمد نواز شریف کے بیانیے کے زبردست حامی ہیں، یہ ایک اچھی پیش رفت ہے کہ ادارے کو سیاست سے بالا ہی رکھنا اور رہنا چاہئے۔
فوجی ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے جو حالیہ پریس بریفنگ کی وہ خالصتاً آپریشن ردالفساد کے چار سال پورے ہونے کے حوالے سے تھی اور انہوں نے تفصیل سے اسی پہلو پر بات کی اور کسی دوسرے مسئلے کو نہیں چھیڑا ورنہ اس سے پہلے ان کو ملکی سیاست کے حوالے سے ایک سے زیادہ بار وضاحت کرنا پڑی کہ فوج آئینی ادارہ، آئین کا پابند اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، تاہم اب صرف آپریشن ردالفساد کی کامیابی کی بات کی گئی، اپوزیشن کی طرف سے بھی خیر کی خبر آئی اور ہم جیسے حضرات نے بھی سُکھ کا سانس لیا کہ اپنے بہی خواہوں کے متعدد ریمارکس کے باوجود ہم نے ہمیشہ مفاہمت کے اصول کی حمایت کی کہ ہم اس منطق کو نہیں مانتے کہ آج کے دور میں چھوٹی چھوٹی ریاستیں بھی تو ہیں، کہ ہم نے الجزائر، لیبیا، عراق اور شام کا حال دیکھا ہے کہ سامراج نے کیسی کیسی سازشیں کیں اور یہاں مستحکم ریاستوں کو مٹی کے ڈھیروں میں منتقل کر دیا اور ان کی خود مختاری چھین لی گئی اور اب تو حالات کا جبر یہ ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں پر مسلسل ظلم جاری ہے۔غزہ پر ہوائی حملے ہوتے ہیں اور ہمارے مسلم برادر ممالک اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرتے چلے جاتے ہیں۔
ان کی کمزوری کی حالت یہ ہے کہ جولان کی پہاڑیوں اور غزہ کی پٹی کے علاوہ اردن اور مصر کے بعض حصوں پر بھی اسرائیل قابض اور اپنا اٹوٹ انگ قرار دے چکا اور فلسطین کی آزاد ریاست تسلیم کرنے پر تیار نہیں،ایسے میں ہم پاکستانی ایک بدطینت دشمن کے ساتھ نبرد آزما ہیں، مودی کی قیادت میں بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ٹکڑے کر کے اپنا حصہ بنا لینے کی پوری کوشش کی تاہم یہ کشمیریوں کی نوجوان نسل ہے جو شہادتوں اور ظلم و جبر کے سامنے سینہ سپر ہے اور اس تنازعہ کو سرد نہیں ہونے دے رہی،جبکہ بھارتی افواج سے کنٹرول لائن پر مسلسل چھیڑ چھاڑ کرائی جا رہی ہے اور وہاں حالت جنگ کی سی کیفیت ہے۔
جہاں تک ہمارے ملکی حالات کا تعلق ہے تو اس میں آمریت قصور وار ہے تو ہمارے سیاسی عمال بھی دودھ کے دُھلے نہیں، ان کی وجہ ہی سے ہم کو یہ دن دیکھنے نصیب ہو رہے ہیں۔
آج تو شدید نوعیت کی محاذ آرائی ہے، وہ بھی تو سیاسی جماعتوں ہی کے درمیان ہے، ہمارے وزیراعظم احتساب اور کرپشن کے نام پر دوسروں سے جینے کا حق چھین لینے کا اعلان کرتے رہتے ہیں، حالانکہ ان کا معاملہ قانونی اور عدالتی نوعیت کا ہے اور ان کے خلاف نیب کارروائی پر تُلا بیٹھا ہے اور وہ عدالتوں میں بھگت بھی رہے ہیں،اس لئے یہ انداز فکر نہ تو درست ہے اور نہ ہی ہم اس کی حمایت کر سکتے ہیں کہ جرم ثابت کئے بغیر الزامات کی بنیاد پر ان سب کو جیلوں میں بند کر دو۔ وزیراعظم اگر ایسا چاہتے ہیں تو ان کو بہرصورت یہی کرنا ہو گا کہ عدالتوں کو اپنا کام کرنے دیں اور ان کو سیاست سے بالا رکھیں،جس نے جرم کیا اسے عدالتوں سے سزا ہونے دیں، کاروبارِ مملکت امن اور محاذ آرائی کے بغیر چلائیں جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائیں۔
بات شروع کی ڈسکہ سے اور چلی دوسری طرف گئی۔ بہرحال یہ بھی حقیقت ہے اور اس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا،اب جو صورت حال بنی وہ بالکل الٹ ہے کہ ڈسکہ پنجاب میں ہے، حلقہ75 مسلم لیگ(ن) کی امیدوار کا وراثتی ہے، اسے وہاں سے ہرانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ترین ضرور ہے اور پھر مہنگائی، بے روزگاری، بجلی اور گیس کے بل، جرائم کی بڑھتی شرح، شہری مسائل کو کہاں لے جائیں گے، حکومت کو تو آنکھیں کھول لینا چاہئیں، اب دھاندلی کا الزام لگانے والے خود اس الزام کی زد میں ہیں،الیکشن کمیشن کے حالیہ کردار کی تعریف ہو رہی ہے، توقع کرنا چاہئے کہ انصاف کا عمل یہاں ہی سے شروع ہو گا، کہیں سے تو ابتدا ہونا ہی ہے۔