قانون،اشرافیہ کی باندی
یہ آج کی کہانی نہیں ہمیشہ ہی سے ملک کی اشرافیہ عوام کو بے وقوف بنانے کے جتن کرتی ہے جھوٹ کو سکہ رائج الوقت بنانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ حیلے بہانوں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر کام چلاتے رہیں گے۔ اس دور میں بھی کہ جب قدم قدم پر کیمرے لگے ہوئے ہیں، سچ کہیں نہ کہیں محفوظ ہو جاتا ہے، جھوٹ بولنے کی مشق جاری رکھی جاتی ہے، جب جھوٹ پکڑا جاتا ہے تو شرمندگی یا معافی کی بجائے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک نئی کہانی گھڑ لی جاتی ہے کیا عوام کے سامنے کبھی سچ بھی بولا جائے گا یا دوسرے لفظوں میں ان کے ساتھ جھوٹ کا کھلواڑ کرنے کی رسمِ بد کبھی ختم بھی ہو گی۔ وقتی سیاسی فائدے کے لئے سیاسی اشرافیہ جو نت نئے ڈرامے کرتی ہے، کیا اسے معلوم بھی ہے کہ عوام کی اجتماعی بصیرت انہیں کس نظر سے دیکھتی ہے۔
عوام سب کچھ سمجھتے ہیں مگر میڈیا کے ذریعے جھوٹ پر زور دینے والی اشرافیہ ان کی رائے کو سامنے نہیں آنے دیتی، کل تک ٹی وی پر آکر یہ مطالبہ کرنے والے وزیر و مشیر حکومت کہ الیکشن کمیشن ڈسکہ 75 کے نتائج کا اعلان کرے، کیونکہ وہاں کوئی دھاندلی نہیں ہوتی۔ آج با جماعت یہ پیشکش کر رہے ہیں کہ پی ٹی آئی 20 حلقوں میں دوبارہ انتخاب کے لئے تیار ہے جب سب دہائی دے رہے تھے، میڈیا دکھا رہا تھا، الیکشن کمیشن تسلیم کر رہا تھا کہ 20 پریزائیڈنگ افسر الیکشن میٹریل سمیت غائب ہو گئے ہیں تو یہی لوگ کبھی دھند، کبھی خراب راستوں اور کبھی بے سرو پا باتوں کے ذریعے مختلف تاویلیں پیش کر رہے تھے۔ جب سب کچھ بے نقاب ہو گیا تو اب بغیر کسی شرمندگی کا اظہار کئے دوبارہ انتخاب کا بیانیہ لے آئے ہیں۔
ابھی اس حوالے سے بہت کچھ سامنے آنا ہے مریم نواز نے تو دھمکی بھی دیدی ہے کہ جو کچھ کیا گیا اسے تسلیم کر لیا جائے وگرنہ وہ ثبوتوں کے ساتھ سچ سامنے لے آئیں گی۔ انہیں یہ دھمکی دینے کی بجائے جو کچھ بھی اس حوالے سے ان کے پاس ہے، عوام کے سامنے لانا چاہئے کہ یہ ان کا حق ہے، وہ جان سکیں کہ کیسے کیسے خفیہ ہاتھ ان کے اس بنیادی حق پر بھی ڈاکہ ڈالنے سے باز نہیں آتے جو انہیں آئین نے دیا ہے، ابھی حیرانی یہ ہے کہ وزیر اعظم نے الیکشن کمیشن کے اس پریس نوٹ پر کارروائی کا حکم کیوں نہیں دیا، جو ڈسکہ الیکشن کے حوالے سے جاری کیا گیا ہے اور جس میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ پنجاب کے افسران نے صریحاً الیکشن کمشن کے احکامات کی نفی کرتے ہوئے اپنا کردار ادا نہیں کیا اور بعد ازاں انہوں نے چیف الیکشن کمشنر کی ٹیلی فون کالز بھی وصول کرنے سے احتراز کیا یہ الیکشن وہ ہے جس میں دو معصوم جانیں گئی ہیں اور سارا دن شہر میں فائرنگ اور لاقانونیت کا راج رہا ہے، اور کچھ نہیں تو اس بات پر ہی کوئی کارروائی ہونی چاہئے تھی کہ پولیس نے ایسے حالات میں کوئی کردار ادا کیوں نہیں کیا،
یہی وزراء پولیس کی اس مجرمانہ غفلت کا یہ کہہ کر دفاع کرتے رہے کہ پولیس اگر ہجوم کو روکنے کے لئے کارروائی کرتی تو بہت خون خرابہ ہو سکتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں وہ ریاست کی ناکامی پر مہر تصدیق ثبت کرتے رہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اس دن چاہے ڈسکہ میں مزید لاشیں بھی گر جاتیں، پولیس نے ٹس سے مس نہیں ہونا تھا۔ پولیس کے نظام کو جو لوگ جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ پولیس میں ایسا تعطل صرف اس صورت میں آتا ہے، جب اسے کچھ کرنے سے روک دیا گیا ہو اس صورتِ حال کو الیکشن کمشنر کے اس خط نما وضاحتی بیان سے ملا کر دیکھا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ آئی جی سے لے کر سی پی او تک کے ہاتھ بعض نادیدہ قوتوں نے مبینہ طور پر باندھ دیئے تھے حتیٰ کہ انہیں چیف الیکشن کمشنر سے بھی بات کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔
حیرت ہے کہ حلیم عادل شیخ کے معاملے میں بیدار ہونے والے صدر، وزیر اعظم، گورنر سندھ، وزراء اور مشیر اس معاملے میں لمبی تان کے سوئے رہے حالانکہ اس میں دو جانیں ضائع ہوئیں اور ریاست کی رٹ کو بری طرح پامال کیا گیا۔ حلیم عادل شیخ کے ساتھ کراچی میں کیا ہوا، اس کا سچ بھی شاید کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ ایک ملزم جسے الیکشن کمشن کے حکم سے گرفتار کیا گیا دو روز بھی پولیس حراست میں نہیں گزار سکا اور کئی کہانیاں بن گئیں، کمرے میں کوبرا ناگ بھی گھس آیا، اسے ڈنڈے سے مار بھی دیا گیا، جیل بھیجا تو قیدیوں نے حلیم عادل شیخ پر حملہ بھی کر دیا، وہ زخمی ہوئے تو انہیں ہسپتال لے جا کر مرہم پٹی کی گئی مگر چین اسی وقت آیا جب انہیں جیل سے ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ چلیں جی مان لیا سندھ حکومت حلیم عادل شیخ کے درپے ہے۔ مگر کیا سندھ میں عدالتیں ختم ہو گئی ہیں کہ وہاں سے انصاف نہیں مل سکتا کیا کسی اور ملزم کے لئے بھی صدر، وزیر اعظم، گورنر اور وزراء نے اس طرح آواز اٹھائی جس طرح حلیم عادل شیخ کے لئے اٹھائی گئی اور سندھ حکومت کو دھمکیاں بھی دی گئیں۔
گورنر سندھ نے آئی جی سندھ کو تبدیل کرنے کے لئے وزیر اعظم کو خط بھی لکھ دیا۔ ایک طرف یہ پھرتی ہے تو دوسری طرف آئی جی پنجاب کے بارے میں چیف الیکشن کمشنر خود لکھ رہے ہیں کہ انہوں نے انتہائی ضرورت کے موقع پر میرا فون نہیں سنا۔ یہ بات زیادہ سنگین ہے یا حلیم عادل شیخ کے خلاف درج کی گئی انفرادی ایف آئی آر، وزیر اعظم عمران خان تو کہتے تھے کہ کوئی اگر قانون شکنی کرتا ہے تو ہم کبھی اس کی حمایت نہیں کریں گے، اس کا فیصلہ عدالتیں کریں گی۔ پھر یہ سب کیا ہے؟
بات بالکل سادہ ہے کہ اشرافیہ عوام کو بے وقوف بنانے میں اکٹھی ہے اشرافیہ کے صرف چہرے بدل جاتے ہیں کردار نہیں بدلتا، جہاں قانون کو بے بس کرنا اشرافیہ کی ضرورت ہوتا ہے، وہاں وہ اس کا سوئچ آف کر دیتی ہے۔ جیساکہ ڈسکہ میں کیا گیا اور جہاں سوئچ آن کرنا مقصود ہوتا ہے وہاں اوپر سے لے کر نیچے تک سب لٹھ لے کر قانون کے پیچھے پڑ جاتے ہیں ایک بات طے ہے کہ عوام کے حق میں قانون کو کبھی متحرک نہیں ہونے دیا جائے گا۔ کیونکہ ہمارا قانون صرف عوام کو ان کے حق اور تحفظ سے محروم رکھنا ہے البتہ اشرافیہ اپنے لئے قانون کو ایسے استعمال کرے گی جیسے وہ اس کے گھر کی باندی ہو۔