چینی افواج کا ماضی اور حال (1)
تحریکِ انصاف نے ملک میں کوئی تبدیلی پیدا کی ہے یا نہیں، اس پر بحث کی جا سکتی ہے لیکن کورونا وائرس نے جو تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں وہ برحق بھی ہیں اور جابجا دیکھی بھی جا سکتی ہیں۔
ملک کے 18نیوز چینلوں میں ہر گھنٹہ کے بعد خبروں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے اس میں کبھی بتایا جاتا ہے کہ آج کورونا نے 50 افراد کی جان لے لی۔ اور کبھی کہا جاتا ہے کہ 41افراد کو کورونا نے نگل لیا۔ پاکستانی پبلک ان خبروں کو دیکھتی اور سنتی ہے لیکن اس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونے کی طرف مائل نہیں ہوتی۔ شہروں میں بھی کم کم مقامات پر ماسک پہننے کا ’رواج‘ ہے اور گاؤں اور قصبوں میں تو لوگوں کا خیال ہے کہ کورونا کی کوئی حقیقت ہے ہی نہیں اور یہ پبلک کو ہراساں کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ لیکن بڑے بڑے شہروں میں جہاں لوگ زیادہ جہاں دیدہ اور سنجیدہ ہیں وہاں کم از کم ماسک پہننے اور نہ پہننے کے ملے جلے مناظر نظر آتے ہیں۔
لاہور کینٹ میں جو ریستوران اور جو کلب وغیرہ ہیں، وہاں بھی داخلہ تو بغیر ماسک کے منع ہے لیکن جونہی لوگ اندر جاتے ہیں اور کھانے کی میزوں پر فروکش ہوتے ہیں تو ماسک کا تکلف نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم نے کئی بار ’کلب یاترا‘ کی اور جب اس تکلف روائت کو برسرِ عام دیکھا تو فیصلہ کیا کہ اگر ظہرانہ یا عشائیہ کرنا ہی ہے یا کوئی ٹی پارٹی اور سالگرہ پارٹی کا اہتمام کرنا ہی ہے تو گھر پر کر لیا جائے۔ چنانچہ ایک عرصے سے باہر جا کر کھانے کے رواج پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ رشتہ دار، بہن بھائی اور دوست احباب گھروں میں اکٹھے ہو کر وہی حظ اٹھا لیتے ہیں جو ریستورانوں، کلبوں اور آرمی میسوں (Messes) میں ملتا ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، یہاں لاہور کینٹ میں یہ ایک کلچر بن گیا ہے۔ کلبوں کی طرف سے ہر روز پیغامات موصول ہوتے ہیں کہ آیئے اور ’ارزاں نرخوں کے کھانوں‘ سے لذتِ کام و دہن کا اہتمام کیجئے…… کیا یہ تبدیلی قابلِ ذکر نہیں؟
گھروں میں ضیافتوں کا ایک اور اضافی فائدہ بھی ہے جسے آپ ایک اور تبدیلی کا نام دے سکتے ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ مستورات ٹی وی لاؤنج میں بیٹھ جاتی ہیں، بچے کمروں میں گھس جاتے ہیں اور ہم جیسے بزرگ اور نوجوان ڈرائنگ روم میں محفل جما لیتے ہیں۔ ان محافلِ شبینہ میں جب گپ شپ کا آغاز ہوتا ہے تو ملکی سیاست پر گفتگو ناگزیر ہوتی ہے۔ بفیضِ میڈیا، حاضرین تین چار حصوں میں تقیسم ہو جاتے ہیں۔ جس طرح ٹاک شوز میں بالعموم تینوں بڑی سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو باری باری اذنِ گفتار دیا جاتا ہے عین مین اسی طرح ان محافل میں بھی یہی ہوتا تھا…… لیکن جب ہم نے دیکھا کہ یہ بحث معروضی (Objective) حدود سے نکل کر ذاتی (Subjective) حدود تک پھیل جاتی ہے اور اس سے بدمزگی پیدا ہوتی ہے تو ہم نے فیصلہ کیا کہ داخلی سیاسی موضوعات پر قدغن لگا کر خارجی سیاسی اور غیر سیاسی (دفاعی، اقتصادی، معاشرتی، مذہبی وغیرہ) موضوعات کو زیر بحث لایا جائے۔
یعنی ان گھریلو ٹاک شوز کے موضوعات ملکی سیاست کے گرد نہیں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی موضوعات کو احاطہ کریں …… میں آپ سے حقیقت بیان کر رہا ہوں کہ جب سے ہم نے یہ چلن اپنایا ہے۔ گھریلو ضیافتوں کی تقریبات کا کلچر زیادہ فروغ پا گیا ہے۔ ہم نے اپنے اپنے باورچیوں کو کہہ رکھا ہے کہ کھانا 11بجے شب سے پہلے کھانے کی میزوں پر نہ لگایا جائے۔ مہمانوں کی آمد کا وقت 8اور9بجے شب رکھا گیا ہے…… (یعنی وہی وقت جو ٹی وی کے ٹاک شوز کا ہوتا ہے)…… لوگ زیادہ سے زیادہ ساڑھے آٹھ بجے تک جمع ہو جاتے ہیں اور جونہی ”چار یار“ اکٹھے ہوتے ہیں، موضوع کا فلڈ گیٹ کھول دیا جاتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ان گھریلو مجالس میں زیادہ تر جن موضوعات پر بحث کی جاتی ہے وہ علاقائی اور بین الاقوامی لیول کے ہوتے ہیں اور ٹیکٹیکل سطح سے اوپر اٹھ کر سٹرٹیجک لیول کو محیط ہوتے ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ جو نوجوان لڑکے پہلے ملکی سیاسیات پر بڑھ چڑھ کر بولتے تھے اب ان کی شراکت زیادہ طویل لیکن گفتار کا دورانیہ کم ہو گیا ہے۔ وہ اب بولنے سے زیادہ سننے پر آمادہ نظر آنے لگے ہیں …… اور یہ تبدیلی بھی نہائت خوش آئند ہے!
جن موضوعات کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے میں ان کی ایک جھلک قارئین کے سامنے بھی رکھتا ہوں۔ اگر ہو سکے تو آپ بھی ہماری تقلید کریں اور میڈیا پر صبح و شام و شب جو لایعنی اور فضول مباحث ڈسکس کئے جاتے ہیں، ان سے اپنی نژادِ نو کو بچائیں ……
گزشتہ اتوار ایک سینئر مہمان نے یہ خبر بریک کی کہ چین آج کل اپنی افواج کو ایک جدید اور سخت تر ٹریننگ کلچر سے آشنا کر رہا ہے۔ انہوں نے تمہید میں کہا کہ چین اگرچہ ایک ابھرتی ہوئی عالمی قوت ضرور ہے۔ لیکن عالمی قوت کا حقدار بننے کے لئے جن دو تقاضوں کی ضرورت ہوتی ہے ان میں ایک تقاضا تو چین پورا کرتا نظر آتا ہے۔ لیکن دوسرا تقاضا محلِ نظر ہے۔ان کے مطابق اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ چین دنیا کی باقی تین چار اقتصادی قوتوں (اقوام) کا ہم پلہ بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ، روس، جاپان اور انڈیا اس کے ہمسر کہلا سکتے ہیں لیکن جہاں تک فوجی قوت کا سوال ہے تو چین باقی ممالک سے بہت پیچھے ہے۔
یہاں پہنچ کر حاضرین سنبھل کر بیٹھ گئے کہ دیکھیں چین کس پہلو میں باقی بڑی قوتوں سے پیچھے ہے……
اس سینئر مہمان نے بتایا کہ جو جنگی تجربہ امریکہ، روس، انڈیا اور جاپان کو حاصل ہے وہ چین کو نہیں …… یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ چین نے نئے حربی اسلحہ جات کے انبار لگا دیئے ہیں اور وہ خلائی سائنس میں بھی دنیا کی دوسری اقوام (امریکہ اور روس) کی برابری کرنے لگا ہے، اس کی تینوں افواج کی قوتِ حرب و ضرب بھی مرعوب کن ہوتی جا رہی ہے لیکن ایک بات کہ جس میں چین باقی ممالک سے پیچھے ہے وہ جنگ کا وہ لازوال تجربہ ہے جو صرف میدانِ جنگ میں حاصل ہوتا ہے۔ اسلحہ جات کی کثرت، حریف سپاہ کے ذاتی تجربات کے سامنے ہیچ ہوتی ہے۔
ہم سب لوگ ان کی ان باتوں کو بڑے غور سے سن رہے تھے…… ایک نو عمر لڑکے نے سوال کیا کہ کیا چین نے 1962ء کی جنگ میں انڈیا کو شکست نہیں دی تھی؟ اس کا جواب سینئر مہمان نے یہ کہہ کر دیا کہ: ”چین نے یہ جنگ صرف ایک ماہ (اکتوبر 1962ء) میں لڑی لیکن ایک ماہ کا یہ جنگی تجربہ باقی جدید اقوام کے جنگی تجربے کے سامنے کچھ بھی نہیں“…… انہوں نے جدید چین کی سہ گانہ افواج (آرمی، نیوی، ائر فورس) کے حربی تجربے کی تاریخ بتاتے ہوئے کہا کہ: ”ماؤزے تنگ جو جدید چینی افواج کے بانی خیال کئے جاتے ہیں۔ ان کا سامنا کسی بھی عالمی جنگ میں کسی بھی عالمی قوت سے نہ ہوا۔ جنرل چیانگ کائی شیک کی افواج سے ان کا مقابلہ تھا۔ لیکن اس مقابلے کو ایک خانہ جنگی (سول وار) سے زیادہ اہمیت نہیں دی جا سکتی۔ ماؤ نے چیانگ کو شکست دے کر اس کو تائیوان میں محصور کر دیا۔ لیکن تائیون آج بھی ایک قابل ذکر عسکری قوت ہے۔ چین اگر تائیوان پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر سکتا ہے تو ایسا کیوں نہیں کرتا؟…… شاید چین کو معلوم ہے کہ تائیوان کی افواج کو امریکی تربیت (Training) حاصل ہے اور اس کی افواجِ ثلاثہ اتنی ترنوالہ نہیں کہ چین ان کو آسانی سے نگل لے گا“۔
معزز مہمان نے اپنی گفتگو جاری رکھی اور کہا: ”چین کو دنیا کی کسی بڑی اور عالمی جنگ کا کوئی تجربہ حاصل نہیں۔ اس کو دنیا کی دوسری افواج کے ساتھ مل کر لڑنے کا وہ تجربہ بھی حاصل نہیں جو NATO افواج کو حاصل ہے۔ چین کے کسی فوجی دستے نے جنگ عظیم اول یا دوم میں حصہ نہیں لیا……
ہاں دوسری عالمی جنگ میں چین کی دو افواج برما (اب میانمر) میں فیلڈ مارشل ولیم سلم کی افواج کے ماتحت جاپانیوں سے نبردآزما رہیں۔ لیکن ولیم سلم نے اس برما وار پر جو کتاب لکھی ہے اور جس کا نام Defeat Into Victory ہے، اس کو پڑھ کر دیکھیں۔ جنرل سلم نے چینی افواج کی جنگی ’صلاحیتوں‘ کا جو نقشہ کھینچا ہے۔ وہ اگر متعصبانہ بھی ہو تو بھی اس سے عیاں ہوتا ہے کہ 1942ء سے لے کر 1945ء تک لڑی جانے والی اس برما وار میں جو چینی افواج، جاپانیوں کے خلاف نبردآزما تھیں ان کی پروفیشنل مہارت اور سوجھ بوجھ جاپانی افواج کے مقابلے میں نہائت کم تھی“……(جاری ہے)