”جیل بھرو تحریک“! کامیاب یا ناکام؟
وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے بعد وفاقی کابینہ نے بھی جیل بھرو تحریک کے حوالے سے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کو مسترد کر دیا ہے، میں ذاتی طور پر اس موقف سے اتفاق نہیں کرتا کہ ایک عمل کی ناکامی کا مطلب یہ ہے کہ عوام نے جماعت ہی کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ ایسے کسی احتجاج کی ناکامی کا قطعاًیہ مطلب نہیں کہ رائے دہندگان کی سطح پر بھی جماعت کو شکست ہوئی ہے کیونکہ یہ فیصلہ تو انتخابات کے ذریعے ہوتا ہے اور دیانت دارانہ رائے یہی ہے کہ ووٹ کی حد تک ابھی وہ تقسیم واضح ہے جو ہو چکی اور تحریک انصاف کا ووٹر انتخابات میں عمران خان ہی کو ووٹ دے گا، اس سلسلے میں البتہ یہ فرق بھی ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ یہ رائے حلقوں کی بنیاد پر ہوتی ہے اور جب انتخابات ہوں تو رائے شماری کی گنتی بھی اسی حلقے کے حساب سے ہوگی اور جس طبقے کی حلقہ وار اکثریت ہوئی کامیابی اسی کو ملے گی اس لئے استرداد کے لئے تو انتخابات کا انتظار ہی کرنا ہوگا۔
جہاں تک قوم کے مختلف حصوں اور شعبوں میں تقسیم کا سوال ہے تو یہ انتہائی افسوسناک حد تک ہو چکی اور ایسا زوال کی نشانی ہوتی ہے، اب تک جو صورت حال سامنے آئی وہ دردناک ہے کہ انصاف کے ایوانوں میں بھی ایسا نظر آنے لگا ہے، جو بڑی بدقسمتی ہے، اس حوالے سے چرچل کا وہ قول یاد آتا اور دہرانا پڑتا ہے کہ اگر انصاف ہو رہا ہے تو جنگ میں فتح ہو گی، یہ جنگ تو جیت لی گئی، چرچل خود انتخاب ہار گئے تھے یہ میری رائے ہے ضروری نہیں کہ اس سے سب کو اتفاق بھی ہو تاہم میں آغا شورش کاشمیری (مرحوم) کی ایک تقریر کا حوالہ پھر دوں گا جو میرے مقدس پیشے سے متعلق ہے، انہوں نے جانبداری اور غیر جانبداری کے حوالے سے کہا تھا کہ صحافی کو کسی خوف اور جبر کے بغیر غیر جانبدار ہونا چاہیے اگرچہ یہ غیر جانبداری خبر کے حوالے سے سو فیصد ہوتی ہے تاہم جہاں تک ”ویوز“ (خیالات) کا تعلق ہے تو اس میں غیر جانبداری ممکن نہیں کہ تجزیہ کرتے وقت ذاتی نظریات کا اثر ضرور ہوتا ہے تو قارئین کرام! میں آپ کو یہ یقین دلا سکتا ہوں کہ جب تک میں نے رپورٹنگ کی، خود کو خبر کے حوالے سے ہمیشہ غیر جانبدار رکھا، ہماری تنظیم پی ایف یو جے کا نعرہ اور مطالبہ بھی ہے کہ ”جو دیکھا وہ لکھا“ اور میں نے اپنے اس دور صحافت میں اس امر پر سختی سے عمل کیا، حالانکہ بہت مشکلات برداشت کرنا پڑیں حتیٰ کہ بعض خبریں روک کر ان کی جگہ ایجنسی رپورٹ شائع ہوئی جبکہ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ میری خبر کے ساتھ ساتھ نیوزایجنسی والی رپورٹ بھی منسلک کر دی گئی اس لئے گزارش ہے کہ اب جو عرض کروں گا وہ میرا آنکھوں دیکھا حال ہے اور جہاں تک میں نے دیکھا اسے دیانت داری سے تحریر کروں گا کہ اس عمل کے وہ سینکڑوں لوگ گواہ ہیں جو میری طرح متاثرین میں شامل تھے۔
میری کمر میں تکلیف پرانی ہے جس کے لئے میں جنوبی کورین کمپنی ”سراجیم“ والی تھراپی کے عمل سے گزرتا ہوں، ماہ دسمبر میں صاحبزادی اور بچوں سے ملاقات کے لئے برمنگھم جانے سے قبل اللہ کے فضل سے یہ درد ٹھیک تھی اور سفر آرام دہ رہا لیکن جب جنوری کے آخری ہفتے میں واپسی ہوئی تو استنبول سے لاہور تک قومی ایئر لائنز کی غیر آرام دہ نشست کی وجہ سے پرانی تکلیف پھر عود آئی ہے اور میں پھر سے تھراپی پر مجبور ہوں میرا بڑا صاحبزادہ قاسم چودھری مجھے میرے دفتر سے موٹرسائیکل پر لے کر ڈیفنس موڑ جاتا اور تھراپی کے بعد واپس دفتر چھوڑ دیتا ہے،22فروری کو بھی وہ معمول کے مطابق دوپہر بارہ بجے کے بعد آیا اور ہم جیل روڈ کے راستے کینٹ کے لئے روانہ ہوئے۔ کنیئرڈ کالج یونیورسٹی سے آگے مسلسل ٹریفک جام ملتی رہی اور مشکل سے آگے بڑھے، جب ظفر علی روڈ والے موڑسے پہلے پہنچے تو تحریک انصاف کے دفتر کے باہر ٹیلی ویژن والوں کی گاڑیاں قطار اندر قطار کھڑی تھیں اور ان کے علاوہ درجنوں کاروں نے بھی سڑک کا معتدبہ حصہ روک رکھا تھا، یوں ٹریفک جام کا سلسلہ ان رکاوٹوں کے باعث تھا، قریباً دو بجے واپسی ہوئی تو ظفر علی روڈ کے موڑسے پہلے ہی ٹریفک پھنسی ملی۔ نتیجہ کے طور پر یہ سلسلہ دور دور تک تھا ہمارے پاس کوئی دوسرا راستہ اختیار کرنے کا بھی موقع نہیں تھا، کاروں اور موٹرسائیکل وغیرہ کی طویل قطار تھی جو ہل نہیں رہی تھی۔ وقت کا احساس بھی جاتا رہا نہ معلوم کتنی دیر بعد سروسز ہسپتال کے مرکزی دروازے تک پہنچنے میں کامیابی ہوئی، راستے میں موٹرسائیکل کے کلچ والی تار بھی ٹوٹ گئی تھی اور قاسم کو بار بار دھکا لگانا اور موٹرسائیکل کِک لگا کر سٹارٹ کرنا پڑتی تھی، جب تھوڑا آگے بڑھے تو پانچ چھ کاریں، قومی پرچم والی نظر آئیں ان کے آگے ایک ڈالا نما گاڑی تھی جس میں بعض مقامی لیڈر (پی ٹی آئی) سوار تھے ان سے آگے ایک ہائی لکس ڈالے میں کیمرہ لئے لوگ سوار تھے، اندازہ ہے کہ یہ پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم تھی جو فلم بنا رہی تھی۔ چھ سے آٹھ تک کارکن پرچموں والے ڈنڈے لئے ٹریفک روک رہے تھے، ان سے بمشکل جان چھڑا کر آگے بڑھے تو شادمان/ لاہور کالج والے چوک میں قریباً ڈیڑھ سے دو درجن کارکن جھنڈے اٹھائے سڑک روکے کھڑے اور نعرے لگا رہے تھے، یوں ٹریفک کی بندش کا اندازہ ہوا، میں ان کارکنوں کی تحسین کرتا ہوا گزرا کہ اچھی تکنیک استعمال کرکے میلوں لمبا جلوس بنا لیا ہے۔
قارئین! معذرت خواہ کہ یہ میرا حقیقی اور آنکھوں دیکھا حال ہے جو بیان کیا اور ایسے ہی حالات اور مناظر کی نقشہ کشی ٹیلی ویژن اور آج اخبارات کی خبروں نے کی جس سے اندازہ ہوا کہ پورے ملک ہی کا یہی حال تھا اور اس احتجاج کی حد تک رانا ثناء اللہ وغیرہ کا طنز بجا ہے، اس سب کے باوجود یہ عرض کروں گا کہ اس پر کسی کو خوش اور کسی کو ناراض ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ حالات کا اندازہ لگانا ہوگا کہ قوم میں تقسیم ہو گئی لیکن بے حسی بہت بڑھ چکی جو خطرناک ہوتی ہے، اس لئے پھر سے گزارش ہے کہ اب بھی سنبھل جائیں اور افہام و تفہیم سے ملک کو مشکلات سے نکالیں کہ دعویٰ سب کا محب وطن ہونے کا ہے۔
آخر میں میں یہ بھی عرض کردوں کہ کانگرس کے جیل بھرو نعرے کے بعد یہ پہلی بار جیل بھرو تحریک کا آغاز کیا گیا تھا، میں نے گزشتہ روز ہی عرض کیا تھا کہ قائدین کی گرفتاری تو ہو گئی اب ان کو مختلف جیلوں میں منتقل کر دیا گیا تو قارئین! آج نظر آ گیا، محترم کپتان نے احتجاج کیا کہ رہنماؤں کے ساتھ دہشت گردوں والا سلوک کیا گیا اور پھر ”جیل بھرو“ اپنی جگہ لاہور ہائیکورٹ میں آج (جمعہ) حبس بے جا کی درخواستوں کی بھی سماعت ہوئی بات چیت اور فاضل جج کی رائے سے بھی سب آگاہ ہو چکے ہوں گے۔ اب آپ سب خود فیصلہ کر لیں کہ اس سارے قصے میں غلط کیا اور صحیح کیا ہے۔ مجھے مجبوراً یہ لکھنا پڑا ورنہ میں تو یہ بتانا چاہتا تھا کہ جیل بھرو والا معاملہ تو کبھی ہوا نہیں، البتہ سول نافرمانی کی طرز پر گرفتاریاں ضرور دی جاتی رہی ہیں اور اس کا طریق کار صرف پانچ افراد کی پیشکش تک محدود رہتا تھا، اسی طرح ہم صحافیوں نے بھی ایک سے زیادہ مرتبہ جیل خوری کی کہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کرکے جیل جاتے اور صرار کے باوجود ضمانت نہیں کرواتے تھے۔ ایسا ہی عمل سیاسی جماعتو ں کی طرف سے بھی ہوتا، انشاء اللہ اگلے کالم میں بعض ایسی گرفتاریوں سے آگاہ کروں گا۔