قرض کی قید

  قرض کی قید

  


 اگر تھیلے میں سوراخ ہواورسارے کھیت کی گندم بھی ڈال دیں  تو تھیلہ نہیں بھرے گا۔حکومت نے چند ہفتے قبل سرکاری افسروں کو بنیادی تنخواہ پر 150 فیصد ایگزیکٹو الاؤنس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چند برس قبل ایک خبر  یاد آئی، کہ  پنجاب حکومت نے تمام اسسٹنٹ کمشنرز کو  تین ہزار سی سی جیپ  دینے کا فیصلہ کیا ہے، اس سے قبل ان افسروں کو ایک ہزار سی سی گاڑی استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ بورڈ آف ریونیو کے مطابق ایک سو سینتالیس گاڑیوں کی خریداری کے لئے چھ سوچھپن ملین روپے  ایک موٹر کار کمپنی کو ادائیگی کے لئے جاری کر دیئے گئے۔ ممبران اسمبلی کی مراعات بھی جاری ہیں، افسروں کی شاہ خرچیاں بھی رواں ہیں۔
ملک کی تقدیر، صرف تقریر سے نہیں بدلتی، ریاست مدینہ بنائیں گے؟ کشکول توڑ دیں گے۔ قرض اتارو، ملک سنوارو۔ بیرونی سرمایہ کاری آ رہی ہے۔ دوست ممالک کے تعاون سے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ ملک کی حالات بدلنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، یہ نعرے اور خوش نما الفاظ سنتے برسوں بیت گئے،دو تہائی اکثریت والے بھی دیکھے،روشن خیال صدر اور بینکر وزیراعظم بھی دیکھے۔ روٹی، کپڑا اور مکان  والوں کے جانشین بھی دیکھے پھر ریاست مدینہ کے دعوے دار بھی دیکھے لیکن وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تھی، سو اب بھی ہے۔


رکن قومی اسمبلی کی تقریر سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔ آئی ایم ایف کے پاس نہ جائیں،آسودہ حال لوگوں  کے گھروں کی اور ان کے  بنک لاکروں کی تلاشی لیں۔ اربوں ڈالر ان کے گھروں میں،ان کے بریف کیسیز میں موجود ہوں گے۔ بجا فرمایا، بر محل نشان دہی کی لیکن قومی اسمبلی  کے آسودہ اور پرسکون ماحول میں ارکان اسمبلی کروڑوں کی جن مراعات سے لطف اٹھا رہے ہیں ان مشکل حالات کیا مراعات خزانے پر بوجھ نہیں؟ ایک معروف لیڈر  مینار پاکستان کے پہلو میں  ٹینٹ آفس (خیمے) میں  بیٹھ کر سرکاری اجلاس کیا کرتے تھے۔کیا آج اخراجات کو بچانے کے لیے خیموں میں اجلاس کی اس  مثال پر عمل کیا جا سکتا ہے؟


مشہور ماڈل کو 2015ء میں کرنسی سمگلنگ کیس میں اسلام آباد ایئرپورٹ سے اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ  5 لاکھ سے زائد امریکی ڈالرز دبئی منتقل کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ملزمہ کو پکڑنے والے کسٹم آفیسر کو قتل کردیا گیا تھا، جہاں ڈالرز کی سمگلنگ کے واقعات ہوں، وہاں ڈالرز کی  ڈھنڈیا ہی پڑے گی اورجہاں ملزم محفوظ ہو اور محافظ غیر محفوظ  ہو، وہ ملک بھی غیر محفوظ ہو جاتا ہے۔ کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے نمائندے کے حالیہ اخباری بیان کے مطابق کم و بیش 30 سے 40 لاکھ ڈالر روزانہ افغانستان سمگل ہو رہے ہیں۔
اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کا ایک بیان نظر سے گزرا کہ حکومت پی آئی اے،پاکستان سٹیل، پاکستان ریلوے اور بجلی کمپنیوں سمیت خسارے میں چلنے والے سرکاری اداروں کو بیل آؤٹ کرنے کے لئے ہر سال اربوں روپے خرچ کر رہی ہے جس سے ظاہر ہے کہ یہ ادارے قومی خزانے پر ایک بڑا بوجھ ہیں۔سوال یہ ہے کہ خسارے میں چلنے والے اداروں کو کب تک  عوام کے منہ سے نوالہ چھین کر کھلایا جائے گا؟ غور کیجئے کہ بجٹ کا کتنا حصہ صرف اس نقصان کے ازالے کے لیے خرچ ہوتاہے؟
پاکستان ایک زرعی ملک ہے،زراعت کے شعبہ کو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے۔آج یہ ریڑھ کی ہڈی مرض کا شکار ہو رہی ہے  اور اس کے خطرناک اثرات سارے جسم کو مفلوج کر سکتے ہیں۔ گندم کے لئے بھی درآمد کا دروازہ کھل رہا ہے تو یہ افسوس ناک ہے۔ گندم سے لہلہاتی زمینوں کے سینے میں سریا اور سیمنٹ پیوست کیا جا رہا ہے اور ہاؤسنگ سوسائٹی کے کاروبار کی بڑھوتری کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں۔یہی زرعی ملک،خوردنی (کھانے کا) تیل اور دالوں کی درآمد پر کثیر زرمبادلہ خرچ کر رہاہے۔ صنعتکار، مصنوعات پر بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت سے پریشان ہیں اگر پاکستانی مصنوعات کی قیمت مسابقتی نہیں ہو گی، تو اندرون ملک بھی گاہک اس کو ترجیح نہیں دے گا چہ جائیکہ ان مصنوعات کو  برآمد کیا جا سکے۔


کے الیکٹرک (کراچی) کے علاوہ،  ملک میں بجلی کی فراہمی کا مکمل نظام حکومت کے پاس ہے۔ سرکاری ادارے یا حکومت جب بجلی سپلائی کرنے یا تیل اور گیس سپلائی کرنے والے اداروں کو حاصل ہونے والی بجلی کے عوض معاوضہ نہیں ادا کر سکتے تو یہ قرض جمع ہوتا رہتا ہے اور  عام الفاظ میں اسے گردشی قرضہ کہا جاتا ہے۔حکومت کی جانب سے رقم بروقت فراہمی نہ ہونے کے سبب بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں اور اس سے منسلک اداروں، خاص کر آئی پی پیز کو چلانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں توانائی کے شعبے کے گردشی قرضے لگ بھگ 4177 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔  
جب ملک کی درآمدات اس کی برآمدات سے زیادہ ہوجاتی ہیں تو یہ تجارتی خسارہ کہلاتا ہے۔ پاکستان کا ماہانہ تجارتی خسارہ اگست 2022ء میں 3ارب 53 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی جانب سے جاری کیے گئے اعداد و شمار کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اگست  2022ء میں ملک کی برآمدات 6ارب 3 کروڑ ڈالر،درآمدات کے مقابلے میں 2ارب 50 کروڑ ڈالر رہیں۔ درآمدات پر مؤثر کنٹرول کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے۔لگژری آئٹمز (اشیاء تعیشات) پر پابندی لگا دی گئی تھی لیکن آئی ایم ایف کی ہدایات پر پابندی ہٹا لی گئی۔ چین دوست ملک ہے مگر چین سے ہمارا تجارتی خسارہ کم و بیش15ارب ڈالر ہے۔  مقامی صنعت کا تحفظ اہم  ترجیح ہونی چاہئے۔


پی ڈی ایم اور تحریک انصاف کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی جاری ہے۔ تحریک انصاف الیکشن جیت کر اگر واپس اقتدار میں  لوٹ آئے، تب بھی وہ کیا  تبدیلی لا سکے گی؟ اس کے پاس اگر کوئی قابلِ عمل منصوبہ موجود ہوتا تو، اس کے ساڑھے تین سالہ دور میں کئی ہزار ارب روپے کے قرضوں کا اضافہ نہ ہوتا۔ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار ہے۔ حکومتی اتحاد کے تمام فریقوں کو خوش رکھنے کے لئے کابینہ بار بار توسیع کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوششیں  کی جا رہی ہیں۔اس قدر اہم معاشی چیلنج سے نمٹنے  کے لئے اتفاق رائے کی ضرورت ہے لیکن شاید سیاسی قائدین اس چیلنج سے نمٹنے کے لئے تیار نہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک پاکستانی شہری پر قرض کم و بیش 2 لاکھ 17ہزار روپے ہو چکا ہے۔حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان کو بیرونی قرضوں اور سود کی مد میں کم و بیش 22  ارب  ڈالر اگلے 12 ماہ میں ادا کرنے ہیں۔  یہ کہاں سے وصول ہوں گے؟ حکومت بجلی کی قیمت میں اضافہ کرے گی۔ پٹرول کی قیمت میں اضافہ کرے گی۔  ملک پر  بھاری قرض ہے اور ہر شہری اس قرض کی قید میں ہے۔ قیادت کے اقدامات  بارآور ہوتے دکھائی نہیں دے رہے، عوام پس رہی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)نے قرض کی شدت اور غلبے سے پناہ طلب کی ہے۔ اے رب العالمین ہمیں سود، ساہوکار اورقرض کی قیدسے نجات دے۔ 

مزید :

رائے -کالم -