قاضی حسین احمد کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کے چند دل نواز اور تابناک پہلو (4)

قاضی حسین احمد کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کے چند دل نواز اور تابناک پہلو (4)
قاضی حسین احمد کی ہمہ جہت شخصیت اور زندگی کے چند دل نواز اور تابناک پہلو (4)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 اس دوران جہاد افغانستان کے حوالے سے مجاہدین کی کامیابیوں کی جو خبر مقبوضہ کشمیر پہنچتی، اس کے نتیجے میں وہاں بھی تحریک آزادی کو ایک نئی مہمیز ملتی ، اکثر یہ ہوتا کہ مقبوضہ کشمیر سے کوئی نہ کوئی ساتھی پاکستان کا ویزہ لے کر اس سرزمین کو دیکھنے کے لئے آتا جو ہمیشہ سے اہل کشمیر کی آرزو¶ں کی سرزمین رہی ہے اور اب جہاد افغانستان کے شروع ہونے کے بعد اس جہاد کا بیس کیمپ بن چکی تھی۔ مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ان ساتھیوں کی شدید خواہش ہوتی کہ وہ اس شخصیت سے بھی ملاقات کا شرف حاصل کریں جو جہاد افغانستان کے بانی اور پشتیبان ہیں، لہٰذا وہ قاضی حسین احمد سے ملنے منصورہ بھی آتے اور منصورہ پہنچنے کے بعد پہلے مجھ سے ملاقات کرتے تاکہ مَیں ان کی قاضی حسین احمد سے ملاقات کا اہتمام کروں ۔ قاضی حسین احمد مقبوضہ کشمیر سے آنے والے اسلام اور آزادی کے ان شیدائیوں سے بڑی خندہ پیشانی سے ملتے، وہاں کے حالات معلوم کرتے اور وہاں تحریک آزادی کو پروان چڑھانے کے لئے گائیڈ لائنز فراہم کرتے۔
جہاد کشمیر کے سلسلے میں قاضی حسین احمد کی پالیسی کے اہم اصول و مبادی:
جہاد کشمیر کے سلسلے میں قاضی حسین احمد کی پالیسی کے اہم اصول و مبادی حسب ذیل ہیں:
اولاً: جہاد کشمیر کے سلسلے میں قاضی حسین احمد کی پالیسی کا سب سے اہم اور بنیادی اصول یہ تھا کہ جہاد کشمیر اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے کشمیر کی آزادی کے ساتھ ساتھ پاکستان کی بقاءو سالمیت اور تکمیل کی جنگ بھی ہے۔ اس سلسلے میں وہ مسئلہ کشمیر کو تقسیم برصغیر کے ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے تھے اور قائد اعظم ؒکے الفاظ میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے تھے، اپنی تقریروں اور گفتگو¶ں میں ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے اس بنیادی پہلو کو پیش نظر رکھتے تھے۔
ثانیاً : قاضی حسین احمد کی کشمیر پالیسی کا دوسرا اہم اصول یہ تھا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کی بھارت سے آزادی کو مقبوضہ کشمیر میں اسلام، اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کی بقاءکے لئے ضروری سمجھتے تھے اور انہیں پختہ یقین تھا کہ اگر مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کی آزادی اور حق خودارادیت کے لئے جدوجہد نہ کی گئی تو کشمیر میں بھارتی حکمرانوں کے ہاتھوں اسلامی تہذیب اور مسلمانوں کا وہی انجام ہو گا، جو قبل ازیں اندلس میں اسلام اور مسلمانوں کا ہوچکاہے۔

ثالثاً: قاضی صاحب کی کشمیر پالیسی کا تیسرا اہم اصول یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر پر بھارت کا جارحانہ تسلط تقسیم برصغیر کے اصولوں کے ساتھ ساتھ سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق بھی غیر آئینی اور غیرقانونی ہے ، لہٰذا کشمیری مسلمان اپنی تحریک مزاحمت میں ہر لحاظ سے حق بجانب ہیں، جبکہ بھارت کی حیثیت ایک جارح سامراجی قوت کی ہے ۔
رابعاً : مسئلہ کشمیر کے حوالے سے قاضی حسین احمد کی پالیسی کا چوتھا اہم اصول یہ تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی قابض فوجوں کے ہاتھوں ظلم و استبداد کا شکار کشمیری مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کی مدد کرنا پاکستانی مسلمانوں پر واجب ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
ترجمہ: آخر کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں ان بے بس مردوں ،عورتوں اور بچوں کی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبا لئے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدایا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کردے۔
خامساً: قاضی حسین احمد کی کشمیر پالیسی کا پانچواں اصول یہ تھا کہ وہ بھارت کے جارحانہ عزائم کو صرف کشمیر یا پاکستان تک محدود نہیں سمجھتے تھے، بلکہ وہ سمجھتے تھے کہ بھارت،کشمیر اور پاکستان کے ساتھ ساتھ عالم اسلام اور مقدسات اسلامیہ کے خلاف اپنے عزائم کی تکمیل چاہتا ہے اور اکھنڈ بھارت کے نام سے اس خطے میں ایک ایسی برہمنی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے، جس کی حدود ملائشیا اور انڈونیشیا سے لے کر دریائے نیل تک وسیع ہیں۔
سادساً : قاضی حسین احمد کی کشمیر پالیسی کا چھٹا اصول یہ تھا کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی پاکستان کی اقتصادی اور زرعی ترقی کے لئے بھی ضروری ہے ، اس لئے کہ اگر کشمیر پر بھارتی تسلط قائم رہا تو وہ کشمیر سے نکلنے والے دریا¶ں پر ڈیم بنا کر پاکستان کو بنجر اور صحرا بنادے گا۔
سابعاً :کشمیر پالیسی کا ایک انتہائی اہم پہلو یہ تھا کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ کشمیر کی بھارت سے آزادی اور پاکستان سے الحاق 20 کروڑ بھارتی مسلمانوں کے بھی بہترین مفاد میں ہے، اس لئے کہ ایک مضبوط اور توانا پاکستان بھارتی مسلمانوں کے دین، تہذیب اور مفادات کے تحفظ کی بہتر ضمانت فراہم کرسکتا ہے۔
قاضی حسین احمد کی کشمیر پالیسی کے سارے اصول و مبادی اپنی نوعیت اور اہمیت کے اعتبار سے بہت واضح تھے اور قاضی حسین احمد مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی تمام تقاریر، خطابات اور گفتگو¶ںمیں موقع محل کی مناسبت سے ان تمام پہلو¶ں پر روشنی ڈالنے کا اہتمام کرتے تھے۔
جہاد کشمیر کے حوالے سے عملی منصوبہ بندی :

جہاد افغانستان میں مجاہدین کی عظیم کامیابیوں کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کے ان سارے خطوں میں، جہاں مسلمان اغیار کی غلامی میں گرفتار تھے، وہاں کی اسلامی تحریکوں کی رہنمائی میں آزادی اور جہاد کی تحریکوں کا آغاز ہو گیا اور کشمیر کا خطہ جو چالیس سال سے زیادہ عرصے سے بھارتی استعمار کے قبضے میں تھا، ان میں سرفہرست تھا، چنانچہ کشمیر میں بھی تحریک اسلامی سے وابستہ نوجوان بڑی تعداد میں جہاد افغانستان میں شرکت کر کے اس مدرسہ ¿ جہاد سے عملی تربیت حاصل کرنے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاست میں تحریک کے قائدین بھی جو گزشتہ40سال سے زیادہ عرصے سے آزادی اور حق خود ارادیت کے لئے پُرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے، سوچنے لگے کہ وقت آن پہنچا ہے کہ وہ بھی اپنے افغان بھائیوں کی طرح آزادی کے حصول کے لئے جہاد کا راستہ اختیار کریں اور اس سلسلے میں یہ ضروری سمجھا گیا کہ اس مقصد کے لئے جماعت اسلامی آزاد کشمیر ، جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر اور جماعت اسلامی پاکستان مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں، چنانچہ یہ طے پایا کہ اس سلسلے میں مشاورت اور منصوبہ بندی کے حوالے سے ضروری اجلاس جماعت اسلامی پاکستان کے مرکز منصورہ میں ہوں گے۔  (جاری ہے)  ٭

منصورہ میں ہونے والے ان اجلاسوں میں پاکستان جماعت کی نمائندگی سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان میاں طفیل محمد، قاضی حسین احمدجو اس وقت جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل تھے اور نائب امیر جماعت اسلامی پروفیسر خورشید احمد صاحب فرماتے تھے، جبکہ مقبوضہ کشمیر جماعت کی نمائندگی ڈاکٹر ایوب ٹھوکر مرحوم اور ڈاکٹر غلام نبی فائی اور آزاد کشمیر جماعت کی نمائندگی کرنل محمد رشید عباسی مرحوم سابق امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر اور موجودہ امیر جماعت اسلامی عبدالرشید ترابی، جو اس وقت جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے سیکرٹری جنرل تھے اور راقم الحروف بحیثیت نائب امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر شریک ہوا کرتے تھے۔     (جاری ہے)

مزید :

کالم -