آزادئ اظہار ، انسانی حقوق اور یورپ

آزادئ اظہار ، انسانی حقوق اور یورپ
آزادئ اظہار ، انسانی حقوق اور یورپ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

فرانس میں گستاخانہ کارٹون بنانے والے میگزین کے دفتر کے اندر گھس کر کچھ مشتعل لوگوں نے صحافیوں اور کارٹون بنانے والوں کو قتل کر دیا۔ عالم اسلام اور عالم انسانیت کے لوگ قاتلوں کے ساتھ نہیں ہیں۔ دنیا بھر کے دانشوروں اور مسیحیوں کے روحانی سربراہ پوپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنہوں نے کہا کہ اظہار رائے کی کوئی حد ہوتی ہے۔ اس بہانے سے کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جا سکتی۔ پوپ نے کہا کہ میری ماں کے خلاف نازیبازبان استعمال کرنے والے کو گھونسا کھانے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ نچلے درجے کی کاروباری بات یہ بھی ہے کہ اس طرح ایک معمولی رسالے کے مالکان ساری دنیا میں بدنام ہو کر اپنے معاملات کو پوری دنیا میں پھیلا لیتے ہیں۔ جو رسالہ 30ہزار کاپی کی بھی اشاعت نہیں رکھتا تھا۔ اگلے پرچے کی اشاعت لاکھوں میں پہنچا دی گئی ہے۔ ہم ہر طرح کی دہشت گردی کے خلاف ہیں۔ مگر کسی یورپی جریدے میں گستاخانہ باتیں کسی بھی دہشت گردی سے بڑھ کر دہشت گردی ہے۔
امریکہ اور دوسرے ممالک میں کئی ملین پاکستانیوں سمیت مسلمان بستے ہیں۔ جن کو ان حکومتوں نے ملازمتیں اور روزگار دی ہوئی ہیں اور ان کو نیشنلیٹی، جائیدادیں خریدنے اور اظہارِ خیال کے حقوق دیے ہوئے ہیں۔ جو ان کو بعض مسلمان ممالک میں بھی میسر نہیں۔ ہمارا گلہ صرف ان چند شرارتی عناصر سے ہے جو تہذیبوں کو آپس میں لڑانے کی مسلسل سازش کر رہے ہیں۔ یہ وہ انتہا پسند اور تنگ نظر مٹھی بھر لوگ ہیں جو دین اسلام کو بد نام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں اور وہ اس دین کی آفاقی شکل اور تیز پھیلاؤ سے خائف ہیں۔ ان کو یہ پتہ ہے کہ ہم سب حضرت ابراہیم ؑ کو ماننے والے ہیں۔ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت موسیٰ ؑ کو سب مسلمان بر حق اللہ کے پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن اسلام دشمن سوچ نے ان کو باولا کیا ہوا ہے۔ ان کے دل و دماغ مفلوج ہو چکے ہیں۔
1969 ؁ء میں پاس ہونے والا بل آف رائٹس انگریزوں کو اظہارِ خیال کی آزادی دیتا ہے۔ 1789 ؁ء میں فرانسیسی انقلاب کے وقت انگریزوں نے ایک آزادئ اظہار کابل پاس کیا۔ جس کے آرٹیکل 11کے مطابق ہر شہری بول، لکھ اور پرنٹ کر سکتا ہے۔ لیکن اس آزادی کو کسی بھی قانون کے برعکس غلط استعمال نہیں کر سکتا۔ یعنی اس اظہار خیال کی آزادی ہے۔ جو اجتماعی فلاح کے لیے ہو۔ لیکن وہ آزادی اظہار جس سے دوسروں کے جذبات مجروح ہوں یا ان کے اقدار اور ایمان کو ٹھیس پہنچے ان کو یہ قانون کوئی دفاع مہیا نہیں کرتا۔ اس کے علاوہ اقوام متحدہ کے چارٹر کا آرٹیکل 19بھی آزادی اظہار کے جائز استعمال کی تلقین کرتا ہے۔ مغربی دنیا کے بنائے ہوئے موجودہ قوانین میں اگر کوئی ابہام ہے تو اس کو دور کرنا بھی مغربی قانون ساز اداروں ہی کا کام ہے۔لیکن وقت آگیا ہے کہ مغربی دانشور اور قانوں ساز اسمبلیوں میں بیٹھے بڑے بڑے قانون دان اورمحقق اب اظہارِ خیال کی آزادی کے قوانین میں ایسی ترمیم ضرور کریں جس سے دوسرے انسان کے جذبات مجروح کرنے والے جاہل کو فوراً قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکے۔ ورنہ موجود قانون کی آڑ میں سلمان رشدی جیسے شیطان ہر جگہ اپنی اظہار خیال کی آزادی کی آڑ میں دنیا کے امن کو آگ لگاتے رہیں گے اور جانیں ضائع ہوتی رہیں گی۔
یورپ اور خاص طور پر برطانیہ کو بھی چاہیے کہ انسانی حقوق کی آڑ میں جو سیاسی پناہ گاہیں بنائی ہوئی ہیں۔ خدارا ان کو بند کریں اور دنیا میں امن قائم ہونے دیں۔ لیکن کبھی اس شیطان رشدی کو وائٹ ہاؤس میں استقبالیے دیے گئے۔ مغربی دنیا بتائے اگر یہ شیطان رشدی ہالو کاسٹ (Holocast)کے بارے میں لکھے تو کیا یہ آزادی خیال کے حامی تب بھی اسے ایوارڈ سے نوازیں گے؟ ڈیوڈ کیمرون اور اوباما نے اپنے مشترکہ آرٹیکل میں خاکوں کو آزادی اظہار قرار دیا ہے۔ فرانسیسی صدرنے جریدے کی حمایت میں بیان جاری کیا ہے ۔ وہ اپنی جانبداری سے تہذیبوں کے مابین نفرتوں کے بیج بو رہے ہیں۔ جس سے عالمی امن کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اوباما ، کیمرون اور اولاند جیسے لیڈروں کو بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔
لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب مغربی قانون ساز ادارے بھی اپنے دل کی اتھاہ گہرائیوں میں یہ محسوس کریں کہ کسی بھی دوسرے شخص کے عقیدے اور ایمان پر حملہ کرنے کی کوئی بھی مذہب اور مہذب معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ مغربی دانشور جب غیر مسلموں کے انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ مسلمان بھی انسان ہیں۔ ان کے بھی انسانی حقوق ہیں۔ ایسے قوانین کیوں بنائے جائیں جو دنیا میں فساد پیدا کریں۔ جس سے نوبت قتل و غارت تک پہنج جائے اور نفرتوں میں اضافہ ہو۔
فرانس کے اندر حالیہ دنوں میں جو کچھ ہوا اس کو مسلمان بالکل اچھا نہیں سمجھتے۔ چونکہ ہمارا دین کسی کی بھی غیر قانونی طور پر جان لینے کی مخالفت کرتا ہے۔ سزائیں ملکی قوانین کے تحت ہونی چاہیں۔ چونکہ افراد کے ہاتھوں میں یہ فیصلے چھوڑنے سے معاشرہ تباہ ہو جاتاہے۔
مغربی دنیا میں لوگ نسبتاً اچھے ہیں۔ صرف مغرب میں موجود چند اسلام دشمن عناصر اور لابیاں ان کو گمراہ کرتے ہیں اور مغربی حکومتیں خاموش تماشائی بن کر اسلام کے خلاف نفرتوں میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
چارلی ہیبڈوکے ناپاک اقدامات پر جس طرح یورپی سربراہان ہم آواز ہو کر میدان عمل میں اُترے ہیں اس نے دنیا کو ایک نئے بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ یورپی سربراہان اور عوام کا یہ طرز عمل کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں۔ اگر چارلی ہیبڈو کے دفاع کے لئے چالیس ممالک کے سربراہان جمع ہو سکتے ہیں اور چالیس لاکھ افراد کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ تو مسلمان سربراہان اپنے مرکز محبت کے دفاع کے لیے میدان عمل میں نہیں آسکتے۔
مسلمان حکمران کو اس مسئلے پر سنجیدہ اور مؤثر کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مسلے پر معاشرے کے تمام طبقات بشمول سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو متحد ہو کر نبی کریم ﷺ کی حرمت کے لیے آواز اُٹھانی چاہیے۔ اگر مسلمان متحد ہو جائیں تو بین الاقوامی سطح پر حرمتِ رسول ﷺ کے حوالے سے مؤثر قانون سازی کروائی جا سکتی ہے۔ اگر جمہوریت عوام کی رائے کا نام ہے تو اہل مغرب کو ڈیڑھ ارب مسلمان کی رائے اور جذبات کا احترام کرنا چاہیے۔

مزید :

کالم -