شاہ عبد اللہ کا سانحۂ ارتحا ل

Jan 25, 2015

عبدالرشید قمرخطاط


اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے سب سے محترم ،سب سے مکرم ، سب سے بڑی اور سب سے اوّلین سجدہ گاہ۔۔۔کعبۃ اللہ شریف کی خدمت، حفاظت اور پاسبانی کے لئے ہر صدی میں اور ہر دور میں ایسے ایسے مردانِ حق پیدا فرمائے، جنہوں نے اپنے سوزدروں اور خونِ جگر سے اللہ کے اس گھر کو رو شن و درخشندہ رکھنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہو نے دیا۔۔۔انہی مردان حق آگاہ میں سے سعو دی عرب کے فرمانرواشاہ عبداللہ بن عبدالعزیز بھی تھے۔جن کا انتقالِ پر ملال 91 برس کی عمر میں 23 جنوری 2015 ء جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کو ایسے وقت میں ہوا، جب ان کی ضرورت صرف سعودی عرب ہی کو نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کو تھی۔۔۔ اس لئے کہ وہ زبردست فہم و تدبّر اور قائدانہ صلا حیتوں کے حامل تھے۔۔۔ انہوں نے شاہ فہد مرحوم کے بعد 9برس تک دنیائے اسلام کے ایک ایسے جرنیل کی حیثیت سے حکو مت کی،جو دنیا بھر میں اسلام کے خلاف ہرمحاذ، ہرمعرکے اور ہر مورچے پر دشمنانِ دین کے حملوں سے نمٹنے کے لئے ظا ہر ی اور باطنی ہر اعتبار سے بر سرِ پیکار رہے۔۔۔
قارئین کرام! یہ ایک حقیقت ہے کہ سعودی خاندان سے ا ب تک جتنے بھی حکمران تختِ شاہی پہ متمکن ہوئے، ان سب نے اپنے اپنے ادوار میں آزمائش کے ہر موقع پر پاکستان کا بھر پور ساتھ دیا،جبکہ شاہ عبداللہ ایک ایسے حکمران تھے، جنھیں حکمرانی سے پہلے بھی پاکستان کے سا تھ خاص قلبی لگاؤتھا،وہ پاکستا ن کے بہترین دوست تھے، یہی وجہ تھی کہ وہ تحفظات کو بالائے طا ق رکھ کر اور روایا ت سے ہٹ کر ہر کڑ ے وقت میں دامے ، درمے، سخنے پاکستان کی امداد و اعانت کے عملی اظہار میں کوئی کمی اور کسر نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کے اِسی امتیا زی وصف کی بناپر کسی بھی با حس ، درد مند اور غیر متعصب پاکستا نی کے لئے انہیں بھلانا، ممکن نہیں ہو گا۔ ان کے سانحۂ ارتحال سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ بنظر ظا ہر پورا ہونا بہت مشکل ہے،لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح اور درست ہے، جس میں کسی اختلاف رائے کی گنجائش ہی نہیں ہے کہ خدائے رحمن کی قدرت اور اس کی رحمت وعنایت لا محدود ہے اس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔۔۔اسے ذرّے کو آفتاب بناتے کچھ دیر نہیں لگتی ۔۔۔ اگر ماضی پر نظر ڈا لی جائے توکتنی ہی ایسی بڑی شخصیات تھیں، جو آج اس جہان رنگ و بوسے اوجھل ہیں، جن کے انتقال سے ایسا لگتا تھا کہ ان کے بعد گھٹا ٹوپ اندھیرے شاید کبھی اجالوں سے ہمکنار نہ ہو سکیں گے۔۔۔لیکن دنیا نے دیکھا۔۔۔ اور کھلی آنکھوں دیکھاکہ قدرت نے نہ صرف یہ خلا پُر فرمایا، بلکہ اس ضمن میں کئی ایسی مثالیں بھی سامنے آئیں کہ بعد میںآنے والے، اپنی بعض خصو صیات کی بناء پر، سابقین کے مقابلے میں کئی اعتبار سے آ گے بڑھ گئے۔۔۔اس کی ایک چھو ٹی سی مثال بیت اللہ اور مسجد نبویؐ کی خوب صورت اور شاندار وسعت کا تسلسل ہے کہ۔۔۔ آ ج تک جتنے بھی خوش نصیبوں کو حر مین شر یفین کی خدمت کا موقع ملا،ان سب نے مخلوقِ خدا کی خد مت کے جذبے سے اپنی اپنی بساط ، سمجھ اور میسر وسائل سے اپنے پیش رؤوں کی نسبت بڑھ چڑھ کر حصّہ لیا،جیسا کہ دور حاضر میں شاہ عبداللہ مرحوم بیت اللہ اور مسجدِ نبویؐ کی مزید توسیع کے لئے ایسے پاکیزہ نقوش اورروشن آثار چھوڑ گئے ہیں،جن کی تکمیل اگر اُن کے خیا لات کے مطابق ہو گئی، تو وہ نہ صرف انہیں زندہ وتابندہ رکھے گی، بلکہ رہتی دنیا تک ہر مسلمان کو ان کی یاد بھی دلاتی رہے گی۔
قارئین کرام! مَیں اپنے بیٹے حافظ عبدالصّمد فاروق، جو مدینہ منورہ میں گزشتہ سات برس سے کھجور کے کاروبار سے منسلک ہیں،کی کوشش اور محبت کی بدولت سعودی عرب میں مسلسل چار ماہ رہنے کی سعادت حاصل کر کے ابھی حال ہی میں واپس لوٹا ہوں، الحمدللہ میرا زیادہ تر وقت حرمین شریفین میں گزرا ہے۔۔۔ اس دوران حرمین کی شاندار توسیع کے زیر تعمیر، محیر العقول مناظر اور وہاں کے انتظام وانصرام کودیکھ کرشاہ عبداللہ اور ان کے سب رفقائے کار کے لئے دل سے دُعائیں نکلتی تھیں۔ ان دنوں بھی یہ خبر عام تھی کہ شاہ عبداللہ کافی عرصے سے شدید علیل ہیں ، اس لئے میں ایک انجانے سے واہمے کے پیش نظر ان کی درازی عمر اور صحت کے لئے خاص طور پر دُعا کیا کرتاتھا تاکہ وہ اپنے ذہن کے مطا بق حرمین شریفن کی تو سیع و خوبصور تی کے منصوبوں کو مکمل کرا سکیں۔۔۔
لیکن موت ایک ایسی شے ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔۔۔ نہ ہی یہ کوئی اچنبھے کی چیز ہے۔۔۔ یہ تو سنتِ بنی آدم ہے۔۔۔ دنیا میں جوبھی آتا ہے۔۔۔ جانے کے لئے آتا ہے۔۔۔اس دھر تی پہ آنا دراصل جانے کی تمہید ہے۔۔۔لیکن بعض جانے والے کچھ اس شان سے جاتے ہیں کہ پورے عالم کو سوگوار کر جاتے ہیں۔۔۔ ان کے جانے پرزمین وآسمان روتے ہیں۔۔۔ ان کی موت سے صرف ان کا خاندان ہی نہیں متاثر ہوتا،بلکہ ایک دنیا ان کی موت پر نوحہ کر تی ہے۔۔۔ان کے رہن سہن، طور طریقے، ذوق اور مزاج کے تذکرے دیر تک رہتے ہیں۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ شاہ عبداللہ مرحوم بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ایک تھے۔۔۔ انہیں داخلی اور خارجی امور کے ایک ماہر حکمران کے علاوہ حرمین شریفین کے ایک خادم ہو نے کے شرف کے سا تھ ساتھ ان دونوں مقد س مقا مات کو نہایت شا ن و شو کت کے ساتھ وسعت دینے کے حو الے سے قیامت تک یا د رکھا جائے گا ۔آئیے عالم اسلام اور حرمین کی خادم اس عظیم المرتبت ہستی کے لئے دُعا کریں کہ اللہ کریم انہیں غریقِ رحمت فرما ئے ،جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے اور ان کے لواحقین کو صبرجمیل سے نوازے۔۔۔ اور ان کی جدائی سے پیدا شدہ خلا کو بطریقِ احسن پُر فرمائے اور ان کی جگہ لینے والے شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو حا کمِ وقت کی حیثیت سے شاہ عبداللہ مرحوم سے بھی زیادہ اچھے اور ارفع کام کرنے کی تو فیق عطا فرمائے، جس سے دنیا بھر میں ان کو عزت و تو قیر حا صل ہو۔۔۔ سعودی عرب کی رعایا بھی ان سے خوش رہے اور ان کے وجود بامسعود کی بدولت اسلام کا بھی بول بالا ہو۔ آمین ثم آمین

مزیدخبریں