ہماری معیشت کیوں ڈوب رہی ہے ؟

ہماری معیشت کیوں ڈوب رہی ہے ؟
ہماری معیشت کیوں ڈوب رہی ہے ؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

1947ء میں جب پاکستان وجود میں آیا تو ہم مالی طور پر تقریباً کنگال تھے۔ ہمارا معاشی ڈھانچہ ابھی تیار بھی نہیں ہوا تھا۔ ہمارے حصے کا کیش جو برطانوی ہند سے ہمیں دیا جانا تھا وہ بھی ایک سال تک بھارت نے روکے رکھا۔ ہمارے حصے میں جو اسلحہ آیا تھا، اُس کی تقسیم میں بھی ہندوستان نے بے ایمانی کی اور تقریباً ناکارہ اسلحہ ہمیں دیا۔ 1948ء میں قائد اعظم کا انتقال ہوا اور کشمیر کی پہلی جنگ چھڑ گئی۔ محدود وسائل کے باوجود ہماری افواج اور اُن کے مدد گار قبائلیوں نے تقریباً نصف کشمیر آزاد کروالیا۔ نوزائیدہ پاکستان کے لئے مہاجروں کی آبادکاری بڑا بوجھ تھا۔ حکومتی نظام کو چلانے کے لئے نہ ہی تربیت یافتہ سینئر عملہ موجود تھا، کیونکہ ہندو اَفسر اور اہل کار بھارت جا چکے تھے اور ہم مسلمانوں کے پاس اُن ہندو اہل کاروں کے متبادل اہل کار مناسب تعداد میں نہیں تھے۔ البتہ اس کسمپرُ سی کے حالات میں پاکستان کے لئے دو چیزیں بہتر ہوئیں۔ ایک تو تھی کوریا کی جنگ۔ اس جنگ کی و جہ سے پاکستان کی خام روئی اور خام جُیوٹ سونے کے بھاؤ بکنے لگا۔ ابھی پلاسٹک اور نائلون کمرشل تعداد میں مارکیٹ میں نہیں آیا تھا اس لئے قدرتی ریشہ (fiber) جنگی ساز و سامان کی انڈسٹری میں استعمال ہوتا تھا۔ جیوُٹ پر پاکستان کی اَجارہ داری ہونے کی وجہ سے ہمیں کثیر تعداد میں زرمبادلہ ملنا شروع ہوگیا۔ ہمارے روپے کی قدر بہت مضبوط ہو گئی۔ 1952ء تک ہمارا روپیہ ہندوستان کے ڈیڑھ روپے کے برابر تھا۔ ایک ڈالر اور 20 سینٹس کے برابر ہمارا ایک روپیہ تھا بلکہ ہمارے ایک روپے کے 3 سعودی ریال ملتے تھے۔ کورین جنگ 1951ء میں ختم ہوگئی، لیکن اس جنگ کی وجہ سے ہمارے ملک کی مرکنیٹائل (تاجر) کلاس بہت امیر ہوگئی۔ اُس وقت پاکستان میں صنعت برائے نام تھی۔ 1953ء تک ہم کوئی ٹیکسٹائل مِل نہیں بنا سکے تھے۔ تقسیم ہند کے وقت ہمیں لائل پور ٹیکسٹائل مِل ،ڈالمیاسمنٹ فیکٹری کراچی اور مردان شوگر مِلز ورثے میں بطور متروکہ جائیداد حاصل ہوئے تھے۔

ہندوستان سے 1948ء کی جنگِ کشمیر کے بعد ہماری نیک توقعات، بطور ایک اچھے ہمسائے کے ، ہندوستان سے ختم ہوگئیں۔ ہندوستانی لیڈروں کو بھارت کو کاٹ کر پاکستان بنانے کا بڑا قلق تھا۔ وہ ہمارے لئے نیک خواہشات نہیں رکھتے تھے ،جِس کی وجہ سے پاکستان کو اپنی سکیورٹی کے لئے ایک مضبوط فوج رکھنی پڑی۔ فوج کو ساز و سامان امریکہ سے تو 1953ء کے بعد مِلنا شروع ہوا، لیکن اس سے پہلے ہمارے بجٹ کا بڑا حصہ دفاعی ضروریات کے لئے مختص کیا جانے لگا۔ ترقیاتی کاموں کے لئے کم رقم بچتی تھی اور یوں پاکستان نہ چاہتے ہوئے بھی ایک Security State بن گیا۔ اَب ہمیں اپنا ترقیاتی بجٹ کم کر کے ہر صورت دفاعی بجٹ پورا کرنا ضروری ہو گیا۔ 1960ء میں ہم نے ورلڈ بینک سے پہلا قرض لیا۔ فیلڈمارشل ایوب خان کے دورِ حکومت میں ہمارے ہاں صنعت ساز ی شروع ہوئی ۔ تاجروں کی وہ کلاس ،جس نے جنگِ کوریا میں خوب روپیہ کمایا تھا، اُس طبقہ کو مختلف مراعات دے کر صنعت کی طرف مائل کیا گیا۔ خام مال کی اِمپورٹ عام کی گئی، صنعتی ترقی کی اِبتدا کے لئے PIDC کا ادارہ وجود میں لایا گیا، تاکہ بھاری صنعتوں کو حکومت خود اپنے سرمائے سے چالو کر کے کامیاب کرے اور پھر وہ صنعتیں پرائیویٹ صنعت کاروں کو سونپ دی جائیں۔ یہ تجربہ کامیاب رہا۔جب صنعت کاروں کو حوصلہ ملا، خطیر منافع مِلا اور حکومتی سرپرستی ملی تو پاکستان صنعتی لحاظ سے Asian Tiger بننے ہی والا تھا کہ چند واقعات اُوپر نیچے ہوئے، جن کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کا پہیہ نہ صرف رُک گیا ،بلکہ اُسے پیچھے موڑ دیا گیا۔ 1965ء کی جنگ بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہم پر مسلط کر دی گئی۔ مَیں تاریخ کی گہرائی اور سازشوں کے ذِکر سے بچتا ہوا، یہ ضرور کہوں گا کہ 1965 ء کی جنگ Engineered تھی ،یعنی جس نے بھی شروع کروائی، اُس کا مقصد پاکستان کی برق رفتار ترقی کو روکنا تھا اور فیلڈ مارشل ایوب کی امریکہ کے خلاف کتاب لکھنے کا شاخسانہ بھی تھا، جس کی وجہ سے امریکہ نے Regime Change (حکومت بدلنے) کا منصوبہ بنایا۔ 1965 ء کی جنگ اور اُس کا 17 روز بعد خاتمہ ، ذوالفقار علی بھٹو کا ایوب خان سے روٹھ کر اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی بنانا، ایوب خان کو بے عزت کر کے صدارت سے ہٹوانا، ایسٹ پاکستان میں بغاوت کا ہونا، جنرل یحییٰ خان کا جوڑ توڑ میں ملّوث ہونا، ایسٹ پاکستان کا بنگلہ دیش بننا، بھٹوصاحب کا حکومت میں آتے ہی روپے کی قدر کو نہایت کم کر دینا، تمام چھوٹی بڑی صنعتوں کو قومیانہ، پاکستانی مزدور اور چھوٹے درجے کے ملازموں کو نظم و ضبط سے عاری کر کے گستاخ اور کام چور بنادینا، یہ تمام کڑیاں پاکستان کی معاشی ریڑھ کی ہڈی کو توڑنے کے مترادف تھیں،یہاں تک کہ ہمارے پرائیویٹ سکولوں اور کالجوں کو جب قومیالیا گیا تو سمجھ لیں کہ تعلیمی معیار کو بھی مسمار کر دیا گیا۔ ذرا غور کیجئے گا۔ 1972ء کے بعد سے ہمارے سرکاری تعلیمی معیار کا اِنحطاط ہوتا ہی چلا جا رہا ہے۔

ہماری معیشت کو پسماندگی کی گہرایوں میں پھینکنے کے لئے جب مندرجہ ذیل لوازم پورے کر دیئے گئے تو پروگرام کااگلا حصہ شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے۔ (1) ہماری لیبر اور چھوٹے درجے کے ملازمین کو نظم و ضبط سے بے بہرہ کر کے گستاخ اور کام چور بنا دیا گیا۔ (2) چھوٹی بڑی صنعتوں کو قومیانے سے مزید سرمایہ کاری نہ صرف رُک گئی بلکہ سرمایہ بیرون ملک چلاگیا۔ (3) پاکستان میں جو سرمایہ بچا وہ چھوٹے درجے کی ٹریڈنگ اور دوکانداری میں استعمال ہوایعنی کارپوریٹ ٹیکس ملنا بند ہو گیا اور چھوٹے تاجر نے ٹیکس چوری شروع کر دی۔(4)ٹیکس چوری کی وجہ سے بالواسطہ ٹیکس زیادہ بڑھنے شروع ہو گئے اور یوں مہنگائی بڑھتی گئی جس کا مطلب ہوا کہ عوام کی بچتوں کو مہنگائی نے نِگلنا شروع کر دیا۔ (5) بلاواسطہ ٹیکس کا نظام جب کم ہوتا گیا تو کالا دھن زیادہ پیدا ہونا شروع ہوگیا یعنی ملک تو غریب ہوتا چلا گیا اور ٹیکس نادہندہ عوام امیر سے امیر ہوتے چلے گئے۔ (6) اَب حالت یہ ہے کہ ہماری قومی آمدنی سرکاری طور پر 3 فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے، جبکہ Black economy (کالادھن) 15 فیصد سالانہ بڑھ رہی ہے۔ (7) مناسب اور ٹھوس نظامِ ٹیکس نہ ہونے کی وجہ سے کالا دھن ہماری زندگی کے ہر شعبے میں در آیا ہے۔ شادی بیاہ سے جُڑے ہوئے اَخراجات آنکھوں کو خیرہ کر دیتے ہیں، مہنگے سکولوں کی بے تحا شہ فیس Structure ، مہنگے سٹورز ، اَن گنت ہائی فائی ریسٹورنٹ ، مہنگی کاریں ، کھال اُتارنے والے ہسپتالوں کی بھر مار اور شہری لوگوں کے 5 سٹار اور 7 سٹار عمرے ، اس چیز کی غمازی کرتے ہیں کہ کالا دھن Consumption (کھپت)میں جا رہا ہے، پیداواری عمل میں نہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارے شہروں میں ملازمتیں کالا دھن پیدا کرنے والے شعبوں میں مِل رہی ہیں مثلاً سوپرسٹورز، ریسٹورنٹس،مہنگے بیوٹی پارلرز،اُونچے درجے کے سکول، کیٹرنگ اور شادی ہالز چلانے والے، بڑی بڑی بوتیکس اور فیشن/ ڈیزائنرزسٹورز، جبکہ صنعت کاری مناسب تعداد میں نہ ہونے کی وجہ سے صنعتی ملازمتیں کم میسّرہیں۔ اگر یہ نظام یوں ہی چلتا رہا اور ٹیکس کے نظام کو منصفانہ نہیں بنایا گیا تو ہماری معیشت مزید بگاڑ کی طرف بڑھتی جائے گی۔ کالے دھن کے علاوہ، بے لگام مالی کرپشن جو ہمارے حکومتی اور معاشرتی نظام میں پھیل گئی ہے، وہ بھی ہماری معیشت کی ترقی میں منفی کِردار ادا کر رہی ہے۔ ماہرینِ معاشیات کی نظر میں ہلکی پھلکی مالی کرپشن معاشی ترقی کے لئے ضروری ہے، لیکن ایسی مالی بدعنوانیاں جو ہمارے ملک میں ہو رہی ہیں اور جس اُونچے درجہ کی ہو رہی ہیں اُس کرپشن کے لئے تو ڈکیتی سے بھی بڑا نام درکار ہے۔ جب حکمران طبقہ ٹیکس نہیں دے گا، ہر کاروبارِ حکومت میں اپنا کمیشن رکھے گا، حکومتی اہم عہدوں پر اپنے پسنددیدہ اور غیر مستحق اَفراد کا تقرر اور اقربا پروری کرے گا، عوام کی بنیادی ضروریات پر اخراجات کرنے کی بجائے میگا پروجیکٹس پر حکومتی خزانہ لُٹا دے گا تو پھر بتایئے کہ غریب عوام کو کیا ملے گا، معاشی ترقی، سیاسی دیانت داری اور اِنصاف کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ معاشی ترقی کے لئے امن و امان اور قانون کی عملداری بھی بہت ضروری ہیں۔ پچھلے 15 سال سے دہشت گردی، فرقہ بندی ، لسانی فسادات ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان نے سرمایہ کار کو خوف زدہ کر دیا ہے۔ کوئی بھی نیا سرمایہ کار طویل المدتی سرمایہ کاری کرنے کے لئے راضی نہیں ہے۔ کالے دھن کے مالکان مختصر مدتی سرمایہ کاری کرتے ہیں اور وہ بھی اُسی کاروبار یا صنعت میں جہاں بینکوں سے اپنے ہی سرمائے کی ضمانت پر قرض لے کر کام چلا یا جا سکے اور موقع مِلے تو دھاندلی کے ذریعے سیاسی بلیک میلنگ کے ذریعے حکومتی دباؤ ڈلوا کر بینکوں کے قرض کی رقم ہی معاف کروالی جائے ورنہ جمع شدہ سود تو ضرور معاف کر وا لیا جائے، معاشی ترقی کے لئے حُبّ الو طن سرمایہ کار کے علاوہ تربیت یافتہ کاریگروں کا میسّر ہونا بھی بہت اہم ہے۔


صنعتی مشینیں اَب کمپیوٹرکا استعمال بہت زیادہ کرتی ہیں۔ ہماری روائتی صنعت مثلاً شوگر، ٹیکسٹائل اور لائٹ انجینئرنگ میں ہائی ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر کا عمل دخل زیادہ ہے۔ ہمارا کاریگر اَن پڑھ یا کم پڑھا لکھا ہونے کی وجہ سے بھی جدید مشینوں کا آپریشن نہیں سمجھ پاتا۔ جو نوجوان زیادہ پڑھ لکھ جاتے ہیں اور کمپیوٹر کی بھی تعلیم حاصل کر لیتے ہیں وہ مشین آپریٹر بننا نہیں چاہتے بلکہ سفید کالر والی ملازمت ڈھونڈتے ہیں جو کم ہی ملتی ہیں۔ صنعت کار جب اپنی مشین کے لئے کاریگروں کوتربیت دِلوا لیتا ہے تو وہ کاریگر موقع ملتے ہی ملک سے باہر جانے کی کوشش کرتا ہے۔
پاکستان کی معیشت کی بنیاد دراصل زراعت اور اس سے جُڑی ہوئی صنعت اور تجارت پر ہے۔ ہمارے ملک کو اللہ تعالیٰ نے 4 موسم عطا فرمائے ہیں۔ ہمارا سرمایہ کار اگر زراعت میں، لائیوسٹاک ، ڈیری پراڈکٹس کی مصنوعات ، پھلوں اور پھولوں کی کاشت میں سائنسی بنیادوں پر سرمایہ کاری کرے تو ہم بھی آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ڈنمارک کی طرح خوشحال ہو سکتے ہیں، اَب کچھ لوگ دودھ اور پولٹری کو جدید پیداواری عمل کی طرف لے جا رہے ہیں۔زراعتی صنعت کاری میں ہماری اَن پڑھ افرادی قوت کو روز گار بھی مِل سکتا ہے۔ ہماری حکومتوں کے کارپرواز پچھلے 40 سال سے خود غرض اور بدعنوان آتے رہے ہیں۔ کالا باغ ڈیم جس کو چند سازشی اور بدعنوان سیاستدانوں نے ایک گالی بنا دیا ہے اور پاکستان کے لئے شجر ممنوعہ قرار دے دیا ہے، اگر وقت پر بنا دیا جاتا تو آج ہم جس قسم کی معاشی کسمپری کی حالت میں ہیں ، وہ نہ ہوتے۔ کالا باغ ڈیم جو دریائے سوات اور دریائے کابل کے پانی کو ذخیرہ کر کے تعمیر کیا جانا تھا اُس کی راہ میں خا ص مقصد اور لالچ کے لئے روڑے اَٹکائے گئے۔ ہم جانتے ہیں کہ کالا باغ دیم کے ذریعے دریاؤں کے پانی کو ذخیرہ کر کے سستی بجلی بھی بنانی تھی اور سیلابوں کی تباہ کاریوں کو بھی روکنا تھا۔ ڈیموں کی بجلی تھرمل بجلی سے بہت زیادہ ارزاں ہوتی ہے۔ تھرمل بجلی پاکستان میں فرنس آئل اور ڈیزل سے پیدا ہوتی ہے۔ بڑی آئل کمپنیاں ، جن میں بیرونی سرمایہ کاری ہوئی ہے، کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان میں اُن کے تیل کی طلب کم ہو جائے۔ آئل کمپنیوں نے پاکستان کو اپنے چنگل میں پھنسائے رکھنے کے لئے سیاستدانوں کو بڑی رشوتیں دے کر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو اپنے اپنے صوبوں کے لئے نقصان دہ قرار دِلوا دیا۔ بعض سیاستدانوں نے تو کالا باغ ڈیم کو بم سے اُڑا دینے کی دھمکی دی۔ کالا باغ ڈیم سے ہماری لاکھوں ایکڑ زمین سیراب ہوتی، سیلابی تباہ کاریاں کم سے کم تر ہو جاتیں، سستی بجلی وافر مقدار میں مِلتی ہزاروں ہنر مندوں کو ملازمتیں ملتیں۔ ہماری معیشت کا گراف کہاں جا پہنچتا اور کِن بلندیوں کو چھوتا ۔ پاکستان کے بدخواہوں نے یہ منصوبہ نہیں بننے دیا۔ فوجی سربراہ بھی آئے، لیکن وہ بُزدل نکلے۔ سیاستدانوں کی بڑکو ں سے ڈرگئے ۔ کاش ایوب خان جیسا حُبّ الو طن فوجی سربراہ ہوتا تو وہ کبھی کا فیصلہ کر چکا ہوتا۔ پاکستان کی معاشی بد قسمتی یہ نہیں تو پھرکیا ہے۔ اگر ہمارے ہاں ایوب خان، نواب آف کالا باغ اور خدا بخش بچہ جیسے حکمران ، جو زراعت سے بھی محبت رکھتے تھے اور بے لوث بھی تھے، پیدا ہو جائیں تو پاکستان مضبوط معیشت کا مالک ہو سکتا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری معاشی ترقی کا پہیہ اُلٹا چل رہا ہے۔ مزید بیڑہ غرق دہشت گردی کے عذاب نے کر دیا ہے۔ ہمارے فوجی اخراجات حالتِ جنگ کی مانند ہیں،بجٹ کا بڑا حصہ غیر ملکی قرضوں کے سود کی ادائیگی اور پھر دفاع پر خرچ ہو جاتا ہے پھر کرپشن بھی بہت کچھ چاٹ جاتی ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی ٹڈی دَل کی طرح ہماری مزید پسماندگی کا باعث بن رہی ہے۔ اچھی صحت ،بہتر تعلیم، غیر آلودہ ماحول، صاف پینے کا پانی، مناسب رہائشی سہولیات اور جرائم میں کمی، ایسی برکات ہیں جو آبادی کے کنٹرول سے وابستہ ہیں۔ بے ہنگم آبادی کی زیادتی محدود ذرائع(Resources) پر بڑا بوجھ بن جاتی ہے۔اِن حالات میں عوام کی بنیادی ضروریات کہاں سے پوری ہوں گی؟

مزید :

کالم -