سعودی عرب میں تبدیلی
سعودی عرب کے 90سالہ بادشاہ، عبداللہ بن عبدالعزیز طویل علالت کے بعد دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اُنہیں خاندانی قبرستان میں سپردخاک کرنے کے فوراً بعد ان کے79سالہ (سوتیلے) بھائی اور ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز نے ان کی جگہ سنبھال لی۔انہوں نے تخت پر بیٹھتے ہی شہزادہ محمد بن نائف بن عبدالعزیز کو ولی عہد دوئم مقرر کر دیا۔ ولی عہد اوّل شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز ہوں گے۔کچھ عرصہ پہلے جب شہزادہ مقرن کو ولی عہد دوئم مقرر کیا گیا تھا، تو یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ بادشاہت شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں سے نکل کر پوتوں کے پاس پہنچنے والی ہے۔ مقرن اپنے بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ وہ ستمبر1945ء میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے کئی بڑے بھائی بقید حیات ہیں، لیکن ان میں سے کوئی بھی بادشاہت کا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں سمجھا گیا۔ شہزادہ مقرن کے نام جب قرعہ فال نکلا یا نکالا گیا، تو اس کا واضح مطلب تھا کہ جانشینی کی قطار میں نئی نسل آگے آ گئی ہے۔ چچاؤں نے سلطنت کی باگ ڈور بھتیجوں کے سپرد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے یا بھتیجوں نے آگے بڑھ کر اسے سنبھالنے کی کوشش کی ہے۔
سعودی عرب کی بادشاہت اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں بانی سلطنت عبدالعزیز نے اپنے بڑے بیٹے اور اس کی نسل کو وارث بنانے کے بجائے، اپنے بیٹوں کو اپنی وراثت منتقل کی اور اُن کی وصیت کے مطابق ان ہی میں سے یکے بعد دیگرے بادشاہ بنتے رہے۔شاہ عبدالعزیز نے اپنی سلطنت کی بنیادیں مضبوط بنانے کے لیے قریباً ہر قبائلی سربراہ کی بیٹی سے شادی کی۔ اسلام میں چونکہ بیک وقت چار بیویوں کو حلقۂ نکاح میں رکھا جا سکتا ہے، اس لیے یہ ملکائیں وقفے وقفے سے طلاقیں حاصل کر کے دوسروں کے لیے جگہ خالی کرتی رہیں۔ ہر طلاق یافتہ خاتون شاہی خاندان کا حصہ سمجھی جاتی تھی، اور اسے خصوصی مراعات حاصل رہتی تھیں، جس کے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا تھا، اس کی شان دوبالا ہو جاتی تھی۔ عبدالعزیز نے (کم و بیش) 22 شادیاں کیں، ان کے بیٹوں کی تعداد 35سے 45بتائی جاتی ہے جبکہ بیٹیاں 50 گنی گئی ہیں۔ شاہ عبدالعزیز کی روایت ان کے کئی بیٹوں نے بھی برقرار رکھی۔ ان کے جانشین اوّل سعود بن عبدالعزیز کے53بیٹے اور 54 بیٹیاں بیان کی گئی تھیں۔ اس وقت سعودی شاہی خاندان کے افراد کی تعداد15ہزار کے لگ بھگ ہے اور یہ (شاید) تاریخِ عالم کا سب سے بڑا شاہی خاندان ہے۔
بچوں کے درمیان برادرانہ تعلق ماں کی بدولت مستحکم ہوتا ہے۔ایک ماں کے بیٹے ایک دوسرے کے زیادہ قریب ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہی محل میں پرورش پاتے ہیں۔ شاہ عبدالعزیز کی ایک بیوی نے جو کہ سدیری قبیلے سے تعلق رکھتی تھی، سات بیٹوں کو جنم دیا۔ یہ سدیری برادران یا ’’سدیری سیون‘‘ کہلاتے تھے۔ ان کا جتھہ بڑا مضبوط تھا۔ شاہ فہد کی تخت نشینی کے بعد ان کے اثرو نفوذ میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ فہد1982 میں تخت نشین ہوئے اور2005ء میں وفات پائی۔ ان کے بعد شاہ عبداللہ نے اقتدار سنبھالا، لیکن ان کے ولی عہد اوّل شہزادہ سلطان ان کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے۔ ان کی جگہ شہزادہ نائف کو ولی عہد مقرر کیا گیا، لیکن انہیں بھی پیامِ اَجل آ گیا۔ سلمان بن عبدالعزیز ان کے جانشین ہوئے۔ فہد، سلطان، نائف اور سلمان چاروں بھائی تھے اور ’’سدیری لڑی‘‘ کا حصہ۔ اب جس نوجوان شہزادے محمد کو جانشین دوئم مقرر کیا گیا ہے وہ1959ء میں پیدا ہوئے تھے گویا، ان کی عمر55سال ہے۔ وہ اپنے والد کے دوسرے بیٹے ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے لیوس اینڈ کلارک کالج سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کی اور تین سال تک ایف بی آئی کے سیکیورٹی کورسز کا مطالعہ کیا۔نوے کی دہائی میں انہیں سکاٹ لینڈ یارڈ کے اینٹی ٹیررازم یونٹس میں تربیت دلائی گئی۔2013ء سے وہ سعودی عرب کے وزیر داخلہ کے طور پر فرائض ادا کر رہے تھے۔ وہ سعودی عرب کی سپریم اکانومک کونسل کے ممبر بھی رہے ہیں۔ شہزادہ محمد دہشت گردوں سے سختی سے نبٹنے کے قائل ہیں اور انہیں ’’مردِ آہن‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ شام کے بحران سے نبٹنے کے لیے بھی انہیں ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ شہزادہ محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عام سعودی شہزادوں کی طرح میڈیا سے دور نہیں بھاگتے اور اپنے نقطہ نظر کا دھڑلّے سے اظہار کر سکتے ہیں۔ انہیں کئی امریکی سفارت کاروں کی طرف سے ’’سعودی کابینہ میں سب سے معتمد‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ یمن میں القاعدہ سے نبٹنے میں ان کا کردار نمایاں اور موثر ہو گا۔ سعودی عرب میں بھی انہوں نے دہشت گردوں کو انتہائی سختی سے کچل کر رکھ دیا ہے وہ اس حوالے سے کسی رو رعایت کے قائل نہیں ہیں۔
شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز سے تو اہل پاکستان یوں بخوبی واقف ہیں کہ سعودی انٹیلی جنس کے سربراہ کے طور پر وہ اس وقت پاکستان آئے تھے، جب میاں محمد نواز شریف لندن سے پاکستان آنے کی کوشش کر رہے تھے۔انہوں نے اخبار نویسوں کے سامنے وہ معاہدہ لہرایا تھا، جو نواز شریف صاحب کے قیام جدہ کے حوالے سے طے پایا تھا۔ اس کی روشنی میں نواز شریف صاحب کو اسلام آباد سے واپس جدہ لے جایا گیا۔ شہزادہ مقرن برطانیہ اور امریکہ میں زیر تعلیم رہے۔ برطانیہ کے رائل ایر فورس کالج(کرین ویل) سے انہوں نے ایروناٹک میں گریجوایشن کی اور فلائٹ لیفٹیننٹ بن گئے۔ امریکہ سے انہوں نے ایم اے کیا۔ وہ سعودی ایر فورس میں مختلف عہدوں پر کام کرتے رہے، بعد میں انہیں(صوبائی) گورنر بنا دیا گیا۔ 2005ء میں وہ سعودی انٹیلی جنس ایجنسی (المخابرات العامہ) کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ 2013ء میں شاہ عبداللہ نے انہیں نائب وزیراعظم اور ولی عہد دوئم کے منصب پر فائز کر دیا۔ اب وہ ولی عہد اوّل ہیں۔ ان کے 14بچے ہیں۔ پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں سے وہ بخوبی واقف ہیں اور ان کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں۔
جہاں تک نئے بادشاہ سلمان کا تعلق ہے ، ولی عہد اوّل کے طور پر وہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں اور پاکستان کے ساتھ سعودی عرب کے تاریخی تعلقات کا گہرا ادراک رکھتے ہیں۔ وہ طویل عرصے تک ریاض کے گورنر رہے اور گزشتہ چار سال سے وزیر دفاع کے طور پر کام کر رہے تھے۔ انہوں نے سعودی عرب کے ’’پرنسز سکول‘‘ میں تعلیم حاصل کی ہے، جو خاص طور پر شہزادوں کی تعلیم و تربیت کے لئے قائم کیا گیا تھا۔ شاہ عبداللہ کی علالت ہی کے دورن انہوں نے ان کی جگہ سنبھال لی تھی۔ گزشتہ تین سال سے امورِ مملکت وہی انجام دے رہے تھے۔ ان کا مزاج نسبتاً دھیما ہے اور توقع یہی ہے کہ شاہ عبداللہ نے اصلاحات کا جو آغاز کیا تھا، وہ احتیاط کے ساتھ انہیں جاری رکھیں گے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کی یادداشت کمزور ہے،جس کی وجہ سے ان کی گرفت کے بارے میں سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی امور میں بھی ایک مضبوط تعلق قائم ہے، اس لیے پاکستان کے حوالے سے کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے۔ شاہ عبداللہ کی طرح ان کا رویہ بھی مشفقانہ اور دوستانہ رہے گا۔ یاد رہے کہ شاہ عبداللہ کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے بہت دلچسپی تھی۔ جب پاکستان میں زلزلہ آیا تو ان ہی کی ہدایت پر سعودی ٹیلی ویژن نے عوام سے عطیات جمع کرنے کے لیے خصوصی اہتمام کیا تھا۔ شاہ عبداللہ مرحوم ،نواز شریف اور ان کے خاندان کو جنرل پرویز مشرف کے عقوبت خانے سے برآمد کرا کے سعودی عرب لے جانے میں کامیاب رہے تھے اور اس حوالے سے ان کا کردار دونوں ملکوں کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ تھا۔ گزشتہ سال پاکستانی معیشت کے لئے انہوں نے ڈیڑھ ارب ڈالر کا بھاری تحفہ دے کر پاکستانی روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا۔اس سے پہلے1998ء میں ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان کو تیل کی فراہمی یقینی بنا کر اس کی معیشت کو تہہ بالا ہونے سے بچایا گیا تھا۔
سعودی عرب سے پاکستان کا تعلق ان تمام حلقوں کی نگاہ میں کھٹکتا ہے، جو پاکستان کو تنہا اور کمزور دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے اندر بھی ان کے آلاتِ کار موجود ہیں، وہ کبھی سعودی عرب پر مذہبی دہشت گردوں کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہیں، کبھی وہاں کی بادشاہت کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں۔ سعودی عرب میں زیادہ تر حنبلی فقہ کی پیروی کی جاتی ہے، سلفی کہلانے والے بھی مضبوط ہیں کہ حنابلہ اور سلفیوں میں گہری ہم آہنگی پائی جاتی ہے علماء شریک اقتدار ہیں اور دنیا بھر میں تبلیغی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ سعودی کاروباری حلقے بھی مختلف ملکوں میں اپنے ہم مسلک اداروں اور افراد کو مالی معاونت فراہم کرتے ہیں، لیکن فرقہ وارانہ دہشت گردی سے سعودی ریاست کا تعلق جوڑنا لاعلمی، بلکہ کج فہمی کی دلیل ہے۔ کسی ریاست کے اندر بسنے والے کسی شہری کی غیر ذمہ دارانہ حرکت کی ذمہ داری ریاستی ڈھانچے پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ نائن الیون کے امریکی ملزموں میں بڑی تعداد سعودی شہریوں کی تھی، لیکن اس کا یہ مطلب کہیں بھی نہیں نکالا گیا کہ سعودی ریاست یا حکومت اس کارروائی میں شریک تھی۔
جہاں تک بادشاہت کا تعلق ہے، تو ہر مُلک کے رہنے والے اپنے داخلی نظام کے بارے میں فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔ چین کے ساتھ دوستی میں جب وہاں کی ’’یک جماعتی جمہوریت‘‘ کو موضوعِ گفتگو نہیں بنایا جاتا، ایران کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے وہاں کی ’’ولایت فقیہہ‘‘ پر انگلی نہیں اٹھائی جاتی، تو سعودی عرب کی بات کرتے ہوئے وہاں کے سیاسی نظام پر اعتراض کا حق کسی پاکستانی دانشور کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟
(یہ کالم روزنامہ ’’ دنیا‘‘ اور روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)