والدین کی بد دُعا
محمد عبداللہ مدنی ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جو ڈاکٹر نور احمد نے انہیں بتایا۔ جناب ڈاکٹر نور احمد صاحب بیان کرتے ہیں: میرے والد صاحب کے ایک دوست کے متعلق مشہور تھا کہ جب اس کی والدہ قریب مرگ تھی تو اس نے اس کے ساتھ بدتمیزی کی اور وہ بے چاری اکیلی پڑی رہی اور اس حالت میں مر گئی۔ میں اس جستجو میں تھا کہ جو والدین سے برا سلوک رکھے اس کا خاتمہ کیسے ہوتا ہے؟
زندگی کے ایام گزر گئے۔ تقریباً اس واقعہ سے تیس سال بعد یہ صاحب جو اپنی والدہ کے ساتھ بدسلوکی سے پیش آئے تھے، بیمار ہوئے تو پیٹ کی خرابی کی وجہ سے بہت کمزور ہوگئے۔
انہیں علاج کے لئے میرے پاس لایا گیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ بہت کمزور تھے اور رو رہے تھے۔ میں نے اس کو غذا بتائی تو رونے لگے اور بتایا کہ اس کے تین لڑکے ہیں مگر اس کی پرواہ نہیں کرتے۔ کئی دنوں سے بیمار پڑا ہوں، ایک دفعہ بھی ملنے نہیں آئے۔
چنانچہ اسی حالت میں اس کی موت واقع ہوگئی۔ وہ شخص اکیلا پڑا مر رہا تھا مگر اس کے ساتھ کوئی بھی نہ تھا۔ صبح کے وقت محلہ والوں نے دیکھا تو چیونٹیاں اس کو کاٹ رہی تھیں اور وہ اللہ کو پیارا ہوچکا تھا۔ واقعی والدہ سے زیادتی کرنے والے کو سزا اس دنیا میں بھی مل کر رہتی ہے۔
ڈاکٹر نور احمد صاحب ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ میرے وارڈ کا ایک نوجوان جو گردے فیل ہوجانے کی وجہ سے مرا، تین دن تک حالتِ نزع میں رہا۔ اتنی بری موت مرا کہ آج تک ایسی موت میں نے پچھلی چالیس سالہ زندگی میں نہیں دیکھی۔
اس کا منہ نیلا ہوجاتا تھا، آنکھیں نکل آتی تھیں اور اس کے منہ سے دردناک آوازیں نکلتی تھیں جیسے کوئی اس کا گلا دبارہا ہو۔ مرنے سے ایک دن قبل یہ کیفیت زیادہ ہوگئی۔
آواز تیز ہوگئی اور وارڈ سے دوسرے مریض بھاگنا شروع ہو گئے۔ چنانچہ اس کو وارڈ سے دوسرے کمرے میں منتقل کردیا گیا تاکہ آواز کم ہوجائے مگر پھر بھی یہ حالت جاری رہی۔ اس کا والد مجھے یہ کہنے آیا کہ اس کو زہر کا ٹیکہ لگادیں تاکہ یہ مر جائے، ہم سے ایسی حالت دیکھی نہیں جاسکتی۔ میں نے اس کے والد صاحب سے پوچھا کہ اس نے کیا خاص غلطی کی ہے؟ اس کا والد فوراً بول اٹھا کہ یہ شخص اپنی بیوی کو خوش کرنے کے لئے اپنی ماں کو مارا کرتا تھا اور میں اس کو بہت روکا کرتا تھا۔ یہ بُری موت اس کا نتیجہ ہے۔
محمد عبداللہ مدنی لکھتے ہیں کہ میرا ایک دوست اپنی بستی میں رشتہ داروں کو ملنے گیا۔ وہاں ایک واقعہ رونما ہوا جو درج کر رہا ہوں۔ اس بستی میں ایک کسان کے گھر اس کی ماں اور اس کی بیوی کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا تھا۔ کئی دفعہ اس کی بیوی ناراض ہوکر چلی گئی۔
بہت منت سماجت سے وہ اس کو واپس لے آتا تھا۔ اس کی بیوی نے یہ شرط آخری بار رکھی کہ اگر تو اپنی ماں کو ختم کردے تو پھر میں تمہارے گھر آؤں گی۔ اس کسان نے روزانہ کے جھگڑے سے تنگ آکر ماں کو قتل کرنے کا پروگرام بنایا۔
وہ کسان روزانہ کماد کھیت سے کاٹ کر بازار میں بیچا کرتا تھا۔ ایک دن اپنی ماں کو کھیت میں اس بہانے پر لے گیا کہ وہ کماد کا گٹھہ اس کے سر پر رکھ دے۔
چنانچہ والدہ کو ساتھ کھڑا کیا اور کماد کاٹنے شروع کردیئے۔ پھر یکدم اپنی کلہاڑی سے اپنی ماں کو ختم کرنے کے ارادہ سے حملہ کیا تو زمین نے اس کے پاؤں پکڑ لیے، کلہاڑی دور جا پڑی اور اس کی ماں چلاتی ہوئی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگ نکلی۔ زمین نے آہستہ آہستہ کسان کو نگلنا شروع کردیا تو کسان نے چلانا شروع کردیا ، اونچی آواز میں اپنی ماں کو پکارتا رہا اور معافی مانگتا رہا مگر کھیت دور ہونے کی وجہ سے لوگوں تک آواز بہت دیر کے بعد پہنچی۔
جب لوگ وہاں پہنچے تو چھاتی تک زمین اس کو نگل چکی تھی اور اس کا سانس بھی بند ہورہا تھا۔ اسی حالت میں آہستہ آہستہ زمین میں دفن ہوتا گیا۔ لوگوں نے اس کو نکالنے کی بہت کوشش کی مگر زمین نے اس کو نہ چھوڑا اور وہیں مر گیا۔ یہ چند ماہ کا واقعہ ہے اور تحقیق شدہ ہے۔(بحوالہ: محمد عبداللہ مدنی، رسول کریم ﷺ کے نافرمانوں کا عبرتناک انجام، صفحات 123-125)۔
آج سے قریباً 45 سال قبل راولپنڈی شہر میں مقیم ایک ماں نے مجھے بتایا کہ اس کے نوجوان بیٹے نے مشتعل ہوکر سنگھار میز کا بڑا شیشہ اٹھایا اور ماں کے سر پر مارنا شروع کردیا۔ ماں اپنا سر بچانے کے لئے اپنے دونوں ہاتھوں سے شیشے کی ضربیں برداشت کرتی رہی۔
اس ماں نے مجھے دونوں ہاتھ دکھائے جن پر بے شمار ٹانکے لگے ہوئے تھے۔ وہ ماں بتانے لگی کہ جب ڈاکٹر آپریشن تھیٹر میں میری انگلیوں پر ٹانکے لگا رہا تھا تو مجھے شدید درد محسوس ہورہا تھا۔ اس ماں کو اس کے شوہر نے گھر سے کئی سال قبل نکال دیا تھا اور وہ اپنے چھ بچوں کی پرورش اپنی ماں کے مکان میں کر رہی تھی۔
اس دردناک اور وحشت ناک واقعے کے بعد اس نوجوان بیٹے کو اس کے دو دشمنوں نے ایک نہر کے کنارے قابو کرلیا اور اس کے گلے میں پھندا ڈال کر خوب کھینچا اور اسے ضلع گجرات کی بہت بڑی نہر قادر آباد لنک میں پھینک دیا۔
ماں کا یہ انتہائی گستاخ نوجوان بیٹا گہری نہر میں غوطے کھاتا ہوا ڈوب گیا۔ آج تک اس کی لاش نہیں ملی۔ کئی تھانوں میں اس کی لاش کے بارے میں پوچھا گیا لیکن اس ظالم نوجوان کا کوئی سراغ اور نام و نشان بھی اس دنیا میں باقی نہ رہا۔
آج سے تیس سال قبل میرے والد صاحب نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنی چھوٹی بہن کے جہیز اور شادی کا مکمل انتظام کروں۔ میں ان دنوں سول سروسز اکیڈمی والٹن لاہور میں چیف انسٹرکٹر تھا۔ میں نے شادی کا مکمل بندوبست اپنی جیب سے کیا۔
بارات کا انتظام اکیڈمی کے لان میں کیا گیا جہاں کھانا سرکاری خانساموں نے مہمانوں کو بڑی عزت و وقار سے کھلایا۔ شادی سے قبل میرا ایک رشتہ دار نوجوان مشتعل ہوگیا اور کہنے لگا: میں ڈاکٹر نیازی کی اس وقت بے عزتی کروں گا جب بارات آئی ہوگی اور کھانا کھایا جارہا ہوگا۔
میں نے یہ سارا واقعہ اپنے بزرگ دوست چوہدری خان محمد صاحب آف کوٹ بھکراں (ضلع سیالکوٹ) کو بتایا تو وہ جذباتی ہوگئے اور کہنے لگے کہ بارات میں میرے ساتھ 10 یا 12 مسلح جوان ہوں گے اگر اس شخص نے آپ کی توہین کی تو ہم آپ کی برادری کے سامنے اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔
میں نے والدہ صاحبہ سے عرض کیا کہ چوہدری خان محمد صاحب کا یہ پروگرام ہے۔ والدہ مکرمہ کہنے لگیں: آپ میرے انتہائی عزت والے بیٹے ہیں۔ آپ اپنی بہن کی شادی پر لاکھوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔
برادری میں اُس نوجوان کو بھلا یہ زیب دیتا ہے کہ آپ کی حوصلہ افزائی کی بجائے آپ کی آپ کے سٹاف اور بارات کے سامنے توہین کرے۔ چوہدری خان محمد صاحب کو کہہ دیں کہ کیوں اس لڑکے کی ٹانگیں تڑوانے کے بارے میں سوچ رہے ہو اللہ اس نوجوان کی ٹانگیں توڑ دے گا۔
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ وہ نوجوان شادی کی تقریب میں شامل نہ ہوسکا کیونکہ اس کی ٹانگ موٹر سائیکل کے حادثے میں ٹوٹ گئی، وہ داخل ہسپتال ہوا اور پورا ایک لاکھ روپیہ اس کے علاج، بیساکھیوں اور راڈ (ROD) پر خرچ ہوا۔ میں نے یہ چند واقعات اس لئے تحریر کیے تاکہ گستاخ اولاد عبرت حاصل کرے اور توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے۔