شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 11
اب میں نے اطراف و جوانب کا جائزہ لیا۔ ہمارے دائیں جانب تو وہ عمیق نالہ تھا، جس میں سے گزرکر ابھی رحمتو آدم خور پالی پور کی طرف گیا تھا۔ بائیں جانب ایک مختصر لیکن جنگل سے ڈھکی ہوئی پہاڑی تھی اور سامنے جدھر پگڈنڈی گئی تھی۔ وہ بہت بلند چٹانیں تھیں، جن پر جنگلی بیلوں نے غلاف چڑھارکھا تھا۔ پالی پور کی طرف جانے والے پگڈنڈی عین ان چٹانوں کے درمیان سے ہوکر گزرتی تھی۔ چٹانیں اتنی بلند تھیں کہ ان کا اوپری حصہ مجھے نظر نہیں آرہا تھا اور معاً مجھے یقین ہوگیا کہ یہ آدم خور ہماری تاک میں ان دونوں میں سے کسی ایک چٹان پر چھپا بیٹھا ہے اور یہ بات بھی بعید از قیاس نہ تھی کہ وہ ہم دونوں کا تعاقب کرتا رہا ہے لیکن صرف اس وجہ سے حملہ نہ کیا کہ ہم چوکس تھے۔
شیروں کا شکاری ، امریکہ میں مقیم شکاری اور شاعر قمر نقوی کی شکار بیتیاں ..۔ قسط 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایک لمحہ ٹھہر کر میں نے کچھ سوچا اور پھر عبدالرحیم کو ساتھ لے کر اس پہاڑی پر چڑھ گیا جو ان چٹانوں سے بلند اور ذرا علیحدہ تھی۔ ہم دونوں آہستہ آہستہ قدم رکھتے ہوئے پہاڑی کے اوپر پہنچ گئے۔ اس کے بعد جھاڑیوں کی آڑ سے میں نے چٹانوں کی طرف جھانکا۔ بمشکل نصف سیکنڈ قبل شیر چٹان پر سے اُٹھ کر نیچے گیا تھا، کیونکہ جس جگہ وہ لوٹا تھا، وہاں کی دبی ہوئی گھاس کے سرے آہستہ آہستہ اٹھ کر سیدھے ہورہے تھے۔ اگر شیر وہاں ایک سیکنڈ اور ٹھہرتا تو میں اس کی لاش ساتھ لے کر پالی پور پہنچتا، لیکن جس طرح میں نے اس کی چٹانوں پر موجودگی کا اندازہ کرلیا تھا۔ اسی طرح یا تو اس نے بھی سمجھ لیا کہ میں پہاڑی پر جاکر اسے ہلاک کرنے کی کوشش کروں گا یا ممکن ہے، پہاڑی پر چڑھتے وقت اس نے ہماری جھلک دیکھ لی ہو۔ میں نے عبدالرحیم کی طرف دیکھ کر سرہلایا اور ہم دوسری طرف پہاڑی پر سے اترنے لگے۔
عین اسی وقت نالے کے اندر تقریباً دو سو گز کے فاصلے پر شیر کے دہاڑ نے کی آواز آئی اور ہم دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ رحمتو مایوس ہوکر اپنے مسکن کی طرف واپس جارہا ہے۔ آواز دو تین دفعہ آئی اور ہر آواز کا فاصلہ زیادہ ہوتا گیا۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ہم لوگ پالی پور میں داخل ہوئے۔ مسعود محمود پہلے ہی پہنچ چکے تھے اور ان کو راستے میں کوئی قابل ذکر واقعہ پیش نہیں آیا تھا۔
پالی پور کے لوگ بڑی تکلیف دہ زندگی بسر کررہے تھے۔ بستی کے کئی لوگ اس آدم خور کا لقمہ بن چکے تھے۔ ان کی روزمرہ زندگی کے تمام کاروبار معطل پڑے تھے۔ کوئی شخص ذرا بے احتیاطی کرتا اور آدم خور کا نوالہ بن جاتا، گاؤں کے سب ہی لوگ ہم سے ملنے آئے اور ہم نے ان کو کافی تسلی تشفی دی، لیکن کوئی بھی مطمئن نہیں ہوا، البتہ جب عبدالرحیم نے ان کو بتایا کہ ہم لوگ گزشتہ شکاریوں سے بہت مختلف ہیں تب کسی حد تک ان کا اعتماد بحال ہوا۔
میں نے دلاور کو اسی روز ہدایت کردی کہ دوپہر کے کھانے کے بعد کچھ آدمیوں کو ساتھ لے جاکر اس درخت پر مچان بندھوادے، جو میں نے منتخب کیا تھا اور پھر مزید احتیاط کے پیش نظر مسعود اور محمود کو بھی ان کے ساتھ بھیج دیا۔ تین گھنٹے کے اندر ہی وہ مچان باندھ کر واپس آگئے اور انہوں نے بتایا کہ جس وقت ہم مچان باندھ رہے تھے تو اس دوران میں کئی دفعہ دور پہاڑ کی ایک وادی سے شیر کی آواز سنائی دی تھی۔ عبدالرحیم کا خیال تھاکہ وہ شیر کے شکار مارلینے کے بعد کی پرمسرت آواز تھی اور اگر اس کی یہ بات درست تھی تو اس کا یہ مطلب تھا کہ شیر کو کم از کم اس روز اور آئندہ روز مزید شکار کی ضرورت نہ ہوگی۔ لہٰذا اس شام میں نے مچان پر بیٹھنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
دوسرے روز صبح سویرے ہی ناشتے کے بعد میں، محمود، مسعود اور عبدالرحیم کو ساتھ لے کر سیدھا نہار موڑ آیا۔ مچان کی جگہ دیکھی اور محمود، مسعود اور دلاور کو مچان پر بٹھادیا۔ دوپہر کا کھانا ان کے ساتھتھا۔ میں نے ان کو تاکید کردی کہ جب تک میں واپس نہ آؤں، اس وقت تک مچان سے نہ اُتریں۔ میری واپسی کا امکان سہ پہر تک تھا۔(جاری ہے )