ساہیوال واقعہ سے پیدا ہونے والے سوالات

ساہیوال واقعہ سے پیدا ہونے والے سوالات
ساہیوال واقعہ سے پیدا ہونے والے سوالات

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ایسے واقعات جو معاشرے اور سرکاری محکموں کے منہ پر کالک مل دیتے ہیں، پاکستان میں رونما ہونا معمول بن گئے ہیں۔ ایک دو دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ رونا دھونا ہوتا ہے پھر معاملات معمول پر آجاتے ہیں ۔

ساہیوال کا واقعہ ایسا ہی ہے۔ جے ٓئی ٹی بنائی گئی، وزیراعلیٰ پنجاب نے عدم اطمینان کا اظہار کیا، ان کے وزیر قانون بضد ہیں کہ ہلاک کیا جانے والا ڈرائیور دہشت گرد تھا۔ کچھ نہ ملا تو اتنا ہی نکال لیا کہ اس کے کسی دہشت گرد کے ساتھ روابط تھے ۔ جھوٹ پر جھوٹ بولا جارہا ہے ۔

یہ ہفتے(19جنوری) اور اتوار کی درمیانی شب ہے۔ٹیلی ویڑن پرنشر ہونے والی خبر کے دوران ایک وڈیو چلتی ہے، جس میں واقعہ میں زندہ بچ جانے والے بچے کا کہنا ہے ’’ ہم اپنے گاوءں بورے والا میں چاچو رضوان کی شادی میں جارہے تھے۔ فائرنگ میں مرنے والی میری ماں کانام نبیلہ ہے اور والدکانام خلیل ہے۔مرنیوالی بہن کا نام اریبہ ہے۔ ہمارے ساتھ پا پا کے دوست بھی تھے،جنہیں مولوی کہتے تھے۔ فائرنگ سے پہلے پاپا نے کہا کہ پیسے لے لو، لیکن گولی مت مارو۔ انہوں نے پاپا کو ماردیا اور ہمیں اٹھا کر لے گئے۔پا پا ، ماما ، بہن اورپاپاکے دوست مار ے گئے‘‘۔ ایک ہفتہ گزرنے کے بعد بھی معاملہ لٹکا ہوا ہے۔

تمام لوگ گیند ایک دوسرے کی طرف اچھال رہے ہیں۔ کیا دوسر ے ممالک میں بھی ایسا ہی رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ عوام کے غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے وزیراعظم نے اعلا ن کیا کہ معاملے کی تحقیقات کے بعد ملزمان کو عبرت ناک سزائیں دی جائیں گی اور حکومت یتیم ویسیر ہوجانے والے بچوں کی تعلیم کی ذمہ دار ہو گی۔ نہیں ، وزیراعظم صاحب ، یہ بات اتنی آسان نہیں ہے جتنی آسانی سے آپ نے بیان دے دیا ہے۔ کیا وزیراعظم کو علم نہیں کہ اس ملک میں سرکاری دفاتر اور عمال کی کارکردگی انتہائی ناقص ہو گئی ہے۔

وہ زندہ لوگوں کے معاملات میں اسی وقت قدم اٹھاتے ہیں جب انہیں یقین ہو کہ انہیں کاغذ ہلانے کے پیسے ملیں گے۔ ورنہ کاغذ فائل میں پڑا رہتا ہے۔

یہ انگریز کی حکومت کا دور نہیں ہے اور اب وہ افسران اور اہل کار تو رہے نہیں جو یتیموں کے معاملہ کو اپنا معاملہ سمجھ کر نمٹایا کرتے تھے ۔ انگریز دور میں یتیم بچوں کی جا ئیدادوں کی نگرانی کرنے کا محکمہ قائم ہوا تھا، وہ محکمہ اب بھی کام کر رہاہے لیکن اس کی کارکردگی کی رفتار بہت ہی سست ہو گئی ہے۔ بچے دفاتر کے چکر ہی لگاتے رہتے ہیں۔ غفلت عیاں رہتی ہے۔
ساہیوال کے لاوارث ہوجانے والے بچوں کے لئے وزیراعظم کو نہیں،بلکہ عمران خان کو ان کا سرپرست مقرر ہونا چاہئے، ان بچوں کے نام پر بنک میں خطیر رقم جمع کرائی جانی چاہئے تاکہ وہ پوری زندگی میں اپنے قریبی عزیزوں کے بھی محتاج نہیں رہیں۔ انہیں اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخل کرانا چاہئے۔ ان کی ذہنی تھراپی سب سے زیادہ اہم ہے۔

ان کے ذہن پر جو اثرات مرتب ہوئے ہوں گے وہ انہیں تا عمر دہشت زدہ رکھیں گے۔ ان کے والدین کو ان کی آنکھوں کے سا منے گولیاں ماری گئیں ،انہوں نے اپنے و الدین کی آہ و بکا کی آوازیں سنی ہیں، وہ آوازیں ہی انہیں طویل عرصے تک خواب میں بھی سنائی دیتی رہیں گی۔ ان کی تو پوری زندگی کا روگ ہے۔

اس روگ میں کمی پیدا کرنے کے لئے ان کی ذہنی تھیراپی ، ان کی بہتر تعلیم و تربیت اور نشو ونما ہی کچھ مداوا کر سکتی ہے ورنہ روگ تو ہے ہی۔ یہ ذمہ داری کوئی وزیر اعظم نہیں، کوئی سرکاری محکمہ نہیں کوئی سرکاری افسر انجام نہیں دے سکتا ہے۔

عمران خان کو یہ ذمہ داری انجام دینا چاہئے۔ مجھے تو ذاتی طور پر ایدھی کے بچوں کے مرکز میں نگہداشت پر اطمینان نہیں ہوتا ہے۔ بیت المال میں بھی بچوں کی نگہداشت ملازمین کے سپر د ہے ۔ دو سال قبل میر پور خاص میں بیت المال کے سوئیٹ ہوم میں آگ لگ جانے کی وجہ سے پانچ یتیم بچے ہلاک ہو گئے تھے ۔ اپنے بچوں کا جس انداز میں خیال کیا جاتا ہے، پرائے بچوں پر وہ توجہ نہیں دی جاتی ہے۔
کیا پولیس کو یہ تربیت نہیں دی جاتی ہے کہ اس طرح کے واقعات میں جب ملزمان فرار ہو رہے ہوں تو ان پر براہ راست فائرنگ کرنے کی بجائے ان کی گاڑی کے ٹائروں پر فائر کیا جائے تاکہ گاڑی بھاگ نہ سکے۔ پھر گولیوں کی تعداد جو گاڑی پر چلائی گئی ، ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ ایسا کیوں کیا گیا ۔ کیا یہ مقصود تھا کہ گاڑی میں بیٹھے ہوئے تمام لوگ ہلاک ہو جائیں؟ لاہور کے ماڈل ٹاؤن سانحہ میں بھی پولیس نے اندھا دھند فائر نگ کر کے نہتے لوگوں کو ہلاک کر دیا تھا ۔ وہ واقعہ بھی وحشت کی مثال تھا ۔

ساہیوال کے واقعہ پر وزیراعلیٰ سندھ اور حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول اور دیگر ذمہ داران نے وفاقی اور پنجاب حکومت کے خلاف بیانات کی گولہ باری کردی کہ عمران خان کی حکومتیں ذمہ دار تھیں۔

اسی رات کو پولیس نے کراچی میں موٹر سائیکل پر فرار ہوتے ایک ملزم پر گولیاں چلائیں ،ملزم تو محفوظ رہا، لیکن دوسری موٹر سائیکل پر سوار میاں بیوی کو گولیاں لگیں۔یہ کارروائی یہ بتاتی ہے کہ پولیس کی تربیت میں خامی ہے۔

انہیں یہ ذہن نشین ہی نہیں کرایا جاتا ہے کہ انسانی زندگی سب سے زیادہ مقدم چیز ہے، انہیں ہر قیمت پر انسانی جان کو بچانا ہے خواہ وہ کسی دہشت گرد کی ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں پولس کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے کہ ملزم کی جان لے لینا ہی مسائل کا حل ہوتا ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو ماورائے عدالت قتل کے واقعات جنم نہ لیتے۔ افسران اور اہل کار لوگوں کو قتل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
بنیادی وجہ یہ ہے کہ جواب دہی کا خوف جاتا رہا ہے۔ یہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ معطلی یا تبادلہ ہوگا، جس کے لئے وہ تیار رہتے ہیں۔ ملک بھر میں ہونے والے واقعات کا جائزہ لیا جائے تو غالب گمان ہے کہ کسی بھی واقعہ کے ذمہ دار پولس اہل کاروں کو قید و مشقت کی سزائیں نہیں ہوتی ہے۔ معطلی کے کچھ عرصے بعد وہ بحال ہوجاتے ہیں۔ تبادلہ کی صورت میں تو ان کی جان خلاصی ہو جاتی ہے۔ کیا یہ ہی انصاف کے تقاضے ہوا کرتے ہیں؟

مزید :

رائے -کالم -