وزیراعظم کا میڈیا پر اعتراض!
پاکستان میں ہر شخص کو آئینی تحفظ حاصل ہے اور وہ ہر بات کر سکتا ہے بشرطیکہ وہ گفتگو بھی آئینی اور قانونی دائرے ہی کے اندر ہو، یہاں جماعت سازی اور خیال سازی کی آزادی ہے، لہٰذا ہم وزیراعظم عمران خان کا بھی یہ حق اسی حوالے سے تسلیم کرتے ہیں اور انہوں نے ڈیووس میں جو یہ فرمایا کہ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ان کو شدید ترین تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے عوام سے یہ بھی کہا کہ وہ اخبار پڑھنا اور ٹی وی ٹاک شوز دیکھنا چھوڑیں، سب ٹھیک ہو جائے گا، شکر ہے کہ انہوں نے یہ عوام سے اپیل کے طورپر بات کی ہے، ورنہ ان کے دور حکومت میں میڈیا (پرنٹ + الیکٹرونک) کا جو معاشی حال کیا گیا اس کی وجہ سے سینکڑوں کارکن بے روزگار ہوئے اور باقی جو بچے ان کی تنخواہیں بہت کم کر دی گئیں۔ اس کے باوجود کئی اداروں میں بروقت ادائیگی نہیں ہو رہی اور دو دو تین مہینے سے تنخواہیں نہیں ملیں، اس صورت حال کے باوجود وہ مطمئن نہیں اور اس سے پہلے انہوں نے اپنے سوشل میڈیا والے کارکنوں سے مخالفین کو جواب دینے کا کہا اور جیسے تو تیسا والی بات کی۔ محترم عمران خان کا یہ انداز اور تصور حکومت سنبھالنے سے پہلے بن چکا تھا کہ وہ کسی نہ کسی چینل یا اخبار سے نالاں رہتے تھے حالانکہ ان کی تمام تر شہرت اور اقتدار کی طرف پیش قدمی اسی میڈیا کی بدولت ہے جو ان کی کنٹینر والی ہر تقریر لائیو پیش کرتے اور ہر جلسے کی بھی لائیو کوریج ہوتی۔ اگرچہ وہ اس بات کو اب نہیں مانتے اور کہتے ہیں کہ تحریک انصاف اپنے سوشل میڈیا سیل کی کاوش اور بدولت اقتدار میں آئی ہے۔ یہ سب ان کے اپنے نظریات اور خیالات ہیں اس حوالے سے ان پر تنقید نہیں کرتے لیکن یہ گزارش ضروری ہے کہ پرنٹ ہو یا الیکٹرونک میڈیا ہم کسی کو یہ حق نہیں دیتے کہ وہ جھوٹا اور مخاصمہ یا غلط پروپیگنڈہ کریں لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ اگر ان کو میڈیا کوریج کی ضرورت ہے تو دوسرے سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کا بھی حق ہے اور پھر ضروری نہیں کہ ہر چیز اور پروگرام ہر ایک کی خوشنودی حاصل کر سکے اور جہاں تک غلط اور جھوٹی خبروں اور افواہوں پر مبنی پروگراموں کا تعلق ہے تو اس کے لئے ملکی عدالتیں کھلی ہوئی ہیں۔ ازالہ حیثیت عرفی کا قانون موجود ہے جس کے تحت فوجداری اور سول مقدمات ہوسکتے ہیں۔ اس لئے میڈیا کی آزادی پر سمجھوتہ مشکل ہے، وہ خود غور کریں تو حقیقت ان پر واضح ہو گی۔ تنقید کو برداشت کریں کہ اس سے بہتری آتی ہے۔میڈیا کو آزاد ہی رہنے دیں۔