وزیراعلیٰ بزدار کی ہرطرف باتیں لیکن صوبائی کابینہ کس حال میں ہے؟ پہلی مرتبہ صوبائی وزیر کا موقف بھی آگیا
لاہور (کالم: نسیم شاہد) پنجاب کے ایک صوبائی وزیر سے ملاقات ہوئی تو وہ اپنا دکھڑا لے بیٹھے۔ ان کا کہنا تھا وزیر اعلیٰ کی باتیں تو سب کر رہے ہیں کہ انہیں بے اختیار کر دیا گیا ہے، کسی کو یہ فکر نہیں کہ پنجاب کی کابینہ کس حال میں ہے، اسے سیکرٹریوں
کی کس قدر مزاحمت کا سامنا ہے؟ حالت یہ ہو چکی ہے کہ اکثر صوبائی وزراء لاہور میں بیٹھنے کی بجائے زیادہ تر اپنے اپنے آبائی شہروں میں رہتے ہیں تاکہ سیکرٹریٹ میں بیٹھ کر کڑھتے نہ رہیں …… مَیں نے کہا حضور! جب صوبہ ہی چیف سیکرٹری کے ہاتھوں میں دے دیا گیا ہے تو محکموں کے سیکرٹری کیوں پیچھے رہیں گے، وہ بھی تو شیر ہو جائیں گے اور محکمے پر حکم انہی کا چلے گا، اس لئے زیادہ کڑھنے کی ضرورت نہیں، بس جھنڈے والی گاڑی اور پولیس گارد کو انجوائے کریں،باقی معاملہ کپتان پر چھوڑ دیں۔
وزراء اس طرح کا شکوہ تو شہباز شریف کے دور میں بھی کرتے تھے کہ محکمے کا سیکرٹری ان کے کام میں روڑے اٹکاتا ہے۔ کئی بار تو لڑ جھگڑ کر کوئی وزیر سیکرٹری سے جان بھی چھڑا لیتا تھا، مگر کبھی یہ اعلان نہیں کیا گیا تھا کہ صوبے کے اختیارات چیف سیکرٹری کودے دیئے گئے ہیں، معاملہ پھر بھی شہباز شریف کے ہاتھ میں ہی رہتا تھا اور وہ بوقت ضرورت اپنے وزیر کا ساتھ بھی دیتے تھے،
کبھی ایسا نہیں ہوتا تھا کہ سیکرٹری اور وزیر کی لڑائی میں صوبائی وزیر کو بدل دیا گیا ہو۔ اب تو صوبائی وزراء اونچی آواز بھی نہیں نکال رہے۔ نکالیں کس کے خلاف، جب صوبے کا چیف منسٹر خاموش ہے تو وزراء کیسے بے اختیار ہونے کا واویلا کر سکتے ہیں؟
دو روز پہلے آٹے کے بحران پر چار صوبائی وزراء مل کر پریس کانفرنس کر رہے تھے، حالانکہ وہ پریس کانفرنس صرف خوراک کے صوبائی وزیر کو کرنی چاہئے تھی، تو صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ مل کر وزن پورا کر رہے ہیں۔ اختیارات تو سارے چیف سیکرٹری اور صوبائی سیکرٹریوں کے پاس ہیں، گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لئے وزراء کو آگے کر دیا جاتا ہے……
شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی سیاست اور سیاسی ساکھ کو بھی تو بچانا ہے…… اگر وزراء منظر سے غائب ہوجائیں اور سب کچھ سیکرٹریوں پر چھوڑ دیں تو عوام کا سامنے کیسے کریں؟…… کل ایک ٹی وی ٹاک شو میں تحریک انصاف کے نمائندوں کی باتیں سن رہا تھا، ان کی بے بسی دیدنی تھی، سب کا مؤقف یہ تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے پنجاب کے بارے میں جو فیصلہ کیا ہے، ہم اسے قبول کرتے ہیں، کیونکہ یہ ہمارے لیڈر کا فیصلہ ہے، مگر ساتھ ہی یہ شکوہ بھی کرتے رہے کہ انہیں صوبے میں بیورو کریسی کا دست نگر بنا دیا گیا ہے۔
وہی وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، جن کے بارے میں پچھلے پندرہ ماہ سے یہ کہا جا رہا تھا کہ وہ اہل نہیں، فیصلہ سازی سے محروم ہیں، وژن نہیں رکھتے، اب ان میں یہ ساری خوبیاں ڈالی جا رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ ان پر چیف سیکرٹری اور آئی جی کو مسلط کر کے انہیں کام نہیں کرنے دیا جا رہا…… یعنی قبل ازیں کام نہ کرنے کی صلاحیت کا جو پراپیگنڈہ تکیہ کلام بنا ہوا تھا، وہ یکدم بدل گیا ہے۔
یہ کایا کلپ آخر کیسے ہوئی اور اس کی اصل وجہ کیا ہے؟ صاف لگ رہا ہے کہ پندرہ ماہ تک جو لوگ عثمان بزدار کو کمزور سمجھ کر اپنا الو سیدھا کئے ہوئے تھے، ان میں گورنر پنجاب، چودھری برادران، وزراء اور ارکان اسمبلی سبھی شامل ہیں، جو اب اپنا بیانیہ تبدیل کر چکے ہیں؟ انہیں پورے اختیارات رکھنے والا بے اختیار، بھولا بھالا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار قبول تھا، لیکن اب بے اختیار ہونے والا وزیر اعلیٰ ایک آنکھ نہیں بھار ہا اور اسے با اختیار بنانے کے لئے سب اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔
ایک ٹی وی چینل پر گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کا انٹرویو دیکھ رہا تھا، وہ اس بات پر شکوہ کناں تھے کہ میرے کہنے پر سیکرٹری کام نہیں کرتے اور نا جائز قرار دیتے ہیں،لیکن جب وہی کام سیکرٹری کا کوئی دوست کہتا ہے تو جائز ہو جاتا ہے۔ یہ تو بڑی زیادتی ہے…… سوچتا ہوں کم از کم گورنر پنجاب کو تو خاموشی اختیار کرنا چاہئے تھی، کچھ تھوڑا بہت پردہ رکھنا چاہئے تھا۔ انہوں نے بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی۔
اب جہاں گورنر اپنی بے بسی کا رونا رہا ہو،وہاں صوبائی وزراء یا ارکان اسمبلی کا کیا حال ہوگا؟ اس ساری صورت حال کو مکافات عمل ہی کہا جا سکتا ہے۔ آج منتخب لوگوں کو جو یہ دن دیکھنا پڑ رہا ہے، تو اس میں خود ان کا اپنا بھی کیا دھرا ہے۔ کیا گزرے ہوئے پندرہ سترہ ماہ میں پنجاب حکومت، وزراء یا خود گورنر صاحب نے عوام کے لئے کچھ کیا ہے، ان کے درمیان رہے، یا وزارتوں کے مزے لینے کے لئے کنارہ کش ہو گئے؟
کیا شروع دن سے یہ سب لوگ بے اختیار تھے، کیا وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ سمیت سبھی وزراء کو ہاتھ باندھ کر میدان میں اتارا تھا۔ کیا چند ماہ پہلے تک وزیراعظم کی طرف سے بار بار یہ تنبیہ نہیں کی جاتی تھی کہ وزراء اپنی کارکردگی بہتر بنائیں، وگرنہ ان سے وزارتیں لے لی جائیں گی۔ کیا اس تنبیہ کا کسی پر کوئی اثر ہوا تھا؟…… پنجاب میں وزراء کی کارکردگی اب تک کیا رہی؟…… صحت، تعلیم، زراعت، خوراک، توانائی، انتظامی امور اور دیگر شعبوں میں کیا تبدیلی آئی،
کیا اصلاحات متعارف کرائی گئیں؟
شہبازشریف دور میں صحت کے شعبے کو جس طرح عوام کی خدمت کا ذریعہ بنایا گیا تھا،ادویات اور ٹیسٹوں کی مفت سہولتیں دی گئی تھیں، وہ سب واپس لے لی گئیں۔ سرکاری ہسپتال استحصال کا بدترین ذریعہ بن گئے۔ ان سب کی نااہلی کو بھگتا کس نے؟…… عمران خان نے…… سارا نزلہ ان پر گرا کہ ان کی حکومت ناکام ہو گئی۔ سارا بار عثمان بزدار پر آیا کہ وہ صوبے کو اچھی حکمرانی نہیں دے سکے۔
پنجاب میں بیورو کریسی تو چالیس سال سے حکمرانی کر رہی ہے، تاہم ہوتا یہ رہا ہے کہ سیاسی لوگ بھی اپنا ہوم ورک مکمل کرتے رہے ہیں، ایسا کبھی نہیں ہوا، جو پچھلے ڈیڑھ برس کے دوران ہوا ہے۔ جب آپ خود خلاء چھوڑیں گے تو کسی نے اسے پُر بھی کرنا ہے۔ آج اگر بیورو کریسی کے خلاف تحریک انصاف والے دہائی دے رہے ہیں تو گزشتہ پندرہ سولہ ماہ میں پنجاب کی گورننس کے بارے میں جو سوالات اٹھتے رہے……
ان کی جواب دہی کون کرے گا؟ اور تو اور تحریک انصاف کے کارکن احتجاج کے ذریعے یہ باور کراتے رہے کہ صوبے میں سب اچھا نہیں اور خلقِ خدا پریشان ہے…… تو سب خاموش کیوں بیٹھے تھے؟…… اس لئے کہ اندر ہی اندر ان کے اپنے کام تو ہو رہے تھے، البتہ عوامی فلاح کے کاموں میں من حیث الجماعت ان سب لوگوں کی کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس وقت ساری توپوں کا رخ اکیلے عثمان بزدار کی طرف تھا اور یہ ایک ایسی آڑ ملی ہوئی تھی، جس کے پیچھے سب چھپ رہے تھے، حالانکہ عثمان بزدار نے نہ کسی وزیر کو کام کرنے سے روکا تھا اور نہ ہی ان کے کام میں مداخلت کی تھی۔
پنجاب میں بھاری بھرکم صوبائی حکومت موجود ہے۔ وزیروں، مشیروں اور معاونین خصوصی کی تعداد گنی نہیں جاتی۔ یہ سب لوگ کس مرض کی دوا ہیں؟…… پہلے تو یہ بہانہ تھا کہ عثمان بزدار ایک تگڑا اور با خبر وزیر اعلیٰ نہیں، اب اگر یہ بہانہ تراشا جاتا ہے کہ عثمان بزدار کو بے اختیار کر دیا گیا ہے، اس لئے ہم بھی کچھ کرنے سے قاصر ہیں …… تو یہ پرلے درجے کی نا اہلی ہو گی۔
عثمان بزدار نے اپنے منہ سے آج تک یہ نہیں کہا کہ وہ بے اختیار ہیں یا بے اختیار کر دیئے گئے ہیں، وہ ہر ممکن اپنی حکومت اور موجودگی کا احساس دلانے کے لئے کوشاں ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ باقی حکومتی ارکان اپنی بے اختیاری کا رونا رو رہے ہیں؟ کیا گورنر سرور کا یہ کہنا بنتا ہے کہ وہ کوئی کام کہتے ہیں تو نہیں ہوتا، وہی کام سیکرٹری صاحب کے دوست کی وجہ سے ہو جاتا ہے۔ کیا وہ انفرادی کاموں کے لئے گورنر بنے ہیں؟ انہیں صوبے کا آئینی سربراہ ہونے کے ناتے اجتماعی مقاصد کے لئے کام کرنا چاہئے۔
وہ کسی حلقے کے ممبر اسمبلی یا کونسلر تھوڑی ہیں، جن کے پاس لوگ اپنے ذاتی کام لے کر آئیں اور وہ افسروں کو ان کی بابت فون کریں ……دوسری طرف صوبائی وزراء کو بتانا چاہئے کہ وہ اپنے محکموں میں کیا اصلاحات لانا چاہتے ہیں اور سیکرٹری صاحبان ان کی مخالفت کر رہے ہیں؟
اگر آپ نے ٹرانسفر، پوسٹنگ یا کسی کو نوازنے کے لئے ذاتی نوعیت کے کام ہی کرانے ہیں تو پھر بیورو کریسی کیوں سنے گی؟ خاص طور پر ان حالات میں جب کسی بھی غیر اصولی یا غیر قانونی کام پر گرفت ہو جاتی ہے اور براہ راست سیکرٹری کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے۔ میرا خیال ہے پنجاب میں منتخب افراد اور بیورو کریسی کے درمیان ”جنگ“ کا تاثر دینے کی بجائے صوبائی حکومت کے منتخب افراد اور محکموں کے سیکرٹری صاحبان، نیز نیچے تک موجود بیورو کریسی کو اپنے اپنے دائرے میں رہ کر ایک بہترین نظام چلانا چاہئے، یک طرفہ ٹریفک نہیں چل سکتی۔
اگر چیف سیکرٹری اپنی بیورو کریسی کو یہ تاثر دیں گے کہ اب سب کچھ انہی کے اختیار میں ہے تو یہ نظام چند دن بھی نہیں چل سکے گا۔ اصل حکمرانی منتخب نمائندوں کا حق ہے، البتہ بیورو کریسی ایک معاون کے طور پر گڈ گورننس میں ان کی مدد کر سکتی ہے۔ عوامی نمائندوں، بشمول وزراء اور ارکان اسمبلی کو بھی چاہئے کہ وہ بے اختیار ہونے کا ڈھنڈورا پیٹنے کی بجائے اپنے آئینی اختیارات کو استعمال کریں اور عوام سے اپنا تعلق مضبوط رکھیں …… عوامی طاقت سے جڑے رہیں گے تو کوئی ان کے اختیارات نہیں چھین سکے گا۔