مرزا غالب اور نیا پاکستان
اگر مرزا غالب کو نئے پاکستان میں بننے والی عوا م کی درگت کا ذرا سا بھی اندازہ ہوتا تو وہ کبھی نہ کہتے کہ:
نوید الفات شوق دادم از بلا جان را
کمند جذبہ طوفان شمر دم موج طوفان را
(مصائب سے اس کی جان کو بے انتہا خوشی ہوتی ہے۔ مصائب کے طوفان کی آمد ایک خوش خبری ہے)
صرف ڈھائی برس پہلے پرانے پاکستان میں ضرورت کی تمام چیزیں، آج کے نئے پاکستان سے آدھی یا اس سے بھی زیادہ کم قیمت پر ملا کرتی تھیں۔ نئے پاکستان میں مہنگائی نے 22 کروڑ عوام کی کمر توڑ دی ہے۔نہ جانے کب تک اس نئے پاکستان کا عذاب لوگوں پر مسلط رہے گا۔ سب سے اہم ضرورت آٹا، 31 روپے کلو سے 72 روپے کلو پر جا پہنچا ہے۔ چینی 55 سے 110، گھی 140 سے 270، چنے کی دال 65 سے 145، ماش 160 سے 280، مونگ 75 سے 140، مسور 65 سے 130، کالے چنے 65 سے 135، سفید چنے 70 سے 165، لوبیا 80 سے 160، سرخ مرچ 600 سے 1100، ہلدی 800 سے 1400،80 والے انڈے 200،اور باسمتی چاول 90 سے 200 روپے فی کلو تک پہنچ گیا ہے۔ جتنی مہنگائی پرانے پاکستان کے 70 سالوں میں ہوئی تھی اس سے زیادہ نئے پاکستان کے صرف ڈھائی سالوں میں ہوئی ہے۔ پچھلے 20 ماہ میں بجلی کی قیمت 25 باربڑھائی گئی ہے اور نئے پاکستان میں بجلی پرانے پاکستان کے مقابلہ میں ڈھائی گنا (8 روپے کا یونٹ 20 روپے) اور گیس چار گنا قیمت پر عوام کو خریدنا پڑ رہی ہے۔
پرانے پاکستان میں تیل کی عالمی قیمتیں نئے پاکستان کے دور سے دوگنا تھیں لیکن نئے پاکستان کے عوام کو پٹرول پرانے پاکستان سے دوگنا قیمت(63 روپے لٹر کا پٹرول 110) پر مل رہا ہے۔ زیادہ تر ادویات کی قیمتیں بھی دو یا تین گنا ہو چکی ہیں۔ یہ نئے پاکستان کا اعجاز ہی ہے جہاں ٹماٹر ایک وقت 400 اور ادرک 1200 روپے کلو تک پہنچ گیا تھا۔نئے پاکستان میں آلو، پیاز، ٹماٹر اور تقریباً تمام سبزیاں زیادہ تر 100 روپے کلو سے اوپر ہی رہتی ہیں جبکہ پرانے پاکستان میں یہ زیادہ تر 50 روپے سے کم رہا کرتی تھیں۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان آئے دن مہنگائی کا نوٹس لیتے ہیں جس کے بعد ان کے نصف درجن ترجمان قوم کو یقین دلانا شروع کر دیتے ہیں کہ ایک ہفتہ میں مہنگائی ختم ہو جائے گی۔ وزیر اعظم کے نوٹس اور مہنگائی ایک ہفتہ میں ختم کرنے کا لطیفہ سنتے ہوئے لوگوں کو ڈھائی سال ہو گئے ہیں اس لئے اب انہیں ہنسنے کی بجائے رونا آتا ہے۔ اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو عوام کی رہی سہی ہمت بھی جواب دے جائے گی۔
پرانے پاکستان میں بھی لوگوں کے بہت سے مسائل تھے لیکن بہر حال روزگار اور کاروبار چل رہے تھے۔ نئے پاکستان کا نعرہ لگانے والوں نے ایک کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا۔ اب عوام کو سمجھ آئی ہے کہ وعدہ ایک کروڑ نوکریاں لینے کا تھا، دینے کا نہیں کیونکہ ڈھائی سال میں اگر 50 لاکھ بر سر روزگار لوگوں کی نوکریاں ختم ہوئی ہیں تو باقی کی مدت ختم ہونے سے پہلے یہ تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر جائے گی۔ ویسے بھی نئے پاکستان میں پالیسی زیادہ سے زیادہ قومی اداروں کو لوٹ سیل پر لگانا ہے تاکہ نہ بانس رہے اورنہ بانسری بجے۔ نجکاری کے بعد کون اپنی نوکری پر رہتا ہے اور کون فارغ ہوتا ہے، یہ نئے پاکستان کی حکومت کا دردِ سر ہے ہی نہیں۔ ویسے بھی وزیر اعظم عمران خان خود اعتراف کر چکے ہیں کہ ان کی حکومت میں آنے کی کوئی ”تیاری“ نہیں تھی۔ایک طرف‘ ایسی پارٹی جو بغیر تیاری حکومت میں آئے، وزیر اعظم اور وزرائے اعلی”آن جاب ٹریننگ“حاصل کر رہے ہوں،
اور دوسری طرف سینکڑوں ارب کے سکینڈل آئے دن سامنے آتے ہوں اور مافیا کہلائے جانے والے خود حکومت میں وزیر مشیر ہوں،ایسے میں عوا م کے پاس سوائے کڑھتے رہنے، تکلیفیں اٹھانے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے علاوہ اور کیا آپشن باقی بچتا ہے۔ پرانے پاکستان والے بھی کوئی آئن سٹائن اور نیوٹن نہیں تھے لیکن نئے پاکستان کے وزیروں کی طرح اتنے نا اہل بھی نہیں تھے جن کے ایک بیان سے پوری دنیا میں ہمارے جہازوں اور پائلٹوں پر پابندیاں لگ جائیں اور اقوام متحدہ والے بھی اپنے لوگوں کو پاکستان کے جہازوں پر بیٹھنے سے منع کر دیں۔ کیا پرانے پاکستان میں کبھی کسی نے سوچا تھا کہ ہمارے جہاز دوسرے ملکوں میں ضبط کر لئے جائیں گے کیونکہ جہاز کا کرایہ دینا بھول گئے تھے۔ ویسے بھی نئے پاکستان والے‘ بھولنے کی بیماری کی وجہ سے ایل این جی کا آرڈر دینا بھول جاتے ہیں تو گیس نہ ہونے کی وجہ سے پورے ملک کی انڈسٹری بند ہونے کے قریب پہنچ جاتی ہے۔
مرزا غالب کے اپنے مسائل تھے، اسی لئے انہوں نے کہا تھا:
قرض کی پیتے تھے مے اور کہتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
”قرض کی مے“ کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پرانے پاکستان کے پانچ ارب روزانہ کے مقابلہ میں نئے پاکستان کی حکومت روزانہ تیرہ ارب کا قرضہ لے رہی ہے۔ پرانے پاکستان میں بہر حال بجلی گھر، موٹرویز، یونیورسٹیاں، ہسپتال اور انفراسٹرکچر وغیرہ کی تعمیر ہو رہی تھی، نئے پاکستان میں تو میگا پراجیکٹس بھی نہیں ہو رہے۔ بہانہ پچھلی حکومتوں کے لئے گئے قرضوں کی واپسی کا بنایا جاتا ہے لیکن یہ واپسی تو نئے قرضوں کا عشر عشیر بھی نہیں ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے کے مقابلہ میں ڈھائی گنا زیادہ قرضہ کہاں جا رہا ہے؟
کیا عوا م کی چمڑی ادھیڑ کر اور ہڈیوں کا گودا تک نکال کر ”پچھلے“ قرضے ادا کئے جائیں گے۔دل کرتا ہے کہ مرزا غالب سے معذرت کے ساتھ پوچھا جائے کہ ”مصائب کے طوفان“ سے کہیں ان کی مراد ”نیا پاکستان“ تو نہیں تھی۔