کیا پی ڈی ایم کا تماشا ختم ہو گیا؟
سیانے کہتے ہیں سیاست میں فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہئیں، جب کر لئے جائیں تو پھر اُن پر قائم رہنا بھی ضروری ہے، وگرنہ مذاق بنتا ہے اور اعتبار بھی جاتا رہتا ہے۔ پی ڈی ایم کے بارے میں اب ایسا ہی تاثر جنم لے رہا ہے، بلکہ یہ اُس دِل کی مانند ہے جسے چیرہ تو ایک قطرہئ خون نہیں نکلا۔ ذرا یاد کریں اس پی ڈی ایم نے دو ماہ پہلے کس طمطراق سے حکومت مخالف تحریک شروع کی تھی، کیا کیا پلان اور کیا کیا شیڈول جاری کئے تھے۔ کیسی کیسی دھمکیاں دی تھیں اور کس کس انداز سے حکومت کا تمسخر اڑایا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کی ٹانگیں کانپنے کا ذکر تک کیا گیا، حالانکہ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ اُن پر تو اس تحریک کا کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں کیا احمقوں کی جنت میں رہتی ہیں، کیا انہیں علم نہیں ہوتا کہ جو خواب وہ دیکھ رہی ہیں، اُن کی تعبیر تو نکلنی ہی نہیں،بلکہ اُلٹا گلے پڑ جانے ہیں۔آج اپوزیشن کے اس اتحاد میں اختلاف کی نمایاں گرہیں پڑ چکی ہیں، اچانک پیپلزپارٹی کو یہ خیال آیا ہے کہ حکومت کو نکالنے کے لئے تحریک عدم اعتماد کا راستہ ہی مناسب ہے، حالانکہ یہی جماعت اُن فیصلوں میں شامل تھی، جو استعفوں، دھرنے اور لانگ مارچ کے حوالے سے کئے گئے اور اُن کا شیڈول بھی جاری کیا گیا۔ یہ یوٹرن کیوں لیا گیا اور اس کی وجہ سے پی ڈی ایم کو کتنا نقصان پہنچا کوئی اس کا بھی بتائے۔
غور کیا جائے تو پیپلزپارٹی غیر اعلانیہ طور پر اپوزیشن اتحاد سے نکل گئی ہے۔ اب وہ صرف ساکھ بچانے کے لئے اس اتحاد کے ساتھ ہے، جس کا نام پی ڈی ایم ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی سیاسی ساکھ کو بھی اس سے شدید نقصان پہنچا ہے۔ بڑی محنت اور مشکل سے انہوں نے یہ تاثر قائم کیا تھا کہ پیپلز پارٹی کے فیصلے وہ اب خود کرنے لگے ہیں۔ بڑی دھواں دھار تقریریں بھی انہوں نے ایسے کیں جیسے زورِ بازو سے حکومت کا تختہ اُلٹا دیں گے،لیکن جلد ہی بالآخر یہ ثابت ہو گیا کہ آصف علی زرداری آج بھی پیپلزپارٹی پر بھاری ہیں اور سکہ انہی کا چل رہا ہے۔انہوں نے بے نظیر بھٹو مرحومہ کی برسی پر خطاب کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی جس پالیسی سے اختلاف کیا تھا، وہی اب بلاول بھٹو زرداری کا بھی بیانیہ بن گیا ہے۔ وہ بھی لانگ مارچ، دھرنے اور گھیراؤ جلاؤ کی بجائے آئینی طریقے سے حکومت کو گھر بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔سو یہ انہونی اس امر کی نشاندہی ہے کہ پیپلزپارٹی کسی دوسرے کے لئے اپنی سندھ حکومت کی قربانی دے سکتی ہے اور نہ ایسی تحریک کے حق میں ہے، جو کسی تیسری قوت کا راستہ ہموار کر دے۔وہ درمیانی راستے کی خواہاں ہے، جس میں بات بھی بن جائے اور سندھ حکومت بھی بچ جائے، ظاہر ہے یہ دونوں کام بیک وقت تو نہیں ہو سکتے، اِس لئے پی ڈی ایم رفتہ رفتہ ہوا میں معلق ہوتی نظر آ رہی ہے۔
پاکستان میں سیاسی تحریکوں کا اکثر ایسا ہی انجام ہوا ہے۔ درحقیقت بے جوڑ رشتوں کی طرح بے جوڑ سیاسی اتحاد بھی زیادہ دیر برقرار نہیں رہتے۔ پھر اگر آپ اپنا ایجنڈا اور راستہ بھی ایسا چنتے ہیں، جس پر چلنا آسان نہیں ہوتا تو جلد ہی ہانپنے لگتے ہیں۔ پی ڈی ایم کی سربراہی جس دن مولانا فضل الرحمن کو دی گئی اُسی دن یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی نے کسی معجزے کی امید پر جو جوا کھیلا ہے کامیاب ہو گیا تو ٹھیک وگرنہ پسپائی اور علیحدگی کا راستہ تو موجود ہے ہی۔ صرف مولانا فضل الرحمن ہی ایک ایسی شخصیت ہیں جن کے لئے پی ڈی ایم کا وہ شیڈول بہت اہم اور ناگزیر ہے جوکہ سربراہی اجلاس میں طے کیا گیا۔ مولانا استعفے تو شروع دن سے دینے کا کہہ رہے ہیں، مگر اُن کی بات کوئی سنتا ہی نہیں تھا،اس بار جب یہ طے ہو گیا کہ اسمبلیوں سے استعفے دیئے جائیں گے تو مولانا فضل الرحمن کی گویا مراد بر آئی، مگر اُنہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ اتنا آسان کام نہیں خود سیاسی جماعتوں کے اندر اس نکتے پر بغاوت ہو سکتی ہے۔ یہ تو مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی قیادت ہی جانتی ہے کہ اس معاملے میں اُسے کس مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ پھر یہ طے ہوا کہ سینیٹ الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے۔
یہ بھی صرف ایک بڑ تھی جو ماری گئی،وگرنہ کون سی سیاسی جماعت ہے جو یہ چاہے کہ سینیٹ میں اُس کی نمائندگی ہی نہ ہو۔ سو یہ معاملہ بھی لپٹ گیا اور مولانا فضل الرحمن منہ دیکھتے رہ گئے۔اب اُن کی آخری امید اِس بات سے جڑی ہے کہ لانگ مارچ کیا جائے اور اُس کی وجہ سے وزیراعظم عمران خان استعفا دینے پر مجبور ہو جائیں۔تاہم مولانا کی اس خواہش کے غبارے سے بھی پیپلزپارٹی نے سوئی چبھو کر ہوا نکال دی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی راہ دکھا کر پیپلزپارٹی پتلی گلی سے نکل گئی ہے اور لگتا یہی ہے کہ مسلم لیگ(ن) بھی لانگ مارچ اور دھرنے کے ایشو پر پیچھے ہٹ جائے گی،ایک بار پھر اس کام کے لئے مولانا فضل الرحمن اکیلے رہ جائیں گے، حالانکہ مومن کو ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جا سکتا،لیکن مولانا فضل الرحمن کے ساتھ ایسا ہوا ہے اور آگے بھی ہو سکتا ہے۔پی ڈی ایم کا ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُس میں اصل ہدف کی بجائے بعض شعلہ بیانوں نے اداروں کو نشانہ بنایا۔
الیکشن کمیشن کے سامنے جو احتجاج ہوا، اُس میں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی نے تو واضح طور پر بغاوت پر اُکسایا۔ایک جمہوری تحریک میں ایسا اندازِ خطابت تو کسی صورت قابل ِ قبول نہیں کہلاتا۔ مسلم لیگ(ن) کی مریم نواز بھی اسٹیبلشمنٹ اور فوج پر تنقید کرتی ہیں تاہم وہ بغاوت پر نہیں اُکساتیں، بلکہ جمہوریت کی بات کرتی ہیں۔ پیپلزپارٹی نے ہمیشہ آئین اور جمہوریت کی بات کو آگے بڑھایا ہے۔اب ایسے متضاد بیانیے ایک سیاسی اتحاد کو کیسے برقرار رکھ سکتے ہیں، شاید اسی وجہ سے آصف علی زرداری نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ اہداف ٹھیک ہیں،مگر راستہ صحیح نہیں چنا گیا، ہم اپنے اتحادیوں کو سمجھائیں گے،پی ڈی ایم کی یہ داخلی صورتِ حال اور خارجی حالات اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ پی ڈی ایم کا تماشا ختم ہو نے جا رہا ہے اور کوئی معجزہ ہی اسے برقرار رکھ سکتا ہے۔