بھارت کا یومِ جمہوریہ کشمیریوں کا یوم سیاہ
26جنوری 1950ء کو بھارتی حکومت نے گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935کی جگہ اپنا آئین نافذ کیا۔ یہ دستور یا آئین بھارتی قانون ساز اسمبلی نے 26نومبر1949ء کو منظور کیا تھا تاہم اس کا نفاذ دوماہ بعد کیا گیا اور اس طرح بھارت کو عوامی جمہوریہ بنادیا گیا۔ 26جنوری 1950ء کو آئین کے نفاذ کی اہم وجہ 26جنوری1930ء کا اہم ترین دن تھا جب انڈین نیشنل کانگریس نے ”خود مختار ہندوستان“ کا نعرہ بلند کیا تھا۔ چنانچہ اس ایک دن میں دو قومی اقدامات کی یاد منائی جاتی ہے۔ ایک برطانوی دور میں خودمختار ہندوستان کے نعرے کی یاد اور دوسرے آئین کے نفاذ کے دن کی یاد۔ اس دن کو بعدازاں ”یوم جمہوریہ“ کا نام دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ بھار ت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے۔
بھارت کے اسی آئین تلے مقبوضہ کشمیر میں 1952ء میں نام نہاد انتخابات کروائے گئے اور یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ کشمیری عوام نے مرکزی دھارے میں شمولیت کی خاطر نہ صرف بخوشی سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے انتخابات میں حصہ لیا بلکہ انہوں نے بڑے پیمانے پر ووٹ بھی ڈالے۔ وقتی طور پر بھارت یہ جھوٹ بولنے میں کامیاب ہوگیا لیکن جلد ہی اسے اس وقت سخت ہزیمت اٹھانا پڑی جب نہتے کشمیریوں نے بھارت کے خلاف بندوق اٹھالی۔ کشمیری عوام انتخابات کے خلاف تھے۔ ان کی ایک ہی خواہش تھی کہ کشمیر میں استصواب ِ رائے کروایا جائے تاکہ کشمیری اپنے مستقبل کا ازخود فیصلہ کرسکیں۔ استصواب ِ رائے کے نتائج کا بھارت کو بخوبی علم تھا، اس لیے اُس نے ایسا اقدام اٹھانے سے گریز کیا۔ جب کبھی عالمی برادری کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا‘ تو بھارت ہمیشہ ایک ہی جملہ کہہ کر اپنی جان چھڑاتا رہا کہ ”استصوابِ رائے کیلئے حالات سازگار نہیں۔“
جس آئین کے تحت کشمیر میں انتخابات کا ڈھونگ رچاتے ہوئے بھارت کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا علم بردار قرار دیا گیا‘ کشمیریوں نے اس حقیقت کو طشت ازبام کرنے کیلئے بھارت کے یوم جمہوریہ کو ’یوم سیاہ‘ کے طور پرمنانا شروع کردیا۔ پچھلی کئی دہائیوں سے یہ دن بڑے اہتمام کے ساتھ منایا جارہاہے۔ اس دن صرف مقبوضہ کشمیر میں ہی نہیں‘ پاکستان سمیت دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری زبردست احتجاج کرتے ہیں۔ مظاہروں‘ جلسے جلوسوں اور سیمینارز کے ذریعے عالمی برادری کو باور کروایا جاتاہے کہ بھارت نے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر عالمی برادری کو بے وقوف بنارکھا ہے۔ وہ آئے دن کشمیریوں پر نت نئے مظالم کے حربے آزماتے ہوئے انہیں اپنے ازلی اور پیدائشی حق سے محروم رکھنے کی کوششیں کررہاہے۔ کشمیری صرف اور صرف بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ انہیں آزادی سے کم کوئی چیز قبول نہیں۔
پون صدی سے بھارت کشمیریوں کی تحریکِ حریت کو مکمل طور پر کچلنے کے لئے روح فرسا اقدامات کررہاہے۔ کئی اقدامات ایسے ہیں جن کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی۔ مثلاً پچھلے کچھ سالوں سے کشمیر میں بھارتی فوج پیلٹ گن کا استعمال کررہی ہے۔ اس گن سے نکلنے والے چھرے جسم کے اندر تک پیوست ہو کر دھیرے دھیرے زہر پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ یہ چھرے جسموں پر ایسے نشان چھوڑ جاتے ہیں جن کا مندمل ہونا ممکن نہیں۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ چھرے آنکھ کے اندر دھنس کر بینائی ختم کردینے کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
2016ء میں نوجوان مجاہد کمانڈربرہان مظفروانی کی شہادت کے بعد جو کچھ کشمیر میں ہورہاہے‘ اس کی بہت کم توقعات تھیں۔ مرکزی سرکار کے چیلوں اور تحریک آزادی کے مخالفین کو اس امر کا بخوبی یقین تھا کہ ایک نسل کے ”باغی جرثوموں“ کو دوسری نسل تک منتقل نہیں ہونے دیا جائے گا اور تیسری نسل تک تو اس کی رہی سہی کسربھی نکال دی جائے گی۔ یہی وجہ ہے کہ جب مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ میں لے جایا گیا تو پنڈت جواہر لال نہرو نے اِسی امید کی بناء پر عالمی برادری سے یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیرمیں حالات سازگار ہوتے ہی استصوابِ رائے کروا دیا جائے گا۔ نہرو ہی نہیں‘ تمام بھارتی رہنماؤں اور ہندو انتہاپسندوں کو یقین تھا کہ حالات کے سازگار ہونے تک کشمیریوں کے خون کے کسی قطرے میں بھی آزادی کا جذبہ اور اس کے حصول کیلئے جدوجہد کی کوئی رمق تک باقی نہیں رہے گی۔ اب جبکہ کشمیریوں کی تیسری اور چوتھی نسل قربانیوں کی نئی اور عظیم داستانیں رقم کررہی ہے تو اس امرپر بھی یقین کرنا مخالفوں اور دشمنوں کے بس کی بات نہیں۔
5اگست 2019ء کے ہندوستانی اقدام اور کشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے تحریک آزادیِ کشمیر ایک نئے مرحلے میں داخل ہوگئی ہے۔ یہ اقدامات تحریک کو کچلنے اور کشمیر پر اپنے قبضے کو اور زیادہ مستحکم کرنے کی عملی کوششوں کا حصہ ہیں تاکہ پون صدی سے جاری اس قضیے کو جلد ازجلد انجام تک پہنچاکر تنازعات عالم کی فہرست میں سے اسے قلم زد کردیاجائے لیکن جس طرح کشمیریوں نے اس کی سخت مزاحمت کی ہے اس سے بخوبی عیاں ہوچکا ہے کہ بھارت کے یہ اقدامات اس کے اپنے گلے کا طوق بن کر رہ جائیں گے۔
2020ء کا پچھلاسال اگرچہ کشمیریوں پر ماضی کی طرح آسیب بن کر چھایارہا اور ان کے زخموں سے خون کی پھوار مسلسل بہتی رہی لیکن اس کے باوجود ان کے عزم اور حوصلے میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ توانا جذبوں کے ساتھ اپنی تحریک آزادی کی آبیار ی میں مصروف عمل ہیں۔ پچھلے سال کے دوران قابض ہندوستانی افواج نے کم ازکم263نہتے اور معصوم شہریوں کو شہید کیا جبکہ 28افراد ایسے تھے جنہیں گرفتار کرنے کے بعد عقوبت خانوں میں بدترین تشدد کے بعد شہید کیا گیا۔ کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے دوران 58خواتین کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایاگیا۔ 13خواتین بیوہ ہوگئیں جن کے بچوں کی تعداد29ہے۔ 777ایسے افراد ہیں جن پر بھارتی فوجیوں نے بدترین تشددکیا جبکہ احتجاج اور مظاہروں کے دوران 2958افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں ایک بڑی تعداد بچوں اور نوجوانوں کی بھی ہے۔
سنہ 2020ء کے دوران ہندوستانی فوجیوں نے جہاں بے گناہ شہریوں کو حق خودارادیت کے مطالبے کی پاداش میں سخت ترین مظالم کا نشانہ بنایاگیا وہیں ان کی املاک کو بھی نقصان پہنچانے کی کوئی کوشش رائیگاں نہیں جانے دی گئی جس کے نتیجے میں ایک ہزا رکے لگ بھگ مکانات و دکانات کو کلی طور پر تباہ کردیا گیا۔ کسانوں اور کاشتکاروں کی فصلیں اور پھلدار باغات کو پہنچائے جانے والے نقصانات کا تخمینہ الگ ہے۔
نوٹ:یہ بلاگر کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ۔اگرآپ بھی ڈیلی پاکستان کیساتھ بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’zubair@dailypakistan.com.pk‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں.