ایں خیال است و محال است و جنوں!!
ایک بار پھر اعلیٰ ترین قانون ساز فورم ایوان بالا میں صوبہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے بحث دیکھنے کو ملی۔ دو ملتانی مخدوموں نے خود کو اس دیرینہ مطالبے کا علمبردار بتایا اور اپنی خدمات گنوائیں۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اس وقت حکمران ہیں جبکہ مخدوم زادہ سید یوسف رضا گیلانی ماضی میں سر پر آرائے مسند رہے۔ شاہ محمود قریشی کا موقف ہے کہ ان کی پارٹی کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ورنہ وہ اب تک صوبہ بنا چکے ہوتے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) ساتھ دیں تو وہ اب بھی یہ کارنامہ انجام دے سکتے ہیں اس سلسلے میں انہوں نے تعاون کے لئے دونوں پارٹیوں کی قیادت کو خطوط بھی لکھ دیئے ہیں اور اپنے تئیں گیند اپوزیشن کی کورٹ میں ڈال دی ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک رہنما نے تو اس کو بے وقت کی راگنی بھی قرار دے دیا ہے۔ اس موقعہ پر اہم سوال تو یہ ہے کہ قومی معاملات پر ایوان میں اپوزیشن سے تعاون حاصل کرنے کے لئے جس رواداری اور ہم آہنگی کے ماحول کی ضرورت ہوتی ہے کیا حکومت نے کبھی اس کے لئے کوشش بھی کی ہے حکمران تحریک انصاف کے بانی چیئرمین اور موجودہ وزیر اعظم تو لیڈر آف اپوزیشن سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں ہو سکے اور وہ ایسے کسی اجلاس کی صدارت کرنے یا شریک ہونے سے ہی انکاری ہیں کہ جس میں اپوزیشن موجود ہو سکتی ہو۔ خیر اس کو ایک طرف رکھتے ہوئے معاملے کا جائزہ لیں ایک جملے کا تجزیہ تو یہ ہے کہ ”ایں خیال است و محال است و جنوں“ اس معاملے کو صادق آباد سے خانیوال تک نئے صوبے کے قیام کا معاملہ سمجھا جاتا ہے جبکہ اس کے اوپر راولپنڈی تک اسے پنجاب کی تقسیم کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔
یوں رائے عامہ ہی بدل جاتی ہے جنوبی پنجاب میں عموماً اس مطالبے کو احساسِ محرومی ختم کرنے کا ممکنہ حل سمجھا جاتا ہے جبکہ بالائی علاقوں اور اعلیٰ طبقات میں اس کو پنجاب کی طاقت کمزور کرنے کی سازش سمجھا جاتا ہے۔ یوسف رضا گیلانی کا یہ کارنامہ تو اپنی جگہ ہے کہ بطور وزیر اعظم انہوں نے اعلیٰ ترین ایوانوں میں بار بار اس کا ذکر کر کے اسے ”شجر ممنوعہ“ سے قابلِ ذکر و سماعت بنا دیا۔ البتہ انہوں نے بھی اپوزیشن سے تعاون حاصل کرنے میں دیر کر دی۔ حالانکہ پنجاب میں مسلم لیگی حکومت کے سربراہ میاں شہباز شریف سے ان کے تعلقات کار بہت اچھے تھے۔ جاتے جاتے انہوں نے سینٹ سے قرار داد منظور کرا کے محفوظ رکھ دی۔ دوسری طرف(ن) لیگ نے پنجاب اسمبلی سے دو تہائی اکثریت سے قرار داد منظور کرا دی مگر ہاتھ یہ دکھایا کہ ایک نئے صوبے کی بجائے دو نئے صوبوں صوبہ ملتان اور صوبہ بہاولپور کی قرارداد منظور کرا دی۔ نئے صوبے کے قیام کے لئے ملکی آئین کہتا ہے کہ پہلے قرارداد متعلقہ صوبائی اسمبلی (پنجاب اسمبلی) سے دو تہائی اکثریت سے منظور کرائی جائے۔ پھر وہی قرارداد قومی اسمبلی سے اور پھر سینٹ سے منظور کرائی جائے اس کے بعد پھر دوبارہ متعلقہ صوبائی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے منظور کرے تو نیا صوبہ بنے گا۔ یہاں صورتحال یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی دو صوبوں کی قرارداد منظور کئے بیٹھی ہے جبکہ سینٹ سے ایک صوبے کی قرارداد منظور شدہ پڑی ہے۔ اس لئے اگر واقعی ایک نئے صوبے کے قیام کے لئے کوئی سنجیدہ کوشش ہونی ہے تو وہ ازسر نو کرنا ہو گی۔ اس سے قبل مسلم لیگ (ن) میں ڈینٹ ڈالنے کے لئے جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی پر مشتمل صوبہ محاذ بنایا گیا تھا وہ سارے کا سارا تحریک انصاف کی حکومت میں موجود ہے۔ اس کے وزراء وفاق اور پنجاب کی کابینہ میں موجود ہیں۔
مگر لگتا ہے کہ وزارتیں ملنے کے بعد انہوں نے اپنا اصلی تے وڈا مطالبہ ”سرائیکی صوبے“ کا مطالبہ پس پشت ڈال دیا ہے۔ یا انہیں چپ کرا دیا گیا ہے۔ اب ایک واقعہ سن لیں جس کا ذکر ملتان کی نجی محفلوں میں خاصی دیر سے ہوتا رہا مگر اس کا دستاویزی ثبوت کوئی تھا نہ ہو سکتا ہے۔ ہوا یوں کہ جب توہین عدالت کے جرم میں وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو تابرخاست عدالت سزا سنا کر نا اہل قرار دیا گیا تو انہوں نے اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے اور جنوبی پنجاب کے ہیرو بننے کی ٹھانی۔ انہوں نے اسلام آباد سے ملتان روانگی کے وقت اعلان کیا کہ اب وہ اقتدار کی مصلحتوں سے آزاد ہیں اور اب وہ سرائیکی صوبے کی جنگ پوری قوت سے عوامی محاذ پر لڑیں گے۔ ملتان میں ان کا پرجوش استقبال ہوا۔ مگر ایک آدھ بیان کے سوا ”سئیں“ کی جنگ کہیں نظر نہ آئی۔
ملتان کی محفلوں میں کہا گیا کہ ملتان پہنچتے ہی سئیں کو اسلام آباد سے باس کا فون آ گیا تھا کہ بس کرو سئیں ہن ساکھوں وی گھنسو؟“ (بس کر دیں۔ اب ہمیں بھی لے ڈوبو گے؟) اب سئیں یوسف رضا کی خاموشی اور صوبہ محاذ والوں کی چپ کو ملا کر دیکھ لیں تو پتہ چل جائے گا کہ پیغام کہاں سے آتا ہے اور کتنا زور دار آتا ہے۔ اس پیغام کی موجودگی میں منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے دورانِ اقتدار کے آخری مراحل میں بیان بازی ہی ہو سکتی ہے۔ صرف بیان بازی۔ نوکری اسی تنخواہ پر جاری رہ سکتی ہے۔ اگر کرنی ہے تو۔ اب رہ گئے جنوبی پنجاب کے سرائیکی عوام تو وہ حسبِ ماضی صبر کا دامن تھامے رکھیں کہ سرائیکی صوبے کے نام پر ان کے ساتھ سیاست ہی ہو سکتی ہے فقط سیاست سے جب تک وہ خود سیاسی قوت بن کر فیصلے کرنے کی طاقت نہیں حاصل کر لیتے۔