دریائے سندھ میں سفر کا آغاز کراچی سے اور اختتام اٹک پر ہوتا تھا، یہیں تک انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی کا راج تھا،کیماڑی پر پاکستان کی پہلی بندرگاہ وجود میں آئی

Jan 25, 2025 | 10:27 PM

مصنف:محمدسعیدجاوید
 قسط:19
دریائے سندھ میں سفر کا آغاز کراچی سے اور اختتام اٹک پر ہوتا تھا، اور یہیں تک انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی کا راج تھا۔ انگریزوں نے اس دریائی سفر کو دریائے کابل اور کچھ زمینی راستوں کے ذریعے افغانستان تک لے جانے کا منصوبہ بھی بنایا تھا جو یقیناً ایک دشوار کام تھا، اس لیے وہ محض نقشوں تک ہی محدود رہا۔ جب تک کراچی اور کوٹری کے درمیان ریل کی پٹری نہ بچھائی جا چکی،جہاز رانی کا یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہا اور پھراس پر مسافر اور مال گاڑیاں بھی چل پڑیں۔
گاڑی آتی ہے
جو علاقے اب پاکستان میں شامل ہیں،کبھی وہ ہندوستان کا ہی حصہ تھے۔ انگریزوں کے نزدیک ان کی وہ وقعت نہ تھی جو مرکزی اوروسطی ہندوستان کی تھی۔ اس کی بڑی وجہ غالباً یہی تھی کہ انگریزوں کو ہر وقت اس طرف سے، خصوصاً مغرب میں افغانستان کے ملحقہ سرحدی علاقوں کی وجہ سے تشویش رہتی تھی۔ برصغیر میں تجارت پیشہ لوگ انگریز حکمرانوں کے ساتھ ہی آئے تھے بلکہ وہ پہلے یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کے روپ میں نمودار ہوئے تھے اور انگریز فوجوں نے تو بعد میں آ کر ہندوستان پر بتدریج کہیں لالچ اور کہیں دھونس دھاندلی سے قبضہ کیا تھا۔ اْن تاجروں کو بھی شاید ان علاقوں میں کوئی منافع بخش منصوبے لگانے میں کچھ ہچکچاہٹ تھی۔ اس لیے ان کی زیادہ تر توجہ وسطی اور جنوبی  ہندوستان پر ہی مرکوز رہی۔
19ویں صدی کے ابتدائی برسوں میں انھوں نے ہندوستان میں وسیع پیمانے پر ریل کی پٹریاں بچھانے یا کم از کم ان کی منصوبہ بندی کا کام شروع کر دیا تھا۔ اْس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ہندوستان میں ایک درجن سے زیادہ وسیع و عریض اور مصروف بندرگاہوں کو ریل کے ذریعے ہندوستان کے تمام اہم مقامات اور فوجی چھاؤنیوں سے منسلک کرنا مقصود تھا اور اس منصوبے پر زور و شور سے کام جاری تھا، جب کہ اس طرف یعنی سندھ میں لے دے کر ایک ہی جگہ ایسی تھی جہاں بندر گاہ بنائی جا سکتی تھی اور یہ کراچی تھا، جہاں زیادہ تر ماہی گیر ہی رہتے تھے۔ بڑے جہازوں کے یہاں آنے کی گنجائش تو موجودتھی مگرسرمایہ کاری نہ ہونے کی وجہ سے اس منصوبے کا ابتدائی ڈھانچہ بھی نہ بنایا جا سکا۔
1850ء میں انگریز حکومت نے سر ہنری بارٹلے فرئیر کو سندھ کا چیف کمشنربنا کرکراچی بھیجا۔اس نے آتے ہی سندھ میں معاشی اور معاشرتی ترقی کے کئی شاندار منصوبے شروع کروائے جن میں سب سے پہلے وہ کراچی کی بندرگاہ کو بڑے پیمانے پر وسعت دینے اور یہاں دوسرے اہم ترقیاتی منصوبوں پرتعمیراتی کام کرنے کا خواہاں تھا۔ یوں کیماڑی پر پاکستان کی پہلی بندرگاہ وجود میں آئی جس میں بڑے جہازوں کے لنگر انداز ہونے کے لیے متعدد جیٹیاں بنائی گئیں اور پھرنیٹی جیٹی کا پْل بنا کر اس علاقے کو کراچی شہر سے منسلک کر دیا۔سر فرئیر نے سندھ میں ڈاک کی ترسیل کا ایک مؤثر اور مربوط نظام بھی رائج کیا جو ابھی تک پاکستان میں کامیابی سے چل رہا ہے، حتٰی کہ ڈاکیے کا یونیفارم بھی ابھی تک وہ ہی ہے جو اس نے منظور کیا تھا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزیدخبریں