مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:60
اس دور میں پاکستان کے پچانوے(95) فی صد بچوں کی طرح میری تعلیم کا آغاز ٹاٹ کے سکول سے ہوا تھا۔کپڑے کا تھیلہ کتابوں کا بستہ ہوتا تھا۔ گنتی کے بچوں کے پاس خاکی رنگ کے فوجی جھولے بھی ہوتے جو بطور بستہ استعمال کئے جاتے تھے۔ ہاتھ میں تختی۔ چوتھی جماعت سے اس بستے میں 2 چیزوں کا اضافہ ہو جاتا تھا، سلیٹ اور سلیٹی۔تختی اور ٹاٹ سے چھٹی جماعت میں ہی پہنچ کر ہی جان چھوٹتی جب اس جماعت میں لکڑی کے بینچ میسر آتے اور طالب علم خود کو ذرا بڑا سمجھنے لگتے تھے۔ ایک بینچ پر دو لڑکے بیٹھتے اور اسی بینچ کے سامنے جا حصہ بطورڈیسک استعمال ہوتا جس کے بنے خانے میں بستہ رکھا جاتا تھا۔ عموماً جس بینچ پر پہلے دن کوئی طالب علم بیٹھتا وہی بینچ پکا ہی اس کا تصور ہوتا تھا۔سلیٹ صاف کرنے کے لئے ہاتھ کی انگلیاں استعمال ہوتی اگر لکھائی آسانی سے نہ مٹتی تو پھر طالب علم اپنا لعاب اسی کام کے لئے استعمال کرتے۔سپنچ بھی تھے مگر کم لڑکے ہی اسے افورڈ کرتے تھے اور اگر کسی کے پاس ہوتا بھی تو آدھی کلاس اسے استعمال کرتی تھی۔ میں پرائمری کلاس سے کلاس مانیٹر رہا اور دسویں جماعت تک یہ عہدہ میرے ہی پاس تھا۔مانیٹر کا اہم کام استاد صاحب کی غیر حاضری یا جماعت میں تاخیر سے پہنچنے تک کلاس کا نسق قائم کرنا ہوتا تھا۔ بزم ادب کا پریڈ بھی ہفتہ میں ایک بار لازمی تھا جس میں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ جماعت دھم میں تو میں بزم ادب کا صدر بھی رہا۔ تقریری مقابلوں میں بھی میرا حصہ ہوتا۔ لکھی ہوئی تقریر زبانی یاد کرتا بلکہ رٹا ہی لگایا جاتا تھا۔ الفاظ کا اتراؤ چڑھاؤ، کہاں رکنا ہے، شعر کیسے پڑھنا ہے سب بزم ادب کے انچارج استاد سکھاتے اور میرے والد بھی میری راہنمائی کرتے تھے۔ میری خوش قسمتی کہ ابتداء سے ہی مجھے اچھے اساتذہ ملے۔ پرائمری تک پی ٹی اور سکول اسمبلی کے علاوہ کھیلوں کی کوئی او ر activityنہ تھی البتہ ہائی سکول میں فٹ بال، کر کٹ اور ہاکی کے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ میرے سکول کی تو کبڈی کی ٹیم بڑی زبردست تھی۔ اس زمانے میں ماڈل ٹاؤن کے گرد کافی گاؤں تھے جن میں کوٹھا پنڈ، مڑیاں،جیون ہانہ، تلہہ، وغیرہ کے لڑکے بڑے اچھے کبڈی کے کھلاڑی تھے۔ ان میں بھا حمید اور بہار شاہ کے نام مجھے یاد رہ گئے ہیں۔ایسے ہی ایک میچ میں بھا حمید کی ”شن بون“ ٹوٹی تھی۔
اُس زمانے کے رواج کے مطابق میں نے بھی سائیکل ”قینچی“ کی طرز پر ہی چلانی سیکھی تھی۔ مراد سائیکل سیٹ پر بیٹھ کر چلانے کی بجائے فریم کے دونوں طرف ایک ایک ٹانگ کرکے چلائی جاتی تھی۔ایک بار سائیکل سے گرا، گھٹنے پر چوٹ لگی، رو بھی پڑا، ”ٹیٹنس“ کا ٹیکہ بھی لگا۔ابا جی نے مجھے روتے دیکھ کر کہا؛”بیٹا! اگر رونا ہی ہے تو سائیکل ہی نہ چلاؤ۔ چلاؤ گے تو گرو گے بھی۔“ سیانت کی یہ بات بھی میں نے پلے باند ھ لی تھی۔
اس زمانے میں بچوں کی بیماریوں کے ٹیکے سکول میں لگتے تھے۔ یہ ٹیکہ بازو پر 2جگہوں میں سے ایک جگہ لگائے جاتے تھے، کندھے سے ذرا نیچے یا کلائی سے ذرا اوپر”فور آرم“پر۔ ہم بچے اسے ”بھمبھیری“ والے ٹیکہ کہتے تھے۔ دوائی بھری جاتی اور جہاں ٹیکہ لگانا مقصود ہوتا اس جگہ اسے بھمبھیری کی طرح گھما دیا جاتا تھا۔ یہ تکلیف دہ ہوتا اور اس جگہ خارش بھی ہوتی لیکن ٹیکہ والی جگہ ہاتھ لگانے کی اجازت نہ ہوتی۔ بیشتر بچوں کے بازو یا کندھے پر ان ٹیکوں کا نشان بطور ”برتھ مارک“ شمار ہوتا۔ ٹیکے والی ٹیم کو دیکھ کر بعض بچے چھپنے کی ناکام کوشش بھی کرتے تھے لیکن اساتذہ اس بات کو یقینی بناتے کہ ہر بچے کو ٹیکہ لگے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔