ایڈز کے خلاف جنگ جاری ہے
کم از کم25ہزار افراد2012ءمیں اس ہفتے ہونے والی بین الاقوامی ایڈز کانفرنس میں شرکت کے لئے جمع ہو رہے ہیں۔ یہ ایک قابل فخر لمحہ ہو گا، ایڈز کے علاج معالجے کے لئے ہونے والی کوششیں قابل تعریف ہیں اور اُن کا سلسلہ جاری ہے۔ ایڈز کے شکار لوگوں کا اس وقت مر جانا ایک بڑا المیہ ہے، کیونکہ ایڈز کے علاج کی ادویات موجود ہیں، صرف ایک عشرہ قبل کی بات ہے کہ افریقہ ایڈز کی بدولت نہایت بُرے حالات کا شکار تھا۔ امریکی لوگوں کی فراخ دلی کا شکریہ، اُن کی خیرات کی بدولت آج افریقہ اس قسم کی صورت حال سے باہر آ چکا ہے۔ آج صدر کا ایڈز سے نمٹنے کے خلاف ایمرجنسی منصوبہ (پیسفار) اور ایڈز کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی کے لئے وصول ہونے والا بین الاقوامی فنڈ اس طرح کا فنڈ تپ دق اور ملیریا کے لئے ابھی سے اکٹھا ہو رہا ہے، اس فلاحی منصوبے کے لئے مخلص حکومتیں، خود پر یقین رکھنے والی معاشرتی تنظیمیں اور نجی شعبہ اس حوالے سے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
ایڈز کا علاج اور اس کے بچاﺅ کے لئے ہونے والی کوششیں بہت تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں۔ اس مہینے ایڈز کے مشترکہ پروگرام جو کہ اقوام متحدہ کی جانب سے شروع کیا گیا ہے (یو این ایڈز) کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ سب سہارن افریقہ میں62لاکھ کے قریب لوگ ایسے ہیں جو ایڈز کے خلاف استعمال کی جانے والی زندگی بچانے والی ادویات کے سہارے زندہ ہیں۔ 2003ءمیں ادویات استعمال کرنے والے لوگوں کی تعداد صرف ایک لاکھ تھی یہ اعداد و شمار بہت بڑی شماریات کے آئینہ دار ہیں۔ یہ حقیقی لوگوں کا ایک سلسلہ ہے، جس میں ڈاکٹر، نرسیں، بیورو کریسی، کسان، تاجر اور وہ والدین شامل ہیں، جنہوں نے اپنے پیچھے یتیموں کا نہیں چھوڑا، جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ایسے جادوئی اثرات اُس نے افریقہ پر ڈالے ہیں وہ قبائل جو زندگی سے مایوس ہو کر موت کے بالکل قریب جا چکے ہیں اُن کو دوبارہ زندگی کے قریب لایا گیا، یعنی لاکھوں کی تعداد میں مرد، عورتیں اور بچے اب زندہ ہیں کہ وہ اپنے مستقبل کی تعمیر کر سکتے ہیں۔
ایچ آئی وی / ایڈز کے خلاف انتہائی بڑے پیمانے پر شروع کی جانے والی ان کوششوں سے ایک ضمنی فائدہ بھی حاصل ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ افریقہ کے صحت کے نظام میں بہت زیادہ تبدیلیاں اور بہتریاں آئی ہیں۔ صدر کا ہنگامی منصوبہ برائے ایڈز (پیسفار) اور دیگر کئی منصوبوں کی بدولت اتنا ضرور ہوا ہے کہ پیشہ وارانہ مہارت اور تنظیمی ڈھانچے کا معیار بلند ہو گیا ہے۔اس تمام صورت حال کا ایک پُرجوش پہلو یہ بھی ہے کہ اس قسم کی کوششوں کی بدولت ایڈز اور دیگر بیماریوں کے خلاف لڑی جانے والی لڑائی کے لئے زبردست فنڈز اکٹھے ہو رہے ہیں۔ یہ ایک دل کو دھلا دینے والی صورت حال ہے کہ اگر آپ ایک عورت کو ایڈز سے مرنے سے تو بچا لیتے ہیں، لیکن اسے کینسر سے مرتے دیکھتے رہتے ہیں۔ عقبی کینسر خواتین میں ایڈز سے زیادہ پھیل رہا ہے اور یہ زیادہ خطرناک بھی ہے تو اس لئے لورا (صد بش کی بیوی) اور مَیں(جارج ڈبلیو بش) نے مل کر اپنے ادارے بش انسٹیٹیوٹ اور سرکاری و نجی شعبے کے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر نارنجی ربن اور سرخ ربن مہم شروع کی تاکہ خواتین کو چھاتی کے کینسر اور عقبی کینسر سے بچانے کے لئے کوششیں کر سکیں اور یہ دونوںکینسز یعنی چھاتی کا اور عقبی افریقہ میں ہونے والی اموات کی بڑی وجوہات میں سے ہیں۔ پیسفار کی طرح نارنجی ربن اور سرخ ربن کے تحت شروع کی جانے والی کوششوں کی کامیابی کا انحصار بھی نجی شعبے کی کمپنیوں کے اشتراک پر ہے۔
جس کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری تنظیموں اور حکومتوں کا تعاون بھی ضروری ہے۔ بش انسٹیٹیوٹ اوباما انتظامیہ، اقوام متحدہ کے ادارے برائے انسداد ایڈز (یو این ایڈز)، سوسان جی کومین اور نجی شعبوں کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔ وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن اس کوشش میں بھرپور طریقے سے شامل ہیں۔ ہم نے نارنجی ربن مہم اور سرخ ربن مہم کولوسا کالار زمبیا میں دسمبر2011ءمیں شروع کیا تھا اور اس مہینے افریقہ واپس آئے ہیں تاکہ اس پروگرام کو بوٹسوانہ تک پھیلایا جائے۔ ہم اپنے اس دورے کے دوران(میں اور لورا) زمبیا گئے اور چار روز عورتوں کی صحت سے متعلق ایک کلینک جو کہ کب وی میں واقع تھا، گزارے۔ یہ دارالحکومت سے دو گھنٹے شمال کی مسافت پر واقع ہے جیسے ہی ہم نے فیتہ کاٹا، کلینک کا آغاز ہو گیا اور ایک عورت کے ٹیسٹ شروع کر دیئے گئے جو کہ کینسر کی تشخیص کے حوالے سے قطار میں لگی تھی۔ یہ ایک خوش کن منظر تھا جب ہم نے ایسی عورت کو دیکھا جو مریضہ ہونے کے باوجود خوشی اور اطمینان کے ساتھ واپس گئی ، کیونکہ اپنی صحت کے متعلق شفاف انداز میں وہ پُراعتماد تھی اور یہ بات دل کو اطمینان دلوانے والی ہے کہ وہ لوگ جن میں کینسر کی ابتدائی علامات سامنے آ چکی تھیں وہ علاج کروا سکیں گے اور اس بات کے بہت امکانات ہیں کہ وہ دوبارہ تندرست ہو کر زندگی جی سکیں گے۔
گزشتہ ایک عشرے کے دوران لاکھوں کی تعداد میں زندگیاں بچائی گئیں یا تبدیل ہو گئیں یہ ایک عالمی کوشش ہے یہ ایک افسوس ناک اور دل کو دھلا دینے والی بات ہو گی کہ اگر دُنیا اس لمحے کو ان چیزوں سے صرف نظر کرنے میں ضائع کر دے اور ایسا ہو گا۔ دوسرے ممالک اور مقامی حکومتیں افریقہ میں مزید وسائل اور فنڈز مہیا کرنے کے لئے بہت کچھ کر سکتی ہیں جیسا کہ زمبیا کی نئی تشکیل پانے والی حکومت کر رہی ہے۔ ایڈز کے خلاف لڑی جانے والی جنگ میں جوش و جذبہ برقرار رہنا چاہئے، لیکن امریکہ کو اس سلسلے میں رہنما کا کردار ادا کرتے رہنا ہو گا، ہمیں ضروریات کا علم ہے اور چیلنج ہم قبول کر چکے ہیں اس لئے اب ہم پیچھے مڑ کر نہیں دیکھ سکتے۔
(بشکریہ ”واشنگٹن پوسٹ “ ....ترجمہ وقاص سعد)