سفید شیروں کے سیاہ دن
جانوروں کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بہت ہی ”غیر انسانی “ سلوک کیا جاتا ہے، کیونکہ بطور قوم ہم کسی کو بھی چار ٹانگوں پر کھڑا دیکھنے کے روادار نہیں ہیں۔ اس پاک سرزمین میں کتوں کی حالت شاید سب سے خراب ہے ،کیونکہ انسان کا یہ سب سے اچھا دوست یہاں پلید سمجھا جاتا ہے۔ جیسے ہی کوئی کتا قریب آنے کی جسارت کرے تو پارساﺅں کے چہرے پر تناﺅ ، بلکہ تشنج ، کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ وہ اس سے یوں اجتناب کریں گے ، بلکہ خوفزدہ ہوں گے، جیسے خواتین کسی ”دہشت ناک “ چوہے کو دیکھ کر برافروختہ ہوجاتی ہیں۔
ہمارے چڑیا گھروں مَیں انہیں مذبح خانے کہتا ہوں کی حالت نہایت خراب ہے۔ان میں متعین افراد، جو انتظامیہ کہلاتے ہیں، کے لئے یہاں موجود خدا کی خوبصورت مخلوق کی بہتری آخری ترجیح ہے۔ کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ جانوروںکا کوئی خیر خواہ، جیسا کہ ڈاکٹر طوسی ، لاہور چڑیا گھر میں آتاہے تو اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں کہ ایسے باصلاحیت آدمی کو چڑیا گھر، بلکہ ملک، ہی چھوڑ جانا پڑتا ہے۔ باقی رہ جانے والے تیسرے درجے کے ”بابو لوگ “ ہیں، جن کی وسیع القلبی کے سامنے کپڑے سینے والی سوئی کی نوک نصف جہاں ہے اور ان کی حتی الامکان کوشش ہوتی ہے کہ وہ ان بدقسمتوں کو، جو ان کی بدعنوانی اور نااہلی کی دنیا میں اسیر ہوتے ہیں، خود سے زیادہ سے زیادہ فاصلے پر رکھیں۔ اصولی طور پر تو چڑیا گھروں کو ہونا ہی نہیں چاہیے، کیونکہ ان جانوروںکو، جن کو فطرت نے آزاد گھومنے کے لئے بنایا تھا، دس فٹ کے آہنی پنجرے میں بند کرنا میرے نزدیک ایک مجرمانہ اقدام ہے۔ چونکہ چڑیا گھر قائم کئے جاچکے ہیں اور ان کو انتظامیہ نے چلانا بھی ہے ، اس لئے یہاں آنے والے جانوروں کی قسمت میں کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہو کر مرنا ہی ہے۔
لاہور سے باہر ایک نام نہاد سفاری پارک قائم کیا گیا ہے ، یہ ایک ویران اور گندی جگہ ہے۔ یہاں جانوروں کو جینے کے چیلنج پر لایا جاتا ہے ۔مَیں خیال ہے کہ پارک خود ہی ختم ہو جائے گا ،لیکن اس سے پہلے یہاں لائے گئے بدقسمت جانور بھی ختم ہو چکے ہوںگے۔ کچھ عرصہ قبل مَیں اس کو دیکھنے گیا تو بلیوں کے کچھ ”جسیم کزن“ بڑی مایوسی سے ، اکتائے ہوئے لیٹے تھے، جیسے اپنی بری قسمت پر شاکی ہوں۔ اگر اب اس کی حالت پہلے سے بہتر ہے تو مَیں اس کی انتظامیہ کو سلام کرنے ننگے پاﺅں دوڑا جاﺅںگا۔ بتایا گیا ہے کہ کراچی چڑیا گھر کی حالت اس سے بھی خراب ہے۔ وہاں کوئی چڑیا بھی پر مار نہیں سکتی اور جانورنہ تو احتجاج کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کے پاس بندوق ہوتی ہے کہ وہ انتظامیہ سے اپنے مطالبات منوا سکیں۔
اب ایک نیا سقم دیکھنے میں آیا ہے بالکل جیسا کچھ سال قبل لاہور میں منظر ِ عام پر آیا تھا۔ کراچی میونسپل کارپوریشن (کے ایم سی) نے چار شیر درآمد کئے دو بنگال ٹائیگر اور دو ، جن کے بارے میں کے ایم سی کے افسران بڑی خوشی سے بتارہے ہیں، سفید شیر ہیں۔ یہ سفید شیر ، جو سفید بال اور کھال رکھتے ہیں ، کی شاید بہت زیادہ نسل کَشی کی گئی ہے اور ان کو چڑیا گھروں کے لئے تیار کیا جاتا ہے ۔چند سال قبل لاہور میں بھی ایسا ہی ڈرامہ ہوا تھا۔ کے ایم سی نے” نیشنل کونسل برائے تحفظ ِ جنگلی حیات “ سے این او سی لینے کو وقت ضائع کرنے کے مترادف سمجھا۔ بنگال ٹائیگر بلجیم اور سفید شیر جنوبی افریقہ سے جب طویل اور تکلیف دہ سفر طے کرکے پہنچے اور کے ایم سی کی انتظامیہ نے کوئی دستاویزات تیار نہیں کی تھیں، چنانچہ ان شیروںکو کئی گھنٹے پنجرے میں بند رہنا پڑا۔
ان دونوں جوڑوں پرکے ایم سی کے سترہ ملین روپے خرچ ہوئے ہیں، اور جیسا کہ ایک اخباری نمائندے نے اس حیران کن ”سرمایہ کاری “ پر رائے دیتے ہوئے کہا کہ فی تماشائی پانچ روپے ٹکٹ پر اس رقم کے پورا ہونے کا اس صدی میں توکوئی امکان نہیں۔ اس سے تو بہتر تھا کہ کے ایم سی یہ رقم سیوریج سسٹم کو بہتر بنانے پر لگا دیتی، لیکن اس بھی کیا فائدہ ہوتا؟اب ان شیروں کا ”افتتاح “ تو کر لیا گیا ہے ۔ اگر سیوریج سسٹم کو بہتر کیا جاتا تو کے ایم سی کے محترم ایڈمنسٹریٹر اس کا بڑی دھوم دھام سے افتتاح کیسے کرتے دکھائی دیتے؟ مزید یہ کہ ”وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ سندھ “ سے بھی اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اب بعد میں جو بھی کارروائی ہوتی رہے، کے ایم سی نے تمام تر قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے یہ تمام کارروائی کی ہے۔ این او سی کے بغیر شیر کیسے درآمد کر لئے گئے ؟ خیر ہمارے ملک میں یہ کوئی حیرت یا راز کی بات نہیںہے اور نہ ہی اس بات پر انگشت بدنداں ہونے کی ضرورت ہے کہ درآمد کرنے والے پہلے ہی ایک اور سقم میںملوث تھے۔ یہ کمپنی 2007 ءمیں مختلف ناموں سے شیر، چیتے، دریائی گھوڑے اور جو بھی آپ چاہیں، لاچکی ہے ، اس کے خلاف ایک کیس بھی عدالت میںلگا ہوا ہے تاہم اس مملکت میں سب چلتا ہے۔
مَیں جنگلی حیات کی تجارت کا ماہر تو نہیں ہوں ،مگر میرا خیال ہے کہ پاکستان نے خطرے سے دوچار جنگلی حیات کی تجارت کے بین الاقوامی معاہدے CITES پر دستخط کئے ہوئے ہیں۔ ان بنگالی ٹائیگرز کی تعداد دنیا میں کم ہو کر 2,000 تک رہ گئی ہے اور ان کو اس وقت تک ہرگز درآمد نہیں کیا جا سکتا، جب تک اس کا مقصد ان کی نسل میں اضافہ نہ ہو ، یا پھر ان کو درجہ ¿ اول کی سہولتیں فراہم کرنے کی یقین دھانی نہ کرائی ہو۔ اب اگر کراچی، لاہور اور اسلام آباد چڑیا گھروںکی حالت پر نظر ڈالیں تو یہ تو صاف مقتل دکھائی دیتے ہیں، یہاں جانوروں کی نسل کُشی تو ہو سکتی ہے، نسل کَشی نہیں۔ یہاں ان شیروں کو زندہ رہنے کے لئے ” شیری “ دکھانی پڑے گی۔ لاہور چڑیا گھر میں ”ماڈرن انیمل مینجمنٹ “ کا شاہکار ملاحظہ کرنا ہو تو دیکھیں کہ کس طرح شیروں کو گھٹن زدہ پنجروںرکھا گیا ہے اور کس طرح ایک ”فائر ایکسپرٹ “ لمبے بانس کے ایک سرے پر مٹی کے تیل سے بھیگا ہوا کپڑا باندھ کر جانوروںکو ڈرا کر پنجروں میں بند کرتا ہے۔
لاہور چڑیا گھر کے پاس مالی وسائل کی کمی نہیں، مگر مجال ہے کہ ان جانوروں پر کچھ خرچ کیا جائے۔ جانوروں میں مختلف بیماریوں ، جیسا کہ ٹی بی، کی شکایت عام ہے ،مگر مجال ہے کہ کوئی ایکس رے، فارمیسی، ویکسی نیشن پروگرام، میڈیکل ریکارڈ، ماہر ڈاکٹر، آپریشن کی سہولت یا تربیت یافتہ عملہ دیکھنے میں آیا ہو۔ اگر کسی جانور کو کوئی بھی بیماری ہو تو اس کو مرنا ہی ہوتا ہے۔ یہاں وقت سے پہلے مرنے والے جانوروں کی فہرست بہت طویل ہے اور ان کا معصوم خون اس کی انتظامیہ کے سر ہے۔ جانوروںکی دیکھ بھال صرف سیکیورٹی گارڈ ز ہی کرتے ہیں۔ جب بھی جانور اس کے ڈائریکٹر کو اپنے خوشامدیوںکے ہمرا ہ آتا دیکھتے ہیں تو وہ خوف سے کسی کونے میں دبک جاتے ہیں کیونکہ ان کو اپنے دوست دشمن کا علم ہے۔
میرے جیسے لوگ اس موضوع پر لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں، مگر قلم عمل کا متبادل تو نہیں ہوتا ہے۔ ہم نے ایک وفد کی صورت میں جناب خادم ِ اعلی پنجاب سے درخواست کی تھی کہ اس صورت ِ حال کا نوٹس لیا جائے اور لاہور چڑیا گھر کو خود مختار ادارہ بنا دیا جائے اور جانوروںکوان سنگدل افراد کے ستم سے رہائی دلائی جائے۔ میاں صاحب نے دعدہ تو کیا تھا ،مگر تاحال اس پر عمل درآمد نظر نہیں آیا ہے، بلکہ ان کی منظوری سے دو برفانی چیتوںکو لالہ زار ، نتھیاگلی میں پنجروں میں رکھا گیا ہے اور وہاں ان کی دیکھ بھال کون کرتا ہے؟ یہ آپ بھی جانتے ہیں اور میں بھی، چنانچہ کراچی میںلائے جانے والے میرے دوستو ! موت سے بھی بدتر زندگی کے لئے تیار ہوجاﺅ۔ اب آپ سرکاری طور پر سنگدل ہاتھوں میں ہیں اور آپ کو جلد اندازہ ہوجائے گا کہ جنگل اس سے کتنا مہربان ہوتا ہے۔