آئین کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں کھینچا جاسکتا توہین عدالت کا قانون عدلیہ کے اسلحہ خانہ میں موثر ہتھیار ہے :چیف جسٹس
اسلام آباد) خبرنگار+این این آئی)سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کے اسلحہ خانے میں ایک موثر ہتھیار ہے ¾توہین عدالت کا نیا قانون آرٹیکل 63 ون جی سے متصادم ہے ¾ آئین کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں کھینچا جا سکتا ¾ پارلیمنٹ کو قانون بنانے کا مقصد بیان کرنا پڑتا ہے ¾ ایسا نہیں ہوتا آپ صبح اٹھیں اورکہیں کہ نیا قانون لانا ہے ¾ 18ویں آئینی ترمیم نے توہین عدالت کے آرڈیننس 2003 کو تحفظ دیا، راتوں رات قانون بدلنے درست نہیں۔منگل کوسپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے مقدمہ کی سماعت کی تو قانون کے خلاف درخواست گزار کے وکیل لیاقت قریشی ایڈووکیٹ نے کہاکہ قانون سازی کے وقت اس پر درکار بحث اور غور فکر نہیں ہوا، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا اس بنیاد پر کسی قانون کو ختم کیا جاسکتا ہے،صدر، کراچی بار کی درخواست پر وکیل حامدخان نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ توہین عدالت کا نیا قانون، 1976 کے قانون کی ہوبہو نقل ہے، صرف اس میں صدر، وزیراعظم، گورنر،وزیراعلی ٰوزراءکی نئی کلاز شامل ہوئی ہے، توہین عدالت ایکٹ کا سیکشن 4 ،عدالتی فیصلہ غیر موثر کرنے کی کوشش ہے، یہ آئینی آرٹیکل 189 سے متصادم بھی ہے،نیا قانون ،عجلت میں پیش اور منظور کیا گیا، اسکا ڈھانچہ ، آئین سے ناسمجھی کی بنیاد پر ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ سیکشن 4 اس لئے ہے کہ عدالتی فیصلہ غیر موثر ہونے سے سزا ہی نہ ہوسکے، پارلیمانی نظام میں قانون بنانے کا خاص طریقہ ہے، عدالت اس کیس میں کسی کو الزام نہیں دیتی مگر لگتا ہے کہ اس میں قانون کا مسودہ بنانے والے کی غلطی ہے، 18ویں، 19ویں اور 20ویں آئینی ترامیم میں کسی قانون کو چھیڑا نہیں گیا، پارلیمانی روایات ، صحت مند روایات کے طور پر جانی جاتی ہیں، ہم نے ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت لانا ہے تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو،پارلیمنٹ نے 2003 کا آرڈیننس اس لئے بچایا کہ وہ آئین کے مطابق تھاحامد خان نے کہا کہ نیا قانون عجلت اور جلد بازی میں پیش اور منظور کیا گیا، قانون سازی کے ذریعے پارلیمنٹ نے ایک عدالتی فیصلہ صادر کردیا ہے، نئے قانون کی ایک شق سے حکومت پرانے فیصلے بھی ختم کرانا چاہتی ہے، قانون سازی کے وقت اس پر درکار بحث اور غور و فکر بھی نہیں ہوا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بحث نہ ہونے پر موقف میں وزن ہے، ریکارڈ پیش کیا جائے تاہم اخبار کی خبروں کو ریکارڈ کا درجہ نہیں دے سکتے۔ جسٹس شاکر اللہ جان نے کہا کہ اپوزیشن نے نئے قانون پر بحث کرانے کیلئے واک آﺅٹ کیا تھا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بحث نہیں ہوئی تو کیا اس نکتے کو بنیاد بنا کر قانون کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 1976کا قانون خود ختم کیا، جس کے بعد 2003 کا قانون آگیا،جس کے تحت سزائیں سنائی گئیں پھر نیا قانون لانے کا کیا مقصد ہے چیف جسٹس نے کہاکہ پہلے سے موجود قانون کی جگہ نئے قانون کا جواز ہونا چاہئے، یہ واضح کرنا ضروری ہوتا ہے کہ کوئی قانون کیوں بنایا جا رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون میں جو خامیاں ہیں لگتا ہے وہ ڈرافٹس کی غلطیاں ہیں، ہمیں ملک میں پارلیمانی نظام جمہوریت لانا ہے تاکہ لوگوں کو فائدہ ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی قانون خود نہیں بنتا، پارلیمنٹ کو قانون بنانے کیلئے کہا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو واضح کرنا ہوتا ہے ایک قانون کی موجودگی میں دوسرا قانون بنانے کی کیا ضرورت ہے۔ چیف جسٹس نے کہاکہ توہین عدالت کا قانون عدلیہ کے اسلحہ خانے میں ایک موثر ہتھیار ہے. توہین عدالت کا نیا قانون آرٹیکل تریسٹھ ون جی سے بھی متصادم ہے۔ آئین کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں کھینچا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ 2003 کا قانون زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع فراہم کرتا تھاجبکہ نئے قانون نے آرٹیکل دوسو چار کوغیرموثرکردیا ہے۔توہین عدالت کانیاقانون آرٹیکل تریسٹھ ون جی سے بھی متصادم ہے۔ آئین کو ایسے نہیں کھینچا جا سکتا جیسے آپ چاہیں۔ موجودہ قانون کے تحت عوامی عہدہ رکھنے والوں کوفوجداری مقدمات میں استثنیٰ دیاگیا۔انہوں نے کہا کہ یہ استثنیٰ پہلے صرف صدراورگورنرزکوسول مقدمات میں حاصل تھا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ صبح اٹھیں اورکہیں کہ نیا قانون لانا ہے۔ چیف جسٹس افتخارمحمدچوہدری نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاہے کہ خدا نے ہمیں انصاف کے منصب پر فائز کیا ہے ‘ کسی کو اپنے اختیارات سلب کرنے کی اجازت نہیںدے سکتے ،نئے قانون کی ایک شق سے پرانے قانون کوختم کیاجارہاہے پہلے سے موجود قانون کی جگہ نئے قانون کاجوازبھی ہوناچاہیے،کہ آرٹیکل 190تمام انتظامی ،عدالتی ادارے عمل کرنے کے پابندہیں کسی کواستثنٰی حاصل نہیںسابق وزیراعظم گیلانی کوبھی اس لئے جاناپڑاکہ انہوں نے عمل نہیں کیااپیل آنے پرفیصلہ اپیلیٹ کورٹ کرسکتی ہے کہ فیصلے کو معطل کرناہے یانہیںیہ عدالت کامکمل اختیار ہے ، دوران سماعت جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ توہین عدالت کے نئے قانون کے ذریعے مراعات یافتہ طبقے کواستثنٰی دینے کی کوشش کی گئی جبکہ جسٹس تصدق جیلانی کے کہاکہ قانون سازی کرناپارلیمنٹ کااختیارہے۔ حامد خان کے دلائل مکمل ہونے پر اشرف گجر نے دلائل کاآغاز کیا اورموقف اختیار کیاکہ حکومت نے نیا قانون بنا کر چیف جسٹس کے اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کی ہے حالت یہ ہے کہ خود حکومت کے لوگوں کو بھی پوری طرح علم نہیں ہے کہ نیاتوہین عدالت قانو ن کیاہے نیاقانون چوں چوں کا مربہ ہے ناجانے حکومت اس میں کس کو کھانا چاہتی ہے عدالت اپنے اختیارات پر کسی سرکاری ادارے کوقبضہ نہ جمانے دے عدالت کاکام عوام اورحکومت کے درمیان ہونے والے مسائل کا خاتمہ کرنا بھی ہے ان کے دلائل جاری تھے کہ عدالت کا وقت ختم ہو نے کی وجہ سے مزید سماعت آج بدھ تک کے لیے ملتوی کردی گئی ۔