’’بچہ جمہورا‘‘ ایک بار پھر ’’مداری‘‘ لگائے گا

’’بچہ جمہورا‘‘ ایک بار پھر ’’مداری‘‘ لگائے گا
 ’’بچہ جمہورا‘‘ ایک بار پھر ’’مداری‘‘ لگائے گا

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے بچپن کی آؤٹ ڈور تفریحات میں ایک تفریح’’مداری‘‘ بھی ہوا کرتی تھی۔ یہ عمومی طور پر دو افراد پر مشتمل ہوتی۔ایک ’’استاد‘‘ اور دوسرا ’’بچہ جمورا‘‘۔ کھیل کی بساط بچھ جانے کے بعد استاد بچے جمورے سے مخاطب ہوتا، ’’بچہ جمورا مداری لگائے گا؟‘‘ بچہ جمورا جواب دیتا: ’’جی استاد جی‘‘ اور پھر بڑا عجیب اور دلچسپ کھیل شروع ہوتا۔


حالات بدل گئے، وقت بدل گیا۔دورِجدید میں جدید کھیلوں نے جگہ لے لی ۔بالکل اسی طرح جس طرح پرانے لوگوں کی جگہ نئے لوگوں نے لے لی ہے۔ اب چونکہ جمہوریت کا دور دورہ ہے،اس لئے ’’مداری‘‘ کے انداز بھی بدل گئے ہیں۔اب استاد(مداری) سامنے بیٹھ کر کھیل پیش نہیں کرتا۔وہ پردہ نشینی میں رہتے ہوئے اب صرف ڈوریاں ہلاتا ہے۔بچہ جمورا جمہوری ہونے کی وجہ سے اب ’’ بچہ جمہورا‘‘ ہو چکا ہے۔اب ساری مداری ’’ بچہ جمہورا‘‘ کو دکھانا ہوتی ہے۔پردہ نشین استاد بس ’’اشارے‘‘ سے اسے ’’ گائیڈ‘‘ کرتا رہتا ہے۔یہ ’’جمہوری مداری‘‘ ہر محلے ، ہر چوک میں لگائی جاتی ہے، لیکن سالانہ ’’قومی مداری‘‘ دارالحکومت کے ڈی چوک میں لگائی جاتی ہے۔’’ بچہ جمہورا‘‘ بڑے اہتمام کے ساتھ ہر سال یہ’’مداری‘‘ پیش کرتا ہے۔دور دراز سے مرد، جوان، بچے، خواتین اور وقت کی ستم ظریفی کے ہاتھوں بوڑھے( جن کو وقت نے بوڑھا تو کر دیا ہے،بزرگ نہیں) کئی کئی دن تک، بلکہ بعض دفعہ کئی کئی ہفتوں مہینوں تک’’ بچہ جمہورا‘‘ کے کرتب دیکھتے رہتے ہیں۔یہ اب ہمارا ’’ قومی کھیل‘‘ بنتا جا رہا ہے۔ اس کو دیکھے بغیر اب ہم نیا کیلنڈر نہیں چھاپتے۔ خیر ’’بچہ جمہورا‘‘ ہر روز اعلان کرتا ہے کل کا سورج اس کے سر سے طلوع ہوگا۔ایک ہما کہیں سے اڑتا ہوا اس کے سر پر آن بیٹھے گا۔ٹینک کی شکل کا ایک اڑن کھٹولا ایک عالیشان تخت لا کر اس مجمع کے بیچوں بیچ رکھ دے گا۔ وہ (بچہ جمہورا) اس تخت پر براجمان ہو گا۔ اس کے تخت نشین ہوتے ہی غربت کے بادل چھٹ جائیں گے۔خوشحالی اور تونگری کا مینہ جم کر برسے گا۔ بارش کی بوندوں کے مثل قیمتی موتی ہر سو بکھر جائیں گے۔ مجھ ( بچہ جمہورا) کے سر پر چمکنے والے سورج کی تابانی سے لوڈشیڈنگ سے چھائے اندھیرے چھٹ جائیں گے۔ کسی کو بِل کے نام پر ایک پائی ادا نہیں کرنا پڑے گی۔غربت کی لکیر یکسر مٹ کے رہ جائے گی۔بھوکوں کے لئے ’’من و سلویٰ‘‘ اترا کرے گا۔مشقت نام کی کوئی چیز زندگی کا حصہ نہیں ہوگی۔ عالیشان اور بلند عمارتوں کی الاٹ منٹ کی دستاویزات ترقی کی آندھیوں کے ساتھ تنکوں کی طرح اڑتی پھریں گی۔ جو جتنی چاہے، اتنی سمیٹ لے۔زندگی عیش وطرب کا عملی مفہوم ہوگی۔کوئی دکھ، کوئی غم،تکلیف، بیماری نام کو بھی نہیں ہو گی۔بس مختصر یہ کہ ہر شب شبِ برات ہوگی اور ہر دن روزِ عید۔


بچے، جوان، خواتین،اور ماشاء اللہ بوڑھے بھی ’’بچہ جمہورا‘‘ کے ان خوش کن اعلانات کو سن کر ’’ایمان‘‘ لے آتے ہیں۔ ڈی جے کی بنائی گئی دھنوں پر دیوانہ وار رقص کناں ہوتے ہیں، پھر اس امید پر اسی پنڈال میں کھلے آسماں تلے سو جاتے ہیں۔اگلا دن بھی پچھلے دن کی مثل ہی طلوع ہوتا ہے۔وہ دن نہ تو روزِ عید ثابت ہوتا ہے اور نہ آنے والی رات شبِ برأت میں ڈھل پاتی ہے۔ ’’بچہ جمہورا‘‘ خود بھی اس صورت حال سے پریشان ہوتا ہے۔وہ لوگوں کی مایوسی کو بخوبی سمجھ رہا ہوتا ہے۔وہ بار بار ’’ استاد‘‘ کی جانب دیکھتا ہے۔ اس کی طویل اور مصلحت انگیز خاموشی کو نہ سمجھ پاتے ہوئے اسے مضطرب ہجوم کو تسلی دینا پڑتی ہے کہ بس ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے ہی والی ہے۔ جیسے ہی ’’امپائر‘‘ کی انگلی اٹھ گئی، قارون کے خزانوں کے منہ اور ایوانِ اقتدار کے محکوموں کے لئے بند دروازے کھل جائیں گے۔’’ بچہ جمہورا‘‘ بڑی مہارت سے یہ تماشہ کئی دن تک جاری رکھتا ہے۔پردہ نشین ’’استاد‘‘ کی طویل خاموشی سے خود بھی اکتا کر سارے التوا کو اللہ کی مرضی قرار دیتے ہوئے اگلی حکمتِ عملی اور نئے لائحہ عمل کے وعدے کے ساتھ کوئی ’’ہنی مون‘‘ اور کوئی دیارِ غیر کی راہ لیتا ہے۔بجائے اس کے کہ مجمع دلبرداشتہ ہو اور ’’بچہ جمہورا‘‘ مردہ باد کے نعرے لگائے اور ڈی چوک میں اپنا ہی جمع کردہ کوڑا اس کے کنٹینر کی طرف پھینکے، گانوں کی دھن پر رقص کرتا گھروں کی راہ لیتا ہے۔


محترم قارئین! ’’سالانہ مداری‘‘کے دن ایک بار پھر قریب ہیں۔جیسے ہی ساون بھادوں کے بادل چھٹ جائیں گے، موسم خوشگوار ہو جائے گا’’بچہ جمہورا‘‘ اسی چوک میں، انہی پرانی’’ آئٹمز‘‘ کے ساتھ رونق افروز ہوگا۔’’ بچہ جمہورا‘‘ بھی وہی، ’’استاد ‘‘ بھی وہی ، تماشائی بھی وہی،سکرپٹ بھی وہی اور شایدنتیجہ بھی وہی۔ خیر ’’بچے جمہورے‘‘ کا تو ’’کاروبار‘‘ ہی یہی ہے۔اس کے سوا نہ تو اس نے کوئی اور کام سیکھا ہے اور نہ ہی ’’استاد‘‘ نے سکھایا ہے۔مَیں نے یہ اتنی سطور آپ سے محض یہ پوچھنے کے لئے لکھی ہیں کہ کیا آپ کو بھی یہ ’’مداری‘‘ دیکھنے کے سوا اور کوئی کام نہیں؟کیا آپ سچ مچ سمجھتے ہیں کہ عملی جدوجہد کئے بغیر صرف ایسی شعبدہ بازیوں سے حالات بدل سکتے ہیں؟لوڈ شیڈنگ، غربت، مہنگائی، کرپشن، بیماری، بھوک،افلاس،یہ سب کچھ ایسے ’’مداریوں‘‘ کے کرتبوں سے ختم ہو جائے گا؟اگر آپ کا جواب نفی میں ہے تو مجھے بتائیے آپ اس بار بھی یہ ’’مداری‘‘ دیکھنے جا رہے ہیں؟

مزید :

کالم -