نیا وزیر اعظم چھوٹے صوبے سے بھی ہوسکتا ہے ؟
دنیا کے غیر ترقی یافتہ علاقوں میں قبائلی نظام جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں شاہی نظام رائج تھا۔ شاہی نظام سے ہی جمہوری نظام نے جنم لیا۔ برطانیہ میں بادشاہی نظام کے ساتھ ساتھ مضبوط جمہوری نظام قائم ہوا اور اس کے ساتھ ہی جدید جمہوریت کی داغ بیل پڑی۔ پاک و ہند کی تقسیم کے بعد بھارت اور بنگلہ دیش میں جمہوریت کافی مضبوط ہوئی لیکن بدقسمتی سے قائد اعظم ؒ کی رحلت کے چند سال تک جمہوری اثرات ملک میں رہے جس کے بعد سیاست دانوں کے ذاتی مفادات نے ڈکٹیٹر شپ کو دعوت دی۔ ذوالفقار علی بھٹو مرحوم نے پاکستان میں ایک مضبوط سیاسی نظام کی داغ بیل ڈالی اور عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوا۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی، اے این پی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے علاوہ شخصی پارٹیاں وجود میں آ گئیں مثلاً ن لیگ میاں نواز شریف کی ذات سے وابستہ ہے، ق لیگ چوہدری شجاعت حسین پر دار و مدار رکھتی ہے ۔ پگارہ لیگ، پیر پگارہ کے نام سے ہے۔ ان جماعتوں میں مرکزی سربراہ آگے پیچھے ہو جائے تو سیاست کے فصلی بٹیرے زرخیز فصلوں پر چلے جاتے ہیں جیسا کہ نون لیگ اور قاف لیگ کے ساتھ ہوا ہے۔
پاناما کیس کے بعد نواز فیملی ایک کڑے امتحان میں مبتلا ہو گئی ہے۔ میں نے 30جون کے اپنے کالم میں اس امر کی نشاندہی کی تھی۔ نواز شریف کے وکلاء اور بیربل قانونی جنگ لڑنے کے بجائے سیاسی ریسلنگ میں الجھے ہوئے ہیں جو نواز شریف کے اہل خانہ اور ان کی بادشاہت کے لئے خطرناک ثابت ہو گا۔ نتیجہ نواز شریف کے سامنے ہے۔
جے ٹی آئی کی رپورٹ سامنے آنے پر سپریم کورٹ میں کیس شروع ہوا تو جج صاحبان کے ریمارکس اور نواز شریف کے وکلاء کے دلائل اور کمزوریوں کے اعتراف کے بعد حکومتی بیربلوں نے اپنی توپوں کا رخ اپوزیشن کی طرف کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی چوہدری نثار و دیگر نے اپنا غبار نکالنا شروع کر دیا ہے۔
پنجاب کے ایک وزیر نے تو استعفیٰ بھی دے دیا ہے۔ اب ن لیگ میں نئے وزیر اعظم کے لئے لابنگ شروع ہو گئی ہے۔ کہتے ہیں چوہدری نثار وزیر اعظم سے ان کے دورہ سیالکوٹ کی وجہ سے انتہائی ناراض ہیں کیونکہ وہ خواجہ آصف کے سیاسی حریف ہیں۔ اب چوہدری نثار اور خواجہ آصف دونوں کا پتہ بالکل صاف ہو جائے گا۔ ایاز صادق پنجاب سے ایک اندازے کے مطابق وزیر اعظم کے امیدوار نظر آتے ہیں جو کسی قسم کی سیاسی پیچیدگیاں پیدا نہیں کرینگے۔
موجودہ سیاسی صورتحال میں شہباز شریف وزیر اعظم کا موضوع نہیں ہیں کیونکہ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اکٹھا رکھنے کے لئے ان کا پنجاب میں ہونا ضروری ہے یہ بھی شنید ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف چھوٹے صوبے سے وزیر اعظم کا اعلان کر کے ایک بڑا دھماکہ کر سکتے ہیں۔ عین ممکن ہے قُرعہ فال لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ کے نام نکل آئے جو اس وقت وفاقی وزیر ہیں اور بلوچستان کے گورنر رہ چکے ہیں۔