علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10
علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 10

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پیر ابونعمان

قاری محمدنواز سیالوی خود پیر بھی ہیں اور عالم بھی۔ پیر صاحب کے ساتھ گہرے مراسم کے باوجود سیالوی صاحب اپنے مرشد خانہ سے وابستہ ہیں۔ البتہ فیوض و برکات میں انہوں نے پیر محمد رمضان رضوی سیفی کے سلسلہ طریقت کو بہترین تربیت گاہ سے منسوب کیا ہے۔ سیالوی صاحب کا کہنا ہے ’’میں سیال شریف میں بیعت ہوں۔ البتہ مجھے جب بھی کسی روحانی یا علمی مسئلہ کو سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے تو پیر محمد رمضان صاحب سے پوچھتا ہوں لیکن میں نے ان سے لطائف کیلئے ذکر حاصل نہیں کیا اس لئے کہ میں چونکہ ذرا مولوی ٹائپ بھی ہوں۔ قرآت اور تقاریر کیلئے بہت مصروف ہوتا ہوں۔ اس لئے بالخصوص وہ ذکر جو سیفی حضرات کرتے ہیں اس سے محروم ہوں۔ پیر صاحب سے اس پر بات چیت ہوتی رہتی ہے لیکن میں یہ ذکر کرنے میں ذرا محتاط ہوں کیونکہ اس کیلئے بندے کو اہل ہونا چاہئے۔
قاری محمد نواز سیالوی بیان کرتے ہیں کہ جس انسان کی خوبیوں کا اندازہ کرنا ہواسکے ساتھ سفروقیام کرنا چاہئے لہذا مجھے پیر محمد رمضان سیفی صاحب کے ساتھ مدینہ پاک میں قیام کا موقع ملا،اس دوران میں نے انکے اندر جو بزرگانہ خوبیاں پائیں وہ احاطہ تحریر میں نہیں سموئی جاسکتیں،پیر صاحب کے اندر اخلاص و عشق حقیقی کا غلبہ ہے اور آپ اشاعت حق کی تبلیغ کیلئے مجاہدانہ کردار ادا کرنے کی تڑپ رکھتے ہیں۔

علم ظاہر سے علم باطن کا سفر طے کروالے ایک مردباکمال کی آپ بیتی۔ ۔ ۔ قسط نمبر 9 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

اللہ تبارک و تعالیٰ نے دنیا میں مسلمانوں کی اصلاح کے لیے ایسی برگزیدہ ہستیوں کو پیدا فرمایا جنہوں نے عالم اسلام اور تمام مسلمانوں کے دلوں میں اللہ عزوجل اور اس کے حبیب ﷺ کی محبت کے دیپ روشن کئے۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو شکر کی ایسی کیفیت کو جانتے ہیں جو نعمتوں کو دوام بخشتی ہے۔ یہ شکر اور صبر جیسی عظیم نعمتوں سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ ان کی حیات کا لمحہ لمحہ اپنے اندر بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ اپنے ربّ عزوجل کی رضا چاہتے ہیں اور اپنی دنیاوی تگ و دو میں فکر آخرت کو بھی ساتھ رکھتے ہیں۔ وہ ان ساری کوششوں کو دین کی سر بلندی کے ارادے سے وقف کرتے ہیں۔ انہیں کوئی نعمت دی جاتی ہے تو اللہ کے اس احسان کا شکر ادا کرتے اور کوئی آزمائش آتی ہے تو صبر کرتے ہیں۔ مسبب الاسباب کو کارساز جانتے ہیں۔ اور اللہ عزوجل کی رضا کو اصل مقصود بناتے ہوئے اسباب اور وسائل و ذرائع کو عمل میں لانا یہی درمیانی راہ ہے جس پر اہل دین کار بند ہوئے۔ انہی میں ایسی ہستی جن کے بارے میں یہ عرض کروں گا!
علم دیتے ہیں نور دیتے ہیں
اور قلبی سرور دیتے ہیں
اولیاء اپنے ہم نشینوں کو
عشق رب غفور دیتے ہیں
میں نے ان برسوں میں دیکھا ہے کہ ان کی محفل میں جو کوئی بھی آتا ہے جاتے ہوئے وہ اپنے دامن میں کچھ نہ کچھ سمیٹتا ہے۔ خاص طور پر اللہ کا ذکر، جس پر وہ بہت زور دیتے ہیں۔ پیر صاحب بہت ہی نیک اور نرم دل انسان ہیں۔ ان میں تحمل اور بردباری کوٹ کوٹ کے بھری ہے ، ان کی سخاوت کا تو کیا ہی عالم ہے۔ اپنے اہل خانہ کیا مریدوں عقیدت مندوں اور شاگردوں کے لیے بلکہ ہر خاص و عام کے لیے ان کی جیب کھلی ہے۔ ان کے در پر جو بھی اپنی ضرورت کے لیے آیا خالی ہاتھ نہیں گیا۔ ان کی زندگی کا مقصد اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کی رضا اور دین اسلام کی خدمت کے لیے وقف ہے۔
پیر صاحب فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس جو بھی آئے اسے لنگر میں سے کچھ نہ کچھ ضرور دو ،چاہے وہ ایک گلاس پانی ہی کیوں نہ ہو۔وہ ہمیں بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ ایک عامل پیر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے استاد بھی ہیں۔ ان کی گفتگو میں وہ تاثیر اور چاشنی ہے جو پل میں سننے والے کو گرویدہ بنا لیتی ہے۔
پیر صاحب ماشاء اللہ دو اداروں کا نظام بھی نہایت خوش اسلوبی سے چلا رہے ہیں۔ جامعہ جیلانیہ رضویہ اور جامعہ جیلانیہ رضویہ للبنات میں طلباء و طالبات کو مفت تعلیم دی جا رہی ہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذہنی نشو و نما اور اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ تاکہ طلباء و طالبات تعلیم حاصل کرنے کے بعد معاشرے میں اہم کردار ادا کر سکیں۔ الحمد للہ پیر صاحب اپنا یہ کام نہایت ہی ایمانداری اور خلوص نیت سے سر انجام دے رہے ہیں اور ہم اس مشن میں ان کے ساتھ ہیں۔

دربارامام بری سرکارؒ پر کھلی کرامت
پیر صاحب سے کئی کرامتوں کا ظہور ہوا۔انکے ایک عقیدت مند بیان کرتے ہیں ’’ ایک مرتبہ ہمیں اسلام آباد(امام بری سرکارؒ ) پیر صاحب کے ساتھ جانے کا شرف حاصل ہوا۔ ہم لوگ دربار پر حاضری دینے کے بعد باہر کے احاطے سے میں کھڑے پیر صاحب کا انتظار کر رہے تھے۔ کیونکہ وہ ابھی دربار کے اندر موجود تھے۔ ابھی تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے پیر صاحب کے پاس لوگوں کا ہجوم دیکھا۔ پتا چلا کہ لوگ اپنی پریشانیوں کا حال سنا رہے ہیں۔ ایک عورت نے کہا ’’بابا جی میرے سر میں پچھلے دس سال سے درد ہے جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں‘‘
پیر صاحب نے کچھ پڑھ کے پھونکا (دم کیا) اور فرمایا کہ تھوڑا دو قدم چل کے واپس آؤ اور اپنی حالت بتاؤ۔ وہ عورت خوشی سے بتا رہی تھی ’’میں بالکل ٹھیک ہوں‘‘
ابھی پچھلے دنوں ایک نوجوان لڑکی پہ جن کا سایہ تھا اور حاضری کے دوران دھمکیاں دینے لگے کہ ہمارے راستے میں نہ آؤ ہم تمہارا سب کچھ ختم کر دیں گے لیکن پیر صاحب نے کلام الٰہی سے اس لڑکی سے جان بچائی۔
(جاری ہے ۔ اگلی قسط پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں )
(اس داستان کے بارے میں اپنی رائے دیجئےsnch1968@gmail.com )

مزید :

درویش کامل -