آج ’’کارکردگی بمقابلہ گردی‘‘ ہے

آج ’’کارکردگی بمقابلہ گردی‘‘ ہے
آج ’’کارکردگی بمقابلہ گردی‘‘ ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آپ ایک ایسی انتخابی مہم کے اختتام پر ووٹ ڈالنے جا رہے ہیں، جس کے بارے میں قومی سطح پر یہ بات عام ہے کہ مُلک میں الیکشن نہیں ’’سلیکشن‘‘ ہو رہی ہے۔۔۔ یہ ایک قومی آواز ہے، جو پوری قوت کے ساتھ سنائی دے رہی ہے۔الیکشن کمیشن کی اہمیت یہ ہے کہ اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

کاغذات نامزدگی داخل ہونے کے مرحلے سے لے کر عمران خان کے ’’گدھے‘‘ والے بیان تک ہزاروں سوال ہیں،جو الیکشن کمیشن کے ماتھے پر چمک رہے ہیں۔ نواز شریف کے کیس میں ایک ’’ڈرامائی‘‘ کیفیت پیدا کی گئی، احتساب عدالت کے جج صاحب تین دن تک چھٹی پر رہے اور حکم دیا کہ وہ فیصلہ لکھنے کی وجہ سے عدالت نہیں آئیں گے، مگر مقررہ تاریخ کو عدالت میں تشریف لائے تو تین دن بعد بھی ان کا فیصلہ ادھورا تھا اور وہ عدالت میں بیٹھ کر فیصلہ لکھتے رہے۔

یہ قصہ دہرانے کی ضرورت نہیں ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز پر الزامات کیا لگائے گئے اور ان کے خلاف فیصلہ لکھتے ہوئے کیا کِیا گیا؟۔۔۔ حنیف عباسی کو بھی ’’عجلت‘‘ میں سنائی جانے والی سزا کسی بھی عام شخص کو کیا قانون دانوں کے نزدیک بھی حیرت کا باعث بنی ہوئی ہے۔

مثال کے طور پر دیگر تمام ملزموں کو بری کر دیا گیا۔۔۔ مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ حنیف عباسی جن لوگوں کے ساتھ خرید و فروخت کرتے رہے، یعنی بیچنے والے کو تو سزا سنا دی گئی، مگر جس نے ’’خریدی‘‘ اس کا کہیں نام و نشان نہیں ہے، حالانکہ خریدنے والے بھی تو مجرم ہی تھے۔
عدالتوں میں کیسوں کے حوالے سے بھی عجیب منظر دکھائی دیتا ہے، یعنی مسلم لیگ(ن) کے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ ایک آواز پر عدالت میں پیش ہو جائے، بصورت دیگر اس کے خلاف کارروائی ہو گی، مگر تحریک انصاف کے لئے رعایت کا چلن عام ہے۔

الیکشن کمیشن نے لفظ ’’گدھا‘‘ کہنے پر عمران خان کو طلب کیا، تو عمران خان نے جواب دیا کہ وہ اتنا ’’ویلا‘‘ نہیں ہے کہ آپ کے پاس حاضریاں دیتا پھرے، سو بابر اعوان الیکشن کمیشن کے سامنے پیش ہوئے۔

ان کا الیکشن کمیشن کے سامنے رویہ ایسا تھا جیسے کوئی ’’استاد‘‘ اپنے شاگردوں کو مختلف الفاظ کے معنی بتا رہا ہو۔۔۔ مگر دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ الیکشن کمیشن کا رویہ ایسا نظر آیا،جیسے تھانے میں کسی ملزم کی پیشی ہو۔ ان سب واقعات کو پوری قوم دیکھ رہی ہے۔۔۔ میڈیا سوالات اٹھا رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں احتجاج کر رہی ہیں، مگر فریاد سنی نہیں جا رہی، ان تمام حالات کا ایک نتیجہ تو یہ نکل سکتا تھا کہ زیر عتاب جماعتیں الیکشن سے دستبردار ہو جائیں، مگر سیاسی جماعتوں نے درست فیصلہ کیا اور وہ ابھی تک الیکشن میں موجود ہیں اور جانی نقصان کے باوجود موجود ہیں۔

الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے تمام جماعتیں ان کے شفاف ہونے پرانگلیاں اٹھارہی ہیں۔۔۔ اور نظر بھی آ رہا ہے کہ دال میں کالا موجود ہے۔۔۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم گھر بیٹھے بیٹھے اپنا ووٹ ضائع کریں۔

ہمیں آگے بڑھ کے اپنا ووٹ کاسٹ کرنا ہے،ہمیں نظام بدلنا ہے، ہمیں ’’خواص‘‘ اور عوام کے فرق کو ظاہر کرنا ہے۔ ہم اپنے ووٹ کی قوت سے ہر طرح کے ’’بندوبست‘‘ ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔کسی بھی مصنوعی تبدیلی کے سامنے بند باندھ سکتے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہئے کہ آخری فیصلہ ہمارے ہاتھوں میں ہے، مگر یہ فیصلہ جذباتی انداز میں نہیں کرنا۔۔۔ ہم نے یہ ضرور سوچنا ہے کہ نواز شریف نے گزشتہ پانچ سال میں ہمارے ساتھ کیا کِیا ہے؟ یہ سمجھنے کے لئے آپ کو کسی لمبے چوڑے فلسفے میں الجھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

آپ صرف اپنی بنیادی ضرورتوں کے حوالے سے جائزہ لیں۔مثال کے طور پر آپ غور کریں کہ کیا 2013ء میں ملک بھر میں بجلی کی یہی صورتِ حال تھی۔۔۔ کیا آپ جس سڑک پر سے گزر رہے ہیں، پانچ سال پہلے ایسی ہی تھی۔۔۔ کیا نواز شریف کے زمانے میں ڈالر کی یہی قیمت تھی۔۔۔ کیا مُلک بھر میں معاشی ترقی کے آثار بڑھے ہیں یا کم ہوئے ہیں؟یہ وہ چیزیں جو آپ کے بہتر فیصلے کے لئے مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ آپ تبدیلی کے نعرے پر بھی غور کر سکتے ہیں اور یہ نعرہ لگانے والوں کے کردار اور خدمات پر بھی توجہ دے سکتے ہیں، مگر ان تمام معاملات سے اوپر اُٹھ کہ بھی سوچ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر آپ سوچ سکتے ہیں کہ مُلک میں کسی بھی طرح کی قیادت لانے کا حق اگر آپ کا ہے تو پھر یہ حق چھینا کیوں جا رہا ہے اور اگر آپ نواز شریف کو نہیں لانا چاہتے تو پھر یہ حق آپ کو ہی استعمال کرنے کی اجازت ہونی چاہئے، کسی دوسرے ’’فریق‘‘ کو کیا حق ہے کہ وہ آپ کے فیصلے پر اپنا فیصلہ مسلط کرے۔ اگر آپ عمران خان کو لانا چاہتے ہیں تو پھر آپ کو لانا چاہئے،کسی دوسرے ’’فریق‘‘ کو کیا حق ہے کہ وہ آپ سے پہلے فیصلہ سنا دے۔

آپ اس ملک میں بہتری لانا چاہتے ہیں، تو پھر اپنی طاقت کا اظہار کیجئے، اپنا ووٹ ضائع مت کیجئے، اٹھیے اور پولنگ سٹیشن کی جانب قدم بڑھایئے۔ کوشش کیجئے کہ آپ کے حلقے کے لوگ کم از کم ستر فیصد ووٹ کاسٹ کریں اور یاد رکھیے کہ یہ الیکشن عام الیکشن نہیں ہے، مقابلہ ’’کارکردگی‘‘ اور ’’گردی‘‘ کے درمیان ہے۔

یہ بھی یاد رکھیے قوموں کی زندگی میں ’’کارکردگی‘‘ ہی تبدیلی لاتی ہے۔’’گردی‘‘ کسی بھی قسم کی ہو، انتشار پیدا کرتی ہے، سو ہمیں ہر طرح کی سیاسی، سماجی، ثقافتی، حکومتی، ’’گردی‘‘ کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا اور ووٹ ڈالنا ہے،اٹھیے اپنا حق استعمال کرنے کے لئے باہر نکلئے۔

مزید :

رائے -کالم -