انتخابی مہم میں شائستگی کی کمی

انتخابی مہم میں شائستگی کی کمی
انتخابی مہم میں شائستگی کی کمی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

آج ملک بھر میں ہونے والے عام انتخابات قومی تاریخ میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ ویسے تو اس کی انتخابی مہم جس دھج اور سج سے چلائی گئی وہ لائق تحسین قرار نہیں دی جا سکتی، مجموعی طور پر یہ انتخابات جس ماحول اور انداز سے وقوع پذیر ہو رہے ہیں وہ بھی منفرد طرز کا ہے۔الیکشن سے پہلے ملک کی سب سے بڑی قومی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) کو جس انداز سے محدود کیا گیا، وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

میاں نوازشریف کی نااہلی سے سزا اور گرفتاری تک جو سلسلے کئے گئے وہ اس سے قبل کسی اور الیکشن میں دیکھنے کو نہیں ملے۔ اس پر تڑکا لیگی امیدواروں کو سزائیں دے کر یا نااہل کرکے لگایا گیا، وہ بھی خوب ہے۔

ایک مخصوص جماعت کو نوازنے کے لئے دوسری پر قدغن لگایا جانا یا سختیاں کرنا قرین انصاف نہیں۔یہ تو سیاسی انتقام کا معاملہ ہے لیکن اس سے بڑھ کر انتخابی مہم کا جو سلسلہ حالیہ دنوں میں دکھائی دیا اسے بھی کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دونوں متحارب جماعتوں پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان تحریک انصاف کے بعض رہنماؤں اور امیدواروں نے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے لئے جو زبان استعمال کی، اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
ہم اختلاف رائے کو دشمنی کا رنگ دے کر نہ جانے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انتخابی بخار صرف مخصوص دنوں کے لئے ہونا چاہیے، دنیا بھر میں یہی رواج اور روایت ہے کہ الیکشن کو بطور فیسٹیول لیا جاتا ہے، پھر سب کچھ بھلا کر لوگ شیر و شکر ہو جاتے ہیں، لیکن ہم انتخابات کو ایک دوسرے کے ساتھ دشمنی سمجھ بیٹھتے ہیں، دوران مہم مخالفین کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے سے گالی گلوچ تک ہر ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ توتکرار کی زبان معمول ہے، اخلاقیات سے گری گفتگو ہمارا شعار بنتا جا رہا ہے۔مختلف حلقوں کے امیدوار تو مخالفین پر کیچڑ اچھالتے ہی ہیں لیکن ہمارے بعض سیاسی قائدین بھی وہ زبان استعمال کرتے ہیں، جسے سن کر کفِ افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔

حالیہ الیکشن مہم میں پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری کو شاباش پیش کرنے کو جی چاہتا ہے جنہوں نے اپنی انتخابی مہم میں شائستہ اور شستہ زبان استعمال کی اور مخالفین پر تنقید بھی بڑے نپے تلے انداز میں کرتے رہے۔جہاں تک لیگی اور تحریکی لیڈروں کا تعلق ہے تو دونوں ایک دوسرے کی مخالفت میں حد سے گزر گئے۔ نجانے ہم غلیظ زبان کے استعمال میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کیوں کرتے ہیں۔

جلسوں اور کارنر میٹنگز میں طعن و تشنیع کے ایسے ایسے تیر برسائے جاتے رہے کہ شاید ہم نے ایک دوسرے سے قطع تعلق ہی کر لیا ہے۔ اس انتخابی مہم میں ایک اور منفی پہلو یہ دکھائی دیا کہ بعض جلسے جلوسوں میں مذہب اور مسلک کا نام لے کر ایک دوسرے پر تنقید کی جاتی رہی، اگرچہ الیکشن کمیشن نے جو ضابطہ اخلاق مرتب کیا تھا اس پر عمل درآمد کی خاصی کوشش کی گئی لیکن اس کے باوجود مذہبی گفتگو کا سہارا لے کر مخالفین کو ہدف تنقید بنایا جاتا رہا۔ یہ مناسب فعل نہیں ہے۔ 
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو انتخابی مہم میں زیادہ زور و شور یا گہما گہمی موجود نہیں تھی، اس کے باوجود مہم کے دوران شائستگی کا عنصر نہ ہونے کے برابر رہا۔کاروبار زندگی پر بھی اس مہم کا منفی اثر پڑتا رہا، تجارتی مراکز بھی مندی کا شکار رہے، ڈالر کو پَر لگ جانے کی بناء پر ملکی معیشت تنزلی کا شکار رہی۔

ہم جیسے کاروباری حضرات یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ پھس پھسے الیکشن میں کاروبار میں مندی کا رجحان ہے تو اگر گہما گہمی کے ساتھ انتخابی مہم چل گئی تو کیا بنے گا؟ اس ساری صورت حال کا باریک بینی اور دانش مندی سے تجزیہ کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف ایک دوسرے کی مخالف نہیں، بلکہ دشمن پارٹیاں بنتی جا رہی ہیں۔ ان میں سے جو بھی جیت گیا وہ دوسرے کو تسلیم نہیں کرے گا۔

حکومت بننے کے مرحلے سے چلانے تک کے معاملات خوش اسلوبی سے طے ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔میری تجویز تو یہ ہے کہ ’’مائنس ٹو‘‘ فارمولے پر عمل کرکے کسی تیسرے کو موقع مل جائے تو شاید زیادہ بہتر ہوگا، وگرنہ خدا نہ کرے کہ ہم الیکشن کے بعد کسی نئے دوراہے پر کھڑے ہو جائیں۔

ایک دوسرے پر چوری اور کرپشن کے الزامات نے ماحول بے حد گرم کر دیا ہے اور اس کی تپش ہر محب وطن شہری محسوس کررہا ہے۔خدا نہ کرے کہ ایسا ہو کہ ہمارا پرامن قومی ماحول اس آگ میں بھسم ہو جائے اورحالات اس نہج پر پہنچ جائیں،جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔قومی حکومت کی تجویز بھی بری نہیں، اس پر بھی سنجیدگی سے غور ہو سکتا ہے۔

دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی صورت حال دیکھ کر لگتا ہے کہ ان میں سے شاید کوئی بھی تنہا حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا اور پاکستان پیپلزپارٹی ،ایم ایم اے یا دیگر جماعتوں کے سہارے سے ہی حکومت تشکیل پا سکتی ہے تو کیوں نہ ہم پہلے ہی ذہن اس انداز سے تیار کر لیں کہ ’’مائنس ٹو‘‘ والے فارمولے کی بنیاد پر حکومت بنے۔

مزید :

رائے -کالم -