انتخابات کے بعد ملک بھر میں سیاست کے نئے طوفان کا امکان

انتخابات کے بعد ملک بھر میں سیاست کے نئے طوفان کا امکان
انتخابات کے بعد ملک بھر میں سیاست کے نئے طوفان کا امکان

  

تجزیہ : سہیل چودھری

ملکی انتخابی سیاست کی دونوں بڑی متحارب سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے اعلیٰ ذرائع اپنے اپنے اعلیٰ سطحی داخلی حلقوں میں قومی اسمبلی کی 10سیٹوں کے پلس مائنس کے ساتھ90,90نشستیں حاصل کرنے کے دعوے کر رہے ہیں ، حیرت انگیز طور پرفریقین ہی ایک دوسرے کو سیٹوں کے پلس مائنس کیساتھ ساتھ 60نشستوں پر کامیاب ہوتا دیکھ رہے ہیں، دونوں متحارب سیاسی جماعتوں کے مابین اس لحاظ سے کامیابی کا تناسب 60:90بیان کیا جا رہا ہے۔ تاہم قومی سطح کے اداروں کے ذرائع سے حاصل ہونیوالے اعداد و شمار کے مطابق مسلم لیگ (ن) کیخلاف تمام تر سیاسی انجنئیرنگ کے باوجود آج سخت کانٹے دار مقابلہ ہو گا۔ ان کے مطابق وسطی پنجاب کے شہری علاقوں میں پاکستان مسلم لیگ ن اور دیہی علاقوں میں پی ٹی آئی کو کامیابی ملنے کے امکانات روشن ہیں۔ وفاقی دار الحکومت کے ان اعلیٰ سرکاری ذرائع کے مطابق 10نشستوں کے پلس مائنس کیساتھ پی ٹی آئی 80اورمسلم لیگ(ن) کی قومی سطح پر 70نشستوں پر کامیابی کے امکانات ہیں اگرچہ پنجاب میں ن لیگ نواز شریف کے لندن قیام کے دوران بددلی کا شکارتھی اور اس کی انتخابی مہم تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو گئی تھی۔ تاہم کہا جا رہا ہے کہ ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف کی وطن واپسی سے ن لیگ کی مقبولیت کی ڈھلان کا سفر نہ صرف رک گیا بلکہ بتدریج بڑھنے لگا، جبکہ گزشتہ7،8دنوں میں ہونے والے بعض واقعات کے ردّ عمل میں ن لیگ سے ہمدردی کے جذبات بھی بہت حد تک اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ علاوہ ازیں پنجاب میں ن لیگی کارکنوں میں گزشتہ چند دنوں میں ہونے والے ’’واقعات‘‘ کا ردّ عمل بھی مسلسل سامنے آرہا ہے، انہی ذرائع کے مطابق ن لیگ کی انتخابی مہم میں گزشتہ چند دنوں میں تواتر سے گھنٹوں کے حساب سے ہمدردی اور ردّ عمل کی شکل میں مقبولیت کا غیر معمولی ابھار سامنے آرہا ہے جس کی بنا پر پی ٹی آئی کی پی ایم ایل این پر جو معمولی برتری سامنے آرہی تھی ختم ہو سکتی ہے ۔ اگرچہ بیشتر انتخابی جائزوں سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی ،پی ایم ایل این کے ساتھ زوردار مقابلے کے باوجود قومی اسمبلی میں تھوڑی سی اکثریت کیساتھ بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آسکتی ہے لیکن پنجاب میں دونوں جماعتوں میں کانٹے دار مقابلے کے تناظر میں صوبے میں ن لیگ کے بڑی پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آنے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا رہا، قرین قیاس یہی ہے کہ مرکز میں پی ٹی آئی کی مخلوط حکومت اور پنجاب میں ن لیگ حکومت بنا سکتی ہیں۔ ملک میں کشیدہ اور آلودہ سیاسی ماحول کی بنا پر آج پولنگ کا دن غیر معمولی طور پر حساس ہے۔ قبل ازوقت پولنگ سیاسی انجنیئرنگ اور ن لیگ کے خلاف سیاسی بنیادوں پر کرپشن کیسوں سے ن لیگ کے ووٹر اور سپورٹر پہلے ہی غصہ میں نظر آتے ہیں اور اگر آج پولنگ کے عمل میں کوئی ’’منظم مداخلت‘‘ دیکھنے میں آئی تو اس کے نتائج خطرناک ہو سکتے ہیں، پی ٹی آئی کے کارکنان کا جوش و خروش بھی دیدنی ہے تاہم افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ صرف ن لیگ بلکہ عالمی ذرائع ابلاغ بھی پری پول رگنگ کی نشان دہی کر چکے ہیں، عمومی طورپرعام انتخابات کے بعد اپوزیشن جماعتیں ایک خاصی تگ و دو کے بعد رگنگ کے الزمات لگانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں لیکن 70سال کی ملک کی انتخابی تاریخ میں آج کے انتخابات اس لحاظ سے پہلے ہیں جن کے انعقاد سے قبل ہی رگنگ کے الزامات جڑپکڑ چکے ہیں اس بنا پر یہ کہنا خاصا مشکل ہے کہ آج کی پولنگ کے نتیجہ میں ملک میں کوئی سیاسی ٹھہراؤ آپائے گا کہ نہیں۔ عام طور پر عام انتخابات سیاسی جوش و خروش کا ایک حتمی اظہار ہوتا ہے ۔ الیکشن ایک ایسا ’’کتھارس‘‘ ہوتا ہے جس کے بعد سیاسی ٹھہراؤ آجاتا ہے لیکن اس بار ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کے بعد ملک میں سیاست کا ایک نیا طوفان اٹھے گا۔ اس سیاست کا اسٹرنگ نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کے ہاتھ میں ہو گا خواہ وہ جیل میں ہوتے یا باہر، الیکشن کے بعد بھی سیاسی بے یقینی کے سائے ختم ہوتے نظر نہیں آرہے بعض غیر معمولی وجوہ کی بنا پر آج ہونے والے انتخابات پاکستان کی تاریخ کے اہم ترین انتخابات ہیں ،یہ پاکستان کی تاریخ کے شاید پہلے انتخابات ہیں جن میں کرپشن اور سول ملٹری تعلقات اہم ترین موضوعات بن کرابھرے ہیں ، بالخصوص پنجاب کو اسٹیبلیشمنٹ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے اور اسی صوبہ میں ن لیگ اینٹی اسٹیبلیشمنٹ کے طورپر سول ملٹری تعلقات میں سول بالا دستی کا مؤقف اختیار کئے ہوئے نظر آتی ہے ۔ اب دیکھنا ہے کہ پنجاب کے عوام دو اہم ترین نئے موضوعات کرپشن اور سول بالا دستی کے ایشوز کی کس طرح آج پذیرائی کرتے ہیں ، اگرچہ ن لیگ کا دعویٰ ہے کہ اسے اسکے حریف کی نسبت امتیازی رویہ کا نشانہ بنایا گیا اور انتخابی مہم میں یکساں فضا میسر نہیں ہوئی لیکن یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ن لیگ کو پی ٹی آئی پر پولنگ ڈے مینجمنٹ کی برتری حاصل ہے۔ ن لیگ نے پولنگ ڈے پر ہمیشہ مؤثر انداز میں اپنی اس صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے علاوہ ازیں لوکل باڈیز عہدیدار بھی اپنی بقاء کے لیئے ن لیگ کی کامیابی کے لیئے سر توڑ کوشش کریں گے۔ پنجاب میں جوڑ برابر ہے لیکن اس جماعت کو کامیابی ملے گی جس کا ووٹر اور سپورٹر باہر نکلے گا ۔ خواہ وہ غصہ اور ہمدردی میں باہر نکلے یا پھر کرپشن کے خاتمہ اور تبدیلی کے نعرے پر یہی فیکٹر اہم ترین ہو گا۔
طوفان امکان

مزید :

تجزیہ -