گرائمر کی تعلیم وتدریس

Jul 25, 2019

سکول کی سطح پر گرائمر پڑھاتے وقت اس بات کو مد نظر نہیں رکھا جاتا کہ یونیورسٹی کی سطح پر اس میں کن کن مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے۔اگر سکول کی سطح پر گرائمر پڑھاتے ہوئے یونیورسٹی سطح کے کورسز کے نصاب کو مد نظر رکھا جائے اور سکول سطح کی تدیرس پر ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر محسوس کیا جائے تو یونیورسٹی کی تدریس میں پیش آنے والے گرامر کے مسائل کو آسانی کے ساتھ حل کیا جاسکتا ہے۔اس لیے یہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ سکول اور یونیورسٹی سطح کی تدریس کو ایک دوسرے کے ساتھ کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے تاکہ ان مسائل پر قابو پایا جاسکے۔ زبان کو سمجھنے اور سیکھنے کے لیے قواعد اور املا کی اہمیت سے انکار کسی طور پر نہیں کیا جاسکتا ہے۔اس طرف سب سے پہلے مستشرقین نے توجہ دی کہ اردو سیکھنے کے لیے قواعد مرتب کیے جائیں۔اسی حوالے سے جان جوشوا کیٹلر وہ پہلے یورپی قواعد نویس ہیں جنھوں نے اردو لغت اور قواعد پر ۱۶۹۸ء میں ایک رسالہ لکھا۔انیسویں صدی تک اس حوالے سے بنجمن شلزے، جارج ہیڈلے،لیبیڈف اور جان گل کرسٹ کے نام خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ بنجمن شلزے نے ہندوستانی گرائمر مرتب کی۔
قواعد پر ہندوستان میں پہلی بار امانت اللہ شیدا نے ۱۸۰۶ء میں ایک رسالہ ”صرف اردو“ کے نام سے لکھا۔جس میں اردو کی قواعد کے ابتدائی اصولوں سے بحث کی گئی ہے۔یہ کتاب گرائمر، علم لسان، انشا، روزمرہ اور محاورہ کا احاطہ کرتی ہے۔بعض محققین اس حوالے سے انشاء اللہ خان انشا کو اولیت دیتے ہیں کہ وہ پہلے ہندوستانی ہیں جنھوں نے قواعد کے حوالے سے ۱۸۰۷ء میں دریائے لطافت لکھی۔یہ کتاب تیرہ سو سے زائد اشعار پر مشتمل ایک مثنوی کی صورت میں ہے۔جو کہ مسدس مخبون محذوف میں لکھی گئی ہے۔
قاعدے ہر زباں کے ہیں دو دو
صرف اور نحو کہتے ہیں ان کو
(صرف اردو)
قواعد میں صرف ونحو میں مہارت ہونا ضروری ہے اور صرف نحو صرف کالج یونیورسٹی سطح پر ہی نہیں پڑھائی جاتی بلکہ ابتدائی جماعتوں سے صرف ونحو کی تدریس شروع کر دی جاتی ہے۔تاکہ طلبہ وطالبات زبان کے قاعدوں اور اصولوں سے واقف ہوسکیں۔
ایم اے اردو میں قواعد کا پرچہ لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جاتا ہے اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب:
علم ہجا اور املا،(حروف تہجی،حروف تہجی کے ملاپ کا طریقہ،اعراب وحرکات ثلاثہ،جزم، تشدید، مد، تدوین،)
تشکیل الفاظ(مفرد سبق لاحقی، امتزاجی، تکیبی، تہنید)
صرف(اجزائے کلام:اسم ضمیر،صفت، فعل،تمیز فعل اور حروف کا تعارفی مطالعی، اسم خاص اور اسم عام، ضمیر کی قسموں کا تعارف،ضمیر شخصی کا تعارف، فعل کی اقسام،فعل لازم، فعل متعدی،فعل امر، فعل تمام وناتمام،مضارع، فعل حال،ماضی، مستقبل،،فعل معاون، فعل مرکب،
نحو(مرکب ناقص،مرکب تام یا جملہ) مرکب تام یا جملہ:اجزائے جملہ،جملہ اسمیہ، جملہ فعلیہ،مفرد جملہ،مرکب جملہ،اجزائے جملہ کی مطابقت،صحت کلام،وغیرہ
پڑھائے جاتے ہیں۔
یونیورسٹی کی سطح پر جب طالب علم ایم اے اردو میں داخلہ لیتے ہیں تو انھیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے بالخصوص انگریزی میڈیم کے پڑھے ہوئے بچے اردو لکھنے میں بہت سی گرائمر کی غلطیاں کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں املا اور تلفظ کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔جس کی ایک بڑی وجہ سکول کی سطح پر اردو کی تعلیم میں گرائمر کی تدریس پر عدم توجہ بھی ہوسکتی ہے اور اساتذہ کی گرائمر کی آسان تدریس سے ناآشنائی بھی۔
عموماً یہ ہوتا ہے کہ ایم اے اردو میں داخلہ لینے والے طلبہ وطالبات کا بی اے میں اردو کا مضمون نہیں ہوتا جس کی وجہ سے انھیں ایم اے اردو میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایک بار جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میں ایسا بھی کیا گیا کہ جو طلبہ بی اے میں اردو پڑھ کر آئے ہیں صرف انھیں کو ایم اے میں داخلہ دیا جائے۔ اب صورت حال یہ تھی کہ چالیس میں سے صرف تین طلبہ ایسے تھے کہ جنھوں نے بی اے میں اردو کا مضمون پڑھا ہوا تھا۔اس صورت حال کا سامنا کرنے کے بعد صاحبان اختیار نے صرف ان طلبہ کو داخلہ دینے کی سفارش کی جنھوں نے بی اے میں اردو یا عربی فارسی کے مضامین پڑھے تھے۔ یوں اٹھارہ سے بیس طلبہ وطالبات کو داخلہ دے دیا گیا۔ اس سے زیادہ کلاس نہیں بن سکی۔پھر اس کا حل یہی نکالا گیا کہ طلبہ نے چاہے بی اے میں اردو کا مضمون پڑھا ہے یا نہیں اسے ایم اے اردو میں داخلہ دے دیا جائے، یوں بہت سے ایسے طلبہ کو داخلہ دے دیا جاتا ہے جو کہ بی ایس سی کی ڈگری حاصل کرکے آتے ہیں۔یا جنھوں نے بی اے میں اردو کا مضمون نہیں پڑھا ہواہوتا۔
جہاں تک ایم اے اردو میں گرائمر کی تدریس کا پرچہ ہے تو اس میں بنیادی چیزیں وہی ہیں جو کہ ابتدائی کلاسوں میں طلبہ کو پڑھائی جاتی ہیں۔جیسا کہ صرف ونحو۔
جہاں تک املا کا تعلق ہے تو طلبہ وطالبات بہت سے ہم آواز الفاظ کے استعمال میں غلطی کرتے ہیں۔ یہ ہم آواز حروف جیسے
ا۔ع،ت،ط،ث،س،ص، ذ،ز،ژ،ض،ظ
ح،ہ،ھ،ق۔ک
جہاں تک املا کا تعلق ہے تو طلبہ کے اندر اس بات کی پرکھ موجود نہیں ہوتی کہ’ہ‘ کہاں لگانا ہے اور’ھ‘ یا ’ح‘ کہاں پر استعمال ہوگا۔زیادہ تر طلبہ انھیں کے بجائے انہیں لکھتے ہیں۔ تمھارا کے بجائے تمہارا لکھتے ہیں۔ز کی جگہ ذ اور ذ کی جگہ اکثر اوقات ز لکھ دیا جاتا ہے۔ز کی جگہ ض اور ظ بھی لکھا جاتا ہے۔جیسا کہ غیض وغضب کی جگہ غیظ وغضب لکھ دیا جاتا ہے۔
کارروائی کو اکثر کارروائی لکھ دیا جاتا ہے۔ آزادی کو آذادی لکھ دیا جاتا ہے۔
رموزاوقاف نہ ہونے کی وجہ سے بھی بعض اوقات طالب علموں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسا کہ ترجمہ کرنے والے کے لیے مترجم کے بجائے اکثر مترجّم بولا جاتا ہے یہ مترجم اور مترجّم کے درمیان فرق معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔
امدادی افعال سکول سطح پر بھی پڑھائے جاتے اور کالج کی سطح پر بھی مگر طالب علموں کو اس حوالے سے اکثر ابہام کا شکار ہی دیکھا۔
زبر،زیر، پیش، جزم،تشدید مد، ہمزہ وغیرہ کو غلط استعمال کیا جاتا ہے۔
انھوں کے بجائے انہوں لکھا جاتا ہے۔ اسی طرح تمھیں کے بجائے تمہیں لکھا جانا غلط ہے۔
علم بیان مثلاً تشبیہ، استعارہ اور مجاز مرسل، کنایہ سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے طلبہ کو کئی معاملات میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
صرف اور نحو کے فرق کا معلوم نہ ہونا۔کہ صرف میں الفاظ کے تغیر وتبدل کا مطالعہ کیاجاتا ہے۔اور نحو میں مختلف کلمات کے باہمی تعلق کا پتہ چلتا ہے۔یعنی ہم صرف میں الفاظ سے بحث کرتے ہیں جب کہ نحو میں جملوں سے۔
اسی طرح روزانہ فاعل اور اسم فاعل کا استعمال تو کرتے ہیں مگر طلبہ کو یہ نہیں معلوم ہوتا کہ فاعل اور اسم فاعل میں کیا فرق ہے۔طلبہ یہاں اس الجھن میں پڑجاتے ہین کہ فاعل چونکہ کام کرنے والا ہے اسی طرح اسم فاعل میں کام کرنے والے کا نام لکھ دیا جائے۔ جب کہ صورت حال ایسی نہیں ہے۔پڑھائی کرنے والا اگر ارشد ہے توہم لکھیں گے کہ ارشد نے پڑھا۔ یوں اس میں فاعل ارشد ہوگا جب کہ اسم فاعل میں ہم نام نہیں لکھیں گے بلکہ یہ لکھیں گے کہ پڑھنے والے نے پڑھا۔ اس میں پڑھنے والا اسم فاعل ہے۔ایم اے کی سطح پر اس حوالے سے طلبہ مسائل کا شکار رہتے ہیں کہ فاعل اور اسم فاعل میں کیا فرق ہے۔
فاعل اور اسم فاعل کے حوالے بسے بحث ساتویں اور آٹھویں جماعت کی اردو گرائمر میں بھی موجود ہے۔پہلی کلاس سے اس حوالے سے کام شروع کیا جائے تو طلبہ وطالبات کے لیے آسانی پیدا ہوسکتی ہے۔
اسم مشتق کی پانچ اقسام بتائی گئی ہیں جن میں
۱۔اسم فاعل ۲۔اسم مفعول ۳۔اسم حالیہ ۴۔اسم معاوضہ ۵۔اسم حاصل مصدر شامل ہیں۔
اسی طرح لفظ کی اقسام، اسم کی اقسام جیسا کہ اسم جامد، اور اسم جامد کی دواقسام اسم معرفہ اور اسم نکرہ
اسی طرح اسم نکرہ کی پانچ اقسام اسم ذات، اسم صفت، اسم استفہام، اسم عدد، اسم جنس،اسی طرح ان سب کی آگے مزید اقسام سکول سطح پر طلبہ وطالبات کو پڑھا دی جاتی ہیں مگر ایم اے تک ّآتے آتے وہ انھیں بھول جاتے ہیں اور انھیں بھولا ہوا سبق دوبارہ یاد دلانے میں کافی دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس میں ایک مسئلہ تو شاید اس لیے پیدا ہوتا ہے کہ سکول سطح پر بچوں کو سمجھانے کے بجائے انھیں رٹا لگوا دیا جاتا ہے اور پھر وہ یہ رٹا رٹایا سبق کچھ عرصے کے بعد بھول جاتے ہیں۔ہم پرائمری سطح پر بچوں کو رٹّو طوطا بنانے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہیں۔
اسی طرح سابقے، لاحقے، تذکیرو تانیث کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اسی طرح اسم ضمیر اور اس کی قسمیں بھی سکول کی سطح پر پڑھائی جاتی ہیں اور یہی نصاب پھر ایم اے اردو میں بھی پڑھایا جاتا ہے مگر طلبہ وطالبات کی الجھنیں کم نہیں ہوتیں اور انھیں اسم ضمیرکو سمجھنے میں کافی دقت کا سامنا رہتا ہے جس کی وجہ چھوٹی کلاسوں میں پڑھائے جانے والی گرائمر میں رہ جانے والی کمی ہے۔
اسم ضمیر سے طلبہ کو پتہ نہیں چلتا کہ کیا معنوی مفہوم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ضمیر اردو میں جن معنوں میں استعمال ہوتا ہے وہ اس سے بڑھ کر لوگوں کو نہیں معلوم کہ اس کا ضمیر زندہ ہے یا اس کا ضمیر مرچکا ہے۔جب بھی ایم اے کی سطح پر قواعد کے پرچہ جات چیک کرنے کا اتفاق ہوا تو ایسے مسائل کا سامنا رہتا ہے۔طلبہ وطالبات ضمیر کے زندہ ہونے پر زیادہ زور دیتے نظر آتے ہیں۔بہت سے طلبہ وطالبات عام لوگوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ ضمیر کسی نام کے بجائے وہ،یہ،اُن، اُس وغیرہ کے استعمال کو کہتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسم ضمیر کو کسی عام فہم اردو کے لفظ سے بدلا جائے یا اس کی تدریس کے لیے کوئی آسان طریقہ اختیار کیا جائے۔
بہت سے طلبہ وطالبات رموز اوقاف میں استفہامیہ!، خطابیہ!، اختتامیہ۔ کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتے۔ اُنھیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ خط کی علامت کہاں لگانی ہے، قوسین اور واوین کا استعمال کیسے کرنا ہے۔
جملہ بنانے میں بھی کئی طلبہ کو مسائل کا سامنا رہتا ہے اور وہ جملہ بناتے وقت فاعل، مفعول اور فعل کی موزوں ترتیب کو سامنے نہیں رکھ پاتے اور جملہ بناتے وقت فصیح جملہ بنانے سے قاصر رہتے ہیں۔جملہ بناتے وقت لفظوں کی ترتیب کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے جسے طلبہ وطالبات عموماً نظر انداز کردیتے ہیں۔یہ درست ہے کہ الفاظ کا مجموعہ جملہ کہلاتا ہے مگر الفاظ کے ہر مجموعے کو جملہ نہیں کہا جاسکتا۔
نئی اردو قواعد میں عصمت جاویدکے بقول الفاظ کے درج ذیل مجموعے کو دیکھیں:
الف)اوپر بیٹھا کے پیڑ ہے بندر
پیڑ ہے کے بیٹھا اوپر بندر
ہے پیڑ بیٹھا کے بندر اوپر
الفاظ کی اوپر والی ترتیب سے کوئی بامعنی بات بنتی نظر نہیں آتی
ب)۱۔بندر پیڑ کے اوپر بیٹھا ہے
۲۔پیڑ کے اوپر بندر بیٹھا ہے
۳۔اوپر پیڑ کے بندر بیٹھا ہے
۴۔بندر ہے بیٹھا پیڑ کے اوپر
۵۔پیڑ کے اوپر بندر ہے بیٹھا
۶۔بیٹھا ہے بندر، پیڑ کے اوپر
جملہ نمبر ۱، ۲ بامعنی جملے ہیں لیکن جملے نمبر ۳،۶ بھی بامعنی ہیں لیکن ان میں الفاظ کی وہ ترتیب نہیں ہے جو بول چال میں مستعمل ہے۔ بول چال کی ترتیب جملہ نمبر (۱)اور (۲) میں ملتی ہے۔ جب کہ ۴، ۵،۶ میں موزونیت ہے اس لیے انھیں جملے کے بجائے کسی حد تک مصرعے کے قریب سمجھا جاسکتا ہے۔
یعنی جملہ بناتے وقت الفاظ کی ترتیب وہی زیادہ مناسب ہوگی جوکہ عام بول چال کے مطابق ہوگی۔اس قسم کے بے شمار جملے ایم اے کی سطح پر طلبہ بناتے ہیں جو کہ عام بول چال کے قریب نہیں ہوتے۔اس کی بڑی وجہ انھیں جملہ سازی کے اصولوں سے ناواقفیت کا ہونا ہے۔
(املا کی درستگی کے حوالے سے
مضمون کی دوسری قسط اگلے شمارہ میں)

مزیدخبریں