ایک تلخ قومی حقیقت
پاکستان کے غریب لوگ موجودہ حالات میں جس طرح کی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں یہ ان کے لئے کوئی نئی بات نہیں۔جب بھی حکومت بدلتی ہے، ملک کو لوٹنے والے نئی حکومت کے خوف سے اپنا سرمایہ تیزی سے ملک سے باہر لے جاتے ہیں جس سے کرنسی کی گردش کم ہونے سے ہر طرف مندے کا عالم ہوجاتا ہے۔اقتدار حاصل کرلینے والے لوگوں کو کرپشن کے تمام ڈھنگ اور ملکی مفاد کا سودا کرنے کی تمام سہولتیں بہم پہنچا دی جاتی ہیں۔ بیرونی ممالک کے بنکوں اور خفیہ ایجنسیوں کے ایجنٹ کلیدی عہدوں پر فائز افراد سے مسلسل رابطے میں رہتے ہیں انہیں بیرونی بنکوں میں اپنی کمائی بالکل محفوظ ہونے ا ور بیرونی حکومتوں کی سرپرستی میں رہنے کا یقین دلا دیا جاتا ہے۔ بیرونی ایجنسیوں کا یہ نیٹ ورک اس قدر مضبوط اور خود ہمارے اپنے لوگوں کے ذریعے اس طرح کام کرتا ہے کہ اسے آج تک کسی بھی طرح ختم نہیں کیا جاسکا۔سارے ملک کو معلوم ہے کہ کسی بھی حکومت کی تبدیلی کے وقت مال و ولت، وسائل اور حکومتی مشینری میں اثر و رسوخ کے لحاظ سے جتنے طاقتور اور موثر پہلی حکومت والے ہوتے ہیں اتنا کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔
اسی لئے نئی حکومت کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس ٹولے کے لئے خوف یا پریشانی کی صورتحال پیدا کرنے کے بجائے اسے اپنے لوٹے ہوئے دھن کے ساتھ ملکی معیشت میں کام کرنے دیا جائے،تاکہ وہ اپنا سرمایہ لے کر ملک سے باہر نہ بھاگیں،لیکن موجودہ حکومت کی طرف سے پہلی بار کچھ دوسرا طریق کار اختیار کیا گیا ہے۔موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے معاملات طے کرنے میں کسی طرح بھی سابقہ حکومتوں کے مقابلے میں کمزور ی ظاہر نہیں کی۔البتہ اپنی پالیسیوں اور بجٹ میں پہلی بار اس بات کی گنجائش رکھی ہے کہ ملک مستقبل میں چند برسوں کے اندر اپنے قرضے ادا کرکے بھاری سود کی ادائیگی سے نجات حاصل کرلے۔قوم کے لئے یہ ایک کٹھن مرحلہ ہے،تاہم اس کے ساتھ ہی ساتھ ً پکڑو، جانے نہ پائے ً اور ً نہیں چھوڑوں گا ً والا رویہ بھی کرپٹ مافیا کے علاوہ عام سرمایہ کاروں کے ملک سے سرمایہ بھگا لے جانے کا سبب بن گیا ہے۔
ماہرین معیشت موجودہ حکومت کی مالیاتی پالیسیوں اور بجٹ کوموجودہ حالات میں بہترین پالیسیاں قرار دے رہے ہیں اور انہیں مستقبل میں قرضوں سے نجات پانے کی سمت میں اہم پیش رفت قرار دیا گیا ہے،لیکن حکومت کی طرف سے مخالف سیاستدانوں اور پہلے ادوار میں کرپشن کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والوں کو آنکھیں دکھانے اور ان کے معاشی عدم تعاون کے اثرات دور کرنے کے لئے ایک طرف اگر حکومت کو اپنی مجوزہ مجموعی پالیسیوں کے برعکس سرمایہ ملک میں لانے کے لئے ایمنسٹی پالیسی کا اعلان کرنا پڑا ہے تو دوسری طرف لوگوں کو ایف بی آر کے سامنے اپنے سرمایہ اور جائیداد ظاہر کرنے اور نئے لوگوں کو انکم ٹیکس نیٹ میں لانے کے اقدامات بھی کئے گئے ہیں -دوسری طرف میثاق معیشت کی بات،اور پلی بارگیننگ کی بات بھی چل رہی ہے، تاہم، موجودہ حالات کم آمدنی والے عوام کے لئے ایک عذاب سے کم نہیں۔جس دور میں سیاستدان یا انتظامی مشینری کرپشن کر رہی ہو اسی دور میں خودمختار اور مضبوط اینٹی کرپشن اداروں کو اس کا گلا دبا دینا چاہئیے۔۔
احتساب کا سارا عمل شفاف اور اس کے لئے تفتیشی اداروں پر کڑی نگرانی رکھے جانے کا انتظام بنیادی ضرورت ہے۔عوامی سطح پر تھانے کچہری اور انکم ٹیکس کے معاملات انتہائی شفاف اور اچھی کارکردگی کے مظہر ہوں اور ان اداروں کی کارکردگی ہی کو کسی حکومت کی کامیابی اور ناکامی کا معیار جانا جائے۔یہ سارا کچھ کیسے کیا جائے یہ سوچنااور پلان کرنا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے، تاہم اس کے لئے سیاسی جماعتوں کااپنے ہزاروں نہیں لاکھوں مخلص، دیانتدار اور مستعد کارکنوں کی تربیت کرکے انہیں میدان میں لانا ضروری ہوگا، ورنہ محکوں اور اداروں میں نیچے سے اوپر تک ہر کسی کا ایک دوسرے سے کرپشن کے معاملات میں گہرا تعاون و معاونت اورہر ادارے میں موجودمافیاصدیوں میں ختم نہیں ہوپائے گا۔میں اس موقعہ پر 30جون1987ء کے اس واقعہ کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جس نے میرے قلب و ذہن کو ہلا کر رکھ دیا۔یہ امریکہ سے تعلیم حاصل کرکے میری واپسی کا دن تھا۔ نیویارک ائیر پورٹ سے زیورخ او ر وہاں سے فلائٹ بدل کر کراچی پہنچنا تھا۔
نیویارک ائر پورٹ پر میری ملاقات ایک باوقار ایرانی شخصیت سے ہوئی۔باتیں شروع ہوئیں تو انہوں نے کہا: میں رضا شاہ پہلوی کی حکومت کے دوران ایران میں ایک بہت بڑے عہدے پر فائز تھا انہوں نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ میرا تعلق صحافت سے ہے اورمیں یونیورسٹی میں صحافت کا مضمون پڑھاتاہوں۔انہوں نے کہا : آپ سے درخواست ہے کہ آپ ازراہ کرم میری یہ بات اپنی قوم کو اور خاص کر اپنے ملک کے امراء تک ضرور پہنچا دیں کہ وہ اپنے ملک سے پیسہ نکال کر مغرب کے ان ملکوں میں ہر گز نہ لائیں۔ان کا یہ سارا پیسہ انہی ملکوں میں رہ جائے گا،،ان کو واپس ملنے کے بجائے بہانے بہانے سے ضبط ہوجائے گا۔پیسہ حاصل کرنے کے لئے ان بنکوں کے ایجنٹ آپ کو بہت سبز باغ دکھاتے ہیں، لیکن جب آپ کی دولت ان کے ہاں آجاتی ہے اور بالخصوص اپنے ملکی قوانین کے خلاف یہاں آجاتی ہے تو پھر آپ انہی کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ شاہ ایران کے زمانے میں ان کی شاہی فیملی اور ان کی حکومت کے سینکڑوں لوگوں کے کھربوں ڈالر سوئٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع تھے۔ ایران میں انقلابیوں کی حکومت آئی تو شاہ کا خاندان ملک سے باہر تھاسویٹزرلینڈ کے بنکوں میں جمع اپنے خاندان کی رقوم کا دعویدار باقی نہیں بچا۔
یہ سارا پیسہ یہیں رہ گیا۔میری بھی بہت بڑی رقم اس ملک کے بنکوں میں جمع ہے، میں ہر طرح کے کاغذات اورثبوت پیش کرچکا ہوں اب پانچویں بار اس ملک کا چکر لگا رہا ہوں، لیکن میری رقم واپس کرنے کے بجائے ان کے پاس ہر بار ایک نیا بہانہ ہوتا ہے۔ان کے ملک نے ہمارے سرمایہ سے بڑی بڑی کاروباری کارپوریشنیں بنالی ہیں جو دنیا بھر میں بزنس کررہی ہیں، میں سویٹزر لینڈ پہنچ کر ان کی ائیر پورٹ پر ا ن کی سوئس ائیر لائن کے سینکڑوں جہازوں کو دیکھتا ہوں تو میرے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، لیکن میں کچھ نہیں کرسکتا۔ہمارے ساتھ جو ہو چکا وہ ہوچکا۔آپ کم از کم اپنے امیروں تک میرا یہ پیغام ضرور پہنچائیں کہ وہ ا پنی رقوم اپنے وطن میں رکھیں، جہاں آپ کے تمام رشتہ دار، عزیز و اقارب اور قبیلے کے لوگ، اور سب اپنے ہیں۔اگر وہاں آپ کی تمام دولت ضبط بھی کر لی جائے تو اس میں دکھ کی کوئی بات نہیں ہوگی، یہ رقم آپ کی حکومت کے ذریعے آپ ہی کے غریب لوگوں پر خرچ ہوگی۔ اس طرح جو مکار قومیں آٖ پ کا خون چوس رہی ہیں آپ ان کو مضبوط نہیں کریں گے-یہ کہتے ہوئے ماضی کے ایران کی اس اہم شخصیت کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جو اس کے اندرونی کرب کو ظاہر کررہے تھے۔اس موقع پر میرے ذہن و قلب پر دکھ کے گہرے بادل چھا رہے تھے۔کاش ہمارے ملک سے لوٹے ہوئے کھربوں ڈالر ز بیرون جانے کا سلسلہ کبھی بند ہوسکے۔