آیا صوفیہ میں نماز، وہ ملک جہاں احتجاجا ترک پرچم جلادیے گئے لیکن پھر ترکی نے کیا کہا؟

آیا صوفیہ میں نماز، وہ ملک جہاں احتجاجا ترک پرچم جلادیے گئے لیکن پھر ترکی نے ...
آیا صوفیہ میں نماز، وہ ملک جہاں احتجاجا ترک پرچم جلادیے گئے لیکن پھر ترکی نے کیا کہا؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

استنبول(ڈیلی پاکستان آن لائن) آیا صوفیہ میں 86سال بعد نماز جمعہ ہوئی تو جہاں دنیا بھرکے مسلمانوں نے خوشی کااظہارکیاوہیں اسلام دشمن عناصر نے بھی اپنی اصلیت دکھائی۔

برطانوی خبرایجنسی رائٹرز کے مطابق  آیا صوفیہ میں نو عشروں کے بعد نماز جمعہ کی ادائیگی پر یونان کی جانب سے مذ٘مت کا سلسلہ جاری ہے، یونانی حکام کی جانب سے ترک حکومت کے فیصلے پر تنقید کی گئی جب کہ یونان کے ایک شہر دیزالونکی میں ترک پرچم جلانے کے لیے مظاہرہ کیاگیا۔

یونان کے اس طرز عمل پر ترکی نے برہمی کااظہارکیاہے، ترک وزارت خارجہ کے ترجمان حامی اکسوئے نے یونانی بیانات کو مسترد کرتے ہوئے ایک تحریری بیان میں کہا ہے کہ " یونان نے ایک بار پھر اسلام اور ترکی سے اپنی دشمنی ظاہر کردی ہے۔

آیا صوفیہ کے معاملے پر ترکی اور یونان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ گزشتہ کچھ عرصے سے جاری تھااور اب دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ یونانی وزیراعظم نے یونان میں جمہوریت کی 46ویں سالگرہ پر جاری پیغام میں ترکی کو مشکلات پیدا کرنے والا قراردیا ہے۔

ترک وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ یونان کی جانب سے جاری کردہ   بیانات اور اراکین پارلیمنٹ کی جانب سے ترکی کے پرچم جلانے جیسے  دشمن عزائم کو سختی سے مسترد کرتے ہیں۔

خیال رہے  گزشتہ روز  ترکی کے شہر استنبول کی تاریخی آیا صوفیہ مسجد میں  86 برس بعد پہلی نماز ادا کی جائے گی، اس مسجد کو جدید ترکی کے بانی مصطفیٰ کمال پاشا نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا ۔

 ترک صدر رجب طیب ایردوآن سمیت شہریوں کی بڑی تعداد نے نماز ادا کی۔ خطبہ جمعہ اور دعا کے دوران‌ روح‌ پرور مناظر دیکھے گئے جبکہ ترک وزیر مذہبی امور پروفیسر ڈاکٹر علی ایریاش نے خطبہ جمعہ تلوار تھام کر دیا۔

یاد رہے کہ ترک عدالت نے 11 جولائی کو آیا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دی تھی جس کے بعد ترک صدر رجب طیب ایردوان نے عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی منظوری دی تھی۔ آیا صوفیہ عمارت کو 1934 میں مصطفیٰ کمال اتاترک نے میوزیم میں تبدیل کردیا تھا، اس سے قبل مذکورہ عمارت سلطنت عثمانیہ کے قیام سے مسجد میں تبدیل کی گئی تھی۔

استنبول میں واقع تاریخی عمارت 1453 سے قبل 900ء سال تک بازنطینی چرچ تھی اور کہا جاتا ہے کہ مذکورہ عمارت کو سلطنت عثمانیہ کے بادشاہوں نے پیسوں کے عوض خرید کر مسجد میں تبدیل کیا تھا۔ مگر پھر جنگ عظیم اول کے خاتمے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے بکھرنے اور جدید سیکولر ترکی کے قیام کے بعد مصطفیٰ کمال اتاترک نے مسجد کو 1934ء میں میوزیم میں تبدیل کردیا تھا۔

چرچ سے مسجد اور پھر میوزیم کے بعد دوبارہ مسجد میں تبدیل ہونے والی عمارت میں 24 جولائی کو 86 سال بعد نہ صرف نماز جمعہ ادا کی گئی بلکہ اسی دن عمارت میں تقریبا 9 دہائیوں بعد اذان بھی دی گئی۔

اس موقع پر 18 ہزار پولیس اہلکاروں کو سیکورٹی پر مامور کیا گیا جبکہ 800 ڈاکٹرز اور 110 ایمبولینسز طبی سہولیات کی فراہمی کے لیے تعینات رہے۔ ترکی کے 3 امام اور 5 موذن کو خطے اور اذان کی ادائیگی کا شرف حاصل ہوا۔