کیا آپ کو معلوم ہے ٹوپی کے اوپر یہ گولا سا کیوں ہوتا ہے؟ اکثر کپڑوں کے ساتھ آپ کو یہ چھوٹا سا کپڑے کا پیس کیوں دیا جاتا ہے؟ جانئے وہ باتیں جو آپ کو آج تک کسی نے نہیں بتائیں

کیا آپ کو معلوم ہے ٹوپی کے اوپر یہ گولا سا کیوں ہوتا ہے؟ اکثر کپڑوں کے ساتھ آپ ...
کیا آپ کو معلوم ہے ٹوپی کے اوپر یہ گولا سا کیوں ہوتا ہے؟ اکثر کپڑوں کے ساتھ آپ کو یہ چھوٹا سا کپڑے کا پیس کیوں دیا جاتا ہے؟ جانئے وہ باتیں جو آپ کو آج تک کسی نے نہیں بتائیں

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) روزمرہ زندگی میں ہم بہت سی ایسی چیزیں دیکھتے ہیں، جن کا بظاہر کوئی مصرف نہیں ہوتا اور ہم انہیں غیرضروری خیال کرتے ہیں، تاہم ہمارا خیال اکثر چیزوں کے بارے میں غلط ہوتا ہے۔ برطانوی اخبار میل آن لائن نے اپنی ایک رپورٹ میں کچھ ایسی ہی ’بظاہر غیرضروری‘ چیزیں اور ان کے مصرف بیان کیے ہیں کہ پڑھ کر آپ حیران رہ جائیں گے۔ ان میں سے پہلی چیز سر پر پہننے والی بعض ٹوپیوں کے اوپر لگا پھندنا ہے، جس کے متعلق ہم زیادہ سے زیادہ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ فیشن کی وجہ سے لگایا جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹوپیوں کے اوپر پھندنا اس لیے لگانا شروع کیا گیا تھا کیونکہ بحری جہازوں میں جب خراب موسم کے باعث لہریں اٹھتی اور جہاز اوپر نیچے ہچکولے لیتا تو کپتانوں اور دیگر عملے کے سر چھت سے ٹکرا کر زخمی ہو جاتے تھے۔ ابتدائی طور پر ان جہازوں کے کپتانوں کی ٹوپیوں پر پھندنے لگانے شروع کیے گئے تاکہ یہ ان کے سر کو زخمی ہونے سے بچائیں۔
دوسری چیز پینٹ کی جیب کے اوپر لگا ایک بڑا سا بٹن ہے، جس کا بظاہر کوئی مصرف نظر نہیں آتا۔ دراصل اس بٹن کا مقصد اس جگہ سے کپڑے کو پھٹنے سے بچانا ہوتا ہے۔ کاپیاں یا دستے تو ہر کسی نے استعمال کر رکھے ہوں گے اور آپ جانتے ہوں کہ ان کے اطراف میں حاشیے کی ایک لکیر لگی ہوتی ہے ہم جس کے اندر لکھتے ہیں۔ آخر کاغذ کے ایک یا دونوں طرف حاشیہ لگا کر خالی جگہ چھوڑنے اور کاغذ ضائع کرنے کی کیا منطق ہو سکتی ہے؟ اس کے پیچھے راز یہ ہے کہ یہ حاشیے تحریر کو چوہوں سے بچانے کے لیے لگانے شروع کیے گئے تھے۔ پہلے لوگ پورے کاغذ پر ہی لکھتے تھے اور الماریوں میں پڑی کاپیوں کے کنارے چوہے کتر جاتے تھے جس سے تحریر ضائع ہو جاتی تھی۔ اس صورتحال سے بچنے کے لیے حاشیے لگانے شروع کیے گئے تاکہ چوہوں کی طرف سے کاغذ کے کنارے کترنے کے باوجود تحریر محفوظ رہے۔
تالوں کے نیچے چابی کے سوراخ کے ساتھ ایک چھوٹا سا سوراخ ہوتا ہے۔ اس سوراخ کے دو مصرف ہیں۔ ایک اگر تالے میں پانی چلا جائے تو وہ اس سوراخ سے باہر نکل جاتا ہے اور دوسرا اس سوراخ سے تالے کو تیل دیا جاتا ہے تاکہ وہ جام نہ ہونے پائے۔ہینز کیچپ کی بوتلوں پر آپ نے دیکھا ہو گا کہ ایک جگہ 57کا عدد کندہ کیا ہوتا ہے۔ لوگ اس کا مطلب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن درحقیقت یہ بوتل پر ایک نشان کی صورت لکھا جاتا ہے جہاں سے آپ بوتل کو دبا کر آسانی سے کیچپ نکال سکتے ہیں۔ہمیںکئی طرح کے کپڑوں کے ساتھ اسی کپڑے کا ایک ٹکڑا دیا جاتا ہے جسے لوگ سردست ہی فالتو سمجھ کر پھینک دیتے ہیں۔ اس کپڑے کا مقصد بھی اپنے کے نئے لباس کو دھوتے وقت سکڑنے اور خراب ہونے سے بچانا ہے۔ دراصل یہ کپڑا اس لیے دیا جاتا ہے تاکہ آپ اپنا لباس دھونے کی بجائے اس ڈیٹرجنٹ اور پانی کے درجہ حرارت کو کپڑے کے اس ٹکڑے پر ٹیسٹ کر لیں اور اپنے لباس کو خراب ہونے سے بچا لیں۔
جینز کی پینٹ میں ایک چھوٹی سی جیب بھی ہوتی ہے جو بظاہر بے کار نظر آتی ہے۔ دراصل یہ جیب ماضی میں مغربی و یورپی گڈریوں کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے بنائی گئی تھی تاکہ وہ اپنی گھڑی اس جیب میں رکھ سکیں۔ گھڑی چونکہ بار بار نکالنی پڑتی ہے چنانچہ اس کے لیے چھوٹی جیب بنادی گئی کہ آسانی کے ساتھ چرواہے اس سے گھڑی نکال کر وقت دیکھ سکیں۔ آج ان جیبی گھڑیوں کا زمانہ تو نہیں رہا مگر جینز کی پینٹ میں اس چھوٹی جیب کی روایت آج بھی چلتی آ رہی ہے۔ فرائی پین اور دیگر ایسے برتنوں کے دستے کے سرے پر ایک سوراخ بنایا جاتا ہے۔ اس سوراخ کا مقصد یہ ہے کہ آپ کھانا بناتے ہوئے پین میں ہلانے والا چمچ اس سوراخ میں ٹکا کر رکھ سکتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ پنسل کی کیپ کے اوپری سرے میں عموماً سوراخ ہوتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ان سوراخوں کی وجہ سے پنسل کی سیاہی خشک نہیں ہوتی مگر یہ خیال غلط ہے۔ دراصل یہ سوراخ اس لیے بنائے گئے ہیں کہ کوئی بچہ اگر غلطی سے کیپ نگل لے اور یہ جا کر اس کے گلے میں پھنس جائے تو اس کا سانس بند نہ ہو اور وہ طبی امداد ملنے تک ان سوراخوں سے سانس لیتا رہے۔ آپ نے شاید غور نہ کیا ہو مگر گاڑی کے میٹر میں واقع فیول گیج پر پٹرول پمپ کی مشین کے شبیہ کے ساتھ ایک تکون بنی ہوتی ہے۔ اس تکون کا مقصد یہ بتا نا ہے کہ آپ کو پٹرول ڈلوانے کے لیے گاڑی کس طرح کھڑی کرنی ہے۔ جس طرف اس تکون کا سرا ہو اس طرف ہی پٹرول ٹینک ہوتا ہے۔

مزید :

ڈیلی بائیٹس -