عوام کی توقعات اور حکومت!

عوام کی توقعات اور حکومت!
عوام کی توقعات اور حکومت!
کیپشن: bugdet

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


بجٹ ایک بار پھر صرف الفاظ کا گورکھ دھندا ثابت ہوا اور اس سے عوام کو براہِ راست کوئی ریلیف نہیں ملا۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑے حجم، یعنی 40کھرب کا بجٹ بھی عوام کو کچھ نہیں دے سکا،بلکہ صورتِ حال یہ ہے کہ مہنگائی کے طوفان نے غریب عوام کی چیخیں نکال دی ہیں ۔ ضروریاتِ زندگی خصوصاً بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو گیا ہے ۔ تمام اشیاء کی قیمتیں 50تا 80فیصدتک بڑھ گئی ہیں ۔ گزشتہ ایک سال سے عوام سہانے سپنوں کے پورا ہونے کا انتظار کر رہے ہیں، لیکن افسوس کہ بجٹ کے بعد ان کے یہ خوا ب بھی بکھر گئے ۔سیاست دانوں کی لچھے دار تقریروں، نمائشی منشور اور انقلابی اقدامات کے نعروں سے عوام سیاست دانوں کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ سیاست دان اپنی الیکشن مہم کے دوران عوام کے ہر دکھ درد کی دوا جمہوریت کو قرار دیتے ہیں، جبکہ ان کے منشور میں عوام کے تمام مسائل کا حل موجود ہوتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد سنہرے دور کا آغاز ہو گا۔ مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور دہشت گردی ختم ہو جائے گی اور ملک میں ہر طرف امن ، خوشحالی اور ترقی کا دور ہو گا۔ افسوس کہ ’’سیاست دان‘‘ پاکستان کے مظلوم عوام کے ساتھ مسلسل یہی کھیل کھیل رہے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام آج بھی مہنگائی ، بیروزگاری اور ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں ۔ ملک میں دو کروڑ سے زائد نوجوان بیروزگار ہیں، 70فیصدعوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے، 50فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ملک میں 2کروڑ بچے بمشکل پرائمری تک تعلیم حاسل کر پاتے ہیں۔
مہنگائی کی شرح میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے لوگوں کا جینا دو بھر ہو چکا ہے، صرف دال اور سبزی سے روٹی کھانے اور پانی ، بجلی ، گیس اور دیگر اخراجات کی مد میں 5افراد پر مشتمل ایک خاندان کا کم از کم ماہانہ خرچ 25ہزار روپے ہے، مزدور کی کم ازکم تنخواہ 12ہزار روپے مقرر کی گئی ہے، جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں مزدور 6ہزار روپے ماہانہ پر8گھنٹے نوکری کرنے پر مجبور ہے۔ ہر گھر میں غربت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ملک بھر میں درجنوں افراد بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر خود کشیاں کر رہے ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو بھوک سے بلکتا دیکھنے کی بجائے ان کا گلا گھونٹ کر یا زہر دے کر موت کے حوالے کر دیتی ہیں ۔ 


افسوس کہ ایک سال گزر جانے کے باوجود غریب کی حالت نہیں بدلی، بیروزگاری ختم نہیں ہو سکی، عوام کرپشن کے عفریت سے نجات حاصل نہیں کر سکے، جبکہ ان کے جان و مال اور عزت و آبرو کے تحفظ کے لئے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اُٹھایا گیا ۔ اگر یہی صورتِ حال برقرار رہی تو عوام کا جمہوریت پر اعتماد برقرار رکھنا محال، بلکہ ناممکن ہو جائے گا۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکمران اپنے وعدوں کی پاسداری کریں۔ انہوں نے عوام کو الیکشن میں جو خواب دکھائے اور جو وعدے کئے تھے، آج ان وعدوں پر عمل درآمد کا وقت ہے، لوڈشیڈنگ، مہنگائی، بیروزگاری اور لاقانونیت سے تنگ آئے ہوئے عوام اب مزید مصائب و آلام برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے۔ 
’’عوام ‘‘عزت ،سُکھ کی روٹی ، جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ چاہتے ہیں ۔ بے روزگار نوجوان باعزت روزگار چاہتے ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں نے پوری دنیا میں ہر میدان میں اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ہے۔ ہمارے نوجوانوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اور نہ ہی ہماری خواتین کسی سے پیچھے ہیں، مگر افسوس کے کینسر زدہ استحصالی نظام ، وراثتی خاندانی جمہوریت ، جاگیرداروں ، وڈیروں اور سرداروں کے مفادات کا تحفظ کرنے والے ’’نام نہاد جمہوری نظام‘‘ نے نوجوانوں کی صلاحیتوں کے آگے کرپشن اور اقربا ء پروری کے بند باندھ رکھے ہیں، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم نے نوجوان نسل میں بغاوت اور غصہ پیدا کر دیا ہے ۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو حقیقی اسلامی، فلاحی اور جمہوری ریاست بنانے کے لئے حکمران خلفائے راشدین کے طرزِ حکومت کا مطالعہ کریں: جب حکمران سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی طرح خود کو رعایا کے آگے جواب دہ سمجھیں گے ، جب پاکستان پر حکمرانی کرنے والے حضرت سیدنا فاروقِ اعظمؓ کی طرح یہ ذمہ داری قبول کریں گے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا، تو خلیفہ وقت کو میدانِ حشر میں رب تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا اور جب خلیفتہ المسلمین حضرت سیدنا عثمان غنیؓ کی تقلید کرتے ہوئے کہ جنہوں نے بطورِ خلیفہ اپنی تمام دولت مسلمانوں کی فلاح و بہبو د کے لئے وقف کر دی اور انہیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مسجدِ نبویؐ کی صفوں پر بیٹھ کر اسلامی ریاست کا بہترین بجٹ پیش کیا، جب وی وی آئی پی پروٹوکول لینے والے حکمران خلیفتہ المسلمین امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرح’’ جَو ‘‘کی روٹی کو اپنے اوپر حلال قرار دیں گے کہ جب تک ان کی رعایا کے غریب ترین فرد کو اچھا کھانا میسر نہیں آ جاتا۔

مزید :

کالم -