ترکی کا سفر اور دلربا تجربات!
استنبول ائیرپورٹ پر میں نے ایک ترک نوجوان سے جو کسی پرائیویٹ فرم کے کاؤنٹر پر بیٹھا تھا، معلومات حاصل کرنا چاہیں۔ جب اس نے نجم الدین اربکان رحمہ اللہ کا نام مجھ سے سنا تو عقیدت سے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ ایک عام ٹیکسی ہائرنگ فرم کا نمایندہ تھا جس سے میں نے کانفرنس کے بارے میں راہ نمائی طلب کی۔ اس نے کہا کہ اگر کوئی رابطہ نمبر ہوتو وہ رابطہ کرادے گا۔ چنانچہ اسی نے منتظمین کو اطلاع دی اور چند ہی دقیقوں میں ایک چاق وچوبند نوجوان طالب علم ایک ائیرکنڈیشنڈ گاڑی اور ڈرائیور کے ساتھ اس مقام پر آگیا جہاں میں انتظار میں کھڑا تھا۔ یہ بوسنیا کا رہنے والا مسلم نوجوان یاسر تھا اور ترکی میں پی ایچ ڈی کررہا تھا۔ جس ترک نوجوان سے میں نے راہ نمائی طلب کی تھی، وہ اربکان صاحب کا بار بار تذکرہ کررہا تھا۔ دوسرے جس لیڈر کا اس نے عقیدت ومحبت سے تذکرہ کیا وہ ترکی کا شہید وزیراعظم عدنان میندریس تھا۔ جب میں یاسر کے ساتھ جانے لگا تو اس ترک نوجوان نے مجھے بار بار کہا کہ میرے حق میں دعا کرنا۔ میں نے اسے پرخلوص دعائیں دیں، اس سے ہاتھ ملایا اور ہولیڈے ان ہوٹل کی طرف یاسر کے ساتھ روانہ ہوگیا۔
تمام مندوبین کا قیام ہولیڈے ان ہوٹل میں تھا، جو ائیرپورٹ سے زیادہ دور نہیں۔ یہاں بہت سے واقف کار مل گئے۔عبدالرشید ترابی صاحب امیر جماعت اسلامی آزاد جموں وکشمیربھی آچکے تھے اور اوپر کی کسی منزل میں اپنے کمرے میں آرام فرمارہے تھے۔ ان کے ساتھی برادرم خالد محمود اور طاہر صاحب استقبالیہ پر ملے۔ خالد محمود صاحب نے میرا بیگ پکڑ لیا۔ پھر ہوٹل کے کاؤنٹر سے کمرے کا نمبر معلوم کیا، برقی چابی لی اور میرے ساتھ روم نمبر308 میں پہنچے۔ ہوٹل کی کل گیارہ منزلیں ہیں اور بیشتر لوگ اوپر کی منزلوں میں ٹھہرائے گئے تھے۔ یاسر نے بتایا تھا کہ ہم سب کو نماز کے بعد بسوں کے ذریعے فلوریہ پارک کے ایک ریستوران میں ظہرانے کے لیے جانا ہوگا۔ فلوریہ پارک کبھی اوباش اور آوارہ گرد لوگوں کی آماجگاہ ہوا کرتا تھا۔ اب بلدیہ استنبول نے اس کا ماحول بہت سنوار دیا ہے۔ ہر چیز صاف ستھری، سیکڑوں ایکڑ میں پھیلا ہوا یہ پارک اپنے اندر کئی ریستوران، کمیونٹی سنٹرز اور سپورٹس گراؤنڈ رکھتا ہے۔ ساتھ ہی خوب صورت بیچ (Beach) ہے۔
ہمارے میزبان عصام کے چیئرمین جناب رجائی قطان تھے۔ انھوں نے ریستوران میں سب کا استقبال کیا اور نہایت محبت اور تپاک سے گلے ملے۔ تاہم ظہرانے میں انھوں نے کوئی استقبالیہ خطاب نہیں کیا۔ ترک کھانوں کے ساتھ لسی نے بڑا لطف دیا۔ عرب، افریقی، ایشیائی اور یورپی ممالک ہرخطے سے مندوبین کی بڑی تعداد سے ملاقاتوں کا موقع ملا۔ کئی مندوبین اپنی بیگمات کے ساتھ اور بعض اپنے چھوٹے بچوں کے ساتھ شریک تھے۔ آمدورفت کا خرچ مندوبین کے اپنے ذمے تھا جبکہ ترکی کا قیام اور مقامی سفر اور خوردونوش کے اخراجات منتظمین نے مہیا کیے۔ ظہرانے کے بعد واپس ہوٹل پہنچے، تھکاوٹ بہت ہوچکی تھی۔ ظہراور عصر کی نمازیں تمام مسافروں نے جمع کیں۔ پھر اپنے اپنے کمروں میں جاکر محو استراحت ہوگئے۔ آج کا دن فارغ تھا اس لیے باہمی ملاقاتوں کے لیے رات گئے تک کافی وقت میسر تھا۔ رات کو مغرب وعشاء کی نماز کے بعد دوبارہ عشائیہ کے لیے اسی ریستوران میں جانا تھا جہاں دن کو ظہرانہ تھا۔ ائیرکنڈیشنڈ بسوں کے ذریعے سے منزل مقصود پر پہنچے تو ظہرانے سے کہیں زیادہ گہماگہمی اور رونق تھی۔
ترکی واقعتا اعلیٰ ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوگیا ہے۔ استبول ائیرپورٹ سے ہر منٹ کے بعد ایک ہوائی جہاز پرواز کرتا ہوا کانفرنس کے شرکا نے پہلے دن ظہرانے اور عشائیے کے دوران بچشم خود دیکھا۔ چونکہ ظہرانہ اور عشائیہ فلوریہ پارک میں رکھا گیا تھا، اس کے بالکل قریب استنبول انٹرنیشنل ائیرپورٹ ہے۔ ہر منٹ کے بعد ایک جہاز کی پرواز اس لیے بھی زیادہ محسوس ہوئی کہ لاؤڈسپیکر پر رجائی قطان مہمانوں کے اعزاز میں استقبالیہ خطاب فرما رہے تھے۔ اگرچہ جہازوں کی آمدورفت اور گھن گرج سے ایک جانب خطاب میں خلل واقع ہورہا تھا مگر دوسری جانب مسرت بھی دل ودماغ میں موجزن تھی کہ کم از کم عالم اسلام کا ایک ائیرپورٹ تو ایسا ہے جو لندن کے ہیتھرو، نیویارک کے جے ایف کے اور جاپان وچین کے ٹوکیو وبیجنگ ہوائی اڈوں کا مماثل شمار ہوسکتا ہے۔ سنا ہے کہ انقرہ ائیرپورٹ کی بھی ایسی ہی کارکردگی ہے۔ اپنی قومی ائیرلائن پی آئی اے کی یاد آئی تو دل اداس ہوگیا۔ کہاں آج سے تیس سال قبل یہ دنیا کی 10ٹاپ ایئرلائنز میں شمار ہوتی تھی، کہاں یہ آج محض تاریخ کا قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ ہماری مقامی اور انٹرنیشنل پروازوں میں ترک ائیرلائن کے طیارے استعمال ہورہے ہیں۔
عشائیے کے بعد رجائی قطان صاحب نے جو خطاب فرمایا وہ واقعی بڑا پرمغز اور ایمان افروز تھا۔ انھوں نے فرمایا کہ سلطان محمد فاتح ترکوں کا نہیں پوری امت مسلمہ کا ہیرو اور سپوت ہے۔ اس کے ساتھ فتح قسطنطنیہ میں ترکوں کے علاوہ دیگر ممالک اور اقوام کے لوگ بھی شریکِ جہاد تھے۔ جب یہ شہر فتح ہوا تو اس کا نام اسلام بول رکھا گیا۔ یہ شہر بھی پوری ملت اسلامیہ کا ہے۔ ترکوں کی طرح دیگر مسلمان بھی اسے اپنا شہر سمجھیں۔ یہاں کسی کو اجنبیت محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ سلطان محمد فاتح نے جس طرح استنبول کو فتح کیا اور جو کٹھن معرکے اپنی بہادری، دانش مندی، جنگی حکمت عملی اور عزم جواں کے ساتھ جیتے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ہر طالب علم اس سے واقف ہے۔ ایک اہم بات یہ ہے کہ آج مسلم نوجوان بے یقینی کا شکار ہے۔ مسلمان نوجوانوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سلطان محمد فاتح نے 21سال کی عمر میں یہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ قسطنطنیہ کو فتح کرنے کے لیے خلافت راشدہ کے دور میں بھی جہاد ہوتا رہا، کیونکہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے قسطنطنیہ فتح کرنے والی فوج، اس کے سپہ سالار اور ہر سپاہی کو جنت کی بشارت دی تھی۔ حضرت ابوایوب انصاریؓ کی قبر اس شہر میں ایک یادگار اور ترکی کے لیے باعثِ فخر ہے۔
ہمارے عظیم راہنما انجینئرنجم الدین اربکانؒ نے آج سے 23سال پہلے یوم سلطان محمد فاتح منانے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس عظیم راہنما نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس تاریخی کانفرنس میں اکٹھا کرنے اور اپنے ملی مسائل پر یکساں سوچ اپنانے کا یہ مبارک کام کیا۔ اللہ کا شکر ہے کہ عصام اور سعادت پارٹی نے اپنے عظیم راہنما کی اس روایت کو زندہ رکھا ہے اور ان شاء اللہ آنے والی نسلوں تک یہ قائم رہے گی۔ ہم دل کی گہرائیوں سے اپنے تمام معزز مہمانوں، خواتین وحضرات اور بچوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ کسی اجنبی سرزمین پر نہیں ہیں، یہ آپ کا اپنا ملک ہے۔ آپ کے اور ہمارے درمیان اخوت اسلامی کا مضبوط رشتہ قائم ہے۔ میری دعا ہے کہ آپ کا قیام ترکی آپ کے لیے خیروبرکت اور مسرت وخوشحالی کا باعث ہو۔ تمام مہمانوں کی طرف سے میزبان کے جذبات پر اظہار تشکر کے لیے تیونس کی اسلامی پارٹی النہضہ کے راہنما جناب شیخ عبدالفتاح مورو کو منتخب کیا گیا۔ (باقی آئندہ)