فضا سوگوار،دہشت گردی کا خاتمہ کیسے؟
تہوار کے مطابق لکھنا تو عید مبارک کے حوالے سے تھا،لیکن ہمارے بدترین خدشات ہی کے مطابق دہشت گردوں نے اپنا وار کیا اور بیک وقت تین صوبوں میں انسانوں کو خون میں نہلا دیا، پورا مُلک سوگوار ہو گیا،لیکن یہ بھی انسانی جبلت ہی ہے کہ کوئٹہ، پارا چنار اور کراچی پولیس تو شہدا کی تدفین اور زخمیوں کی دیکھ بھال میں مصروف ہوئی، متاثرین پیاروں کی یاد میں آنسو بہاتے اور دہشت گردوں کو ملامت کرتے رہے، مُلک کے دوسرے شہروں اور حصوں میں فضا متاثر ہوئی۔ شہریوں اور عوام نے دُکھی دِل کے ساتھ بات کی،لیکن پھر وہی رات دن والی بات کہ بازاروں میں عید ہی کا رنگ تھا۔
ابھی گزشتہ روز ہی عرض کیا تھا کہ جو کارروائی جہاں ہو رہی اسے ہونے دیں، آئینی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنے دیں، اگر قانون کو آواز دی ہے تو پھر عمل بھی چلنے دیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ فریقین کی پسند کے مطابق فیصلہ ہو، یہ بھی ایک کھیل کی طرح ہے کہ دونوں میں سے ایک فریق نے تو ہارنا ہی ہے اس دوران جو دھول اڑ رہی ہے وہ افسوسناک ہے اور اب تو عدلیہ کو بھی اپنے وقار کا لحاظ رکھنا ہے۔ تبھی تو فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ جو چھپتا ہے، چھپتا رہے اور نشر ہونے والا مواد نشر ہوتارہے، بنچ متاثر نہیں ہو گی اور فیصلہ قانون کے مطابق ہو گا یہ خوش آئند ہے اور بھروسہ کرنا چاہئے کہ یقیناًایسا ہو گا اور فاضل عدلیہ کو بھی تمام اعتراضات کا خیال ہے، بہرحال ایک بار پھر گزارش کر لیتے ہیں کہ عدالتی کارروائی کی میڈیا میں رپورٹنگ بھی قانون اور اصول کے مطابق ہو اور فریقین کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی وقار محلوظ خاطر رکھنا ہو گا۔
بات کوئٹہ، پارا چنار اور کراچی میں ہونے والی دہشت گردی کی تھی۔ ایک بات تو پھر سے ثابت ہوئی کہ وارداتوں کے ملزم مسلمان تو کجا انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں ہیں کہ دین متین کے ماننے والا تو جانتا ہے کہ بے گناہ مسلمان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور یقیناًجو کچھ کیا گیا اور یہ جہاد تو کسی بھی صورت نہیں ہے، ان وارداتوں نے ذہنی رو بھٹکا دی ہے،خیال آتا ہے کہ ابھی ایک روز قبل ہی تو بھارتی جاسوس کلبھوشن کے اقبالی بیان کی دوسری ویڈیو وائرل ہوئی اور اگلے روز یہ وارداتیں ہو گئیں، بلا لحاظ فوری خیال اسی طرف جاتا ہے کہ بھارتی ایجنسی ’’را‘‘ کا تفصیلی ذکر آیا تو اگلے ہی روز یہ سب ہو گیا، کیا یہ ثابت کرنے کے لئے ہے؟ کہ ’’ہم ہیں‘‘۔
دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں یہ پہلی بار نہیں کہ عام شہریوں کے ساتھ ساتھ محافظ اداروں کے لوگوں نے بھی جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ پولیس فوج، رینجرز اور فرنٹیئر فورس جیسی سیکیورٹی فورسز نے بھی بے بہا قربانیاں دی ہیں اور اب تک ہزاروں افراد دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، ہماری مسلح افواج نے سوات آپریشن کے بعد آپریشن ضربِ عضب اور اب آپریشن ردّالفساد سے دہشت گردوں سے سب علاقے واگزار کرا کے ان کو مار بھگایا ہے اور بلاشبہ یہ بذاتِ خود ایک بڑا کارنامہ ہے،لیکن مُلک کے اندر ہونے والی وارداتوں سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کے ’’سلیپر سیل‘‘ تو دور کی بات سراغ بھی بہت کم ملا ہے۔ یوں بھی ہمارے اپنے شہروں اور دیہات میں سادہ لو ح انسانوں کی کمی نہیں، جو ان دہشت گردوں کے پروپیگنڈے سے متاثر ہیں اور ان کو صحیح راہ پر سمجھتے ہیں،انہی میں سے سہولت کار ہوتے ہیں اور یہ مجرم ایسے ہی لوگوں کے پاس پناہ بھی لیتے ہیں، اِس سلسلے میں خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر کارروائی بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں تاہم ان وارداتوں نے یہ احساس اُجاگر کیا ہے کہ ابھی اس سمت میں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور عملی طور پر انٹیلی جنس شراکت ہی سے ان ملزموں کا سراغ لگانا ممکن ہے اور اس لحاظ سے ان سب کا آپس میں تعاون، تعلقات کار اور اطلاعات کے تبادلے کا عمل بہت ضروری ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اب ہمارے شہری ہر واردات کے بعد طے شدہ الفاظ والے ردعمل سے مطمئن نہیں ہوتے، ان کو نتائج چاہئیں اور یہ ضروری ہے کہ تنقید سے ماورا سیکیورٹی اداروں کو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کی مزید ضرورت ہے اور برسر اقتدار حضرات کے لئے بھی یہ لازم ہے کہ اپنے اپنے طور پر باقاعدہ ایسی فضا بنانے کی کوشش کریں کہ سب عوام اس بیخ کنی مہم میں شامل ہوں اور حقیقی معنوں میں ان دہشت گردوں اور دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہو،اِس سلسلے میں بلدیاتی منتخب نمائندے بہت بڑا کردار ادا کر سکتے ہیں، بشرطیکہ یہ سب حضرات سیکیورٹی اداروں سے بھرپور تعاون کریں کہ عوام کے پاس قابلِ ذکر اور بااعتماد قریب ترین یہی لوگ ہو سکتے ہیں۔ بہرحال اندرونی انٹیلی جنس کا دائرہ بھی وسیع کرنے کی ضرورت ہے۔
جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے تو یہ ابھی تک ایک ہی دائرے میں گھوم رہی ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے، پہلے تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو چاہئے کہ وہ عوام پر بھروسہ کریں اور خود کو ہی عقلِ کل تصور نہ کر لیں، اس کے بعد ہی سیاست سے بالاتر ہو کر پھر سے نئی عملی جدوجہد کا آغاز کیا جائے اور اِس بار دہشت گردوں کو واقعی عبرتناک انجام سے دو چار کیا جائے۔ اللہ کا نام لیں، پھر گزارش ہے کہ آپس کی لڑائی اگر ختم نہیں کر سکتے تو اسے معطل ہی کر دیں کہ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں لاہور کے ایک محلے کی مثال پر عمل کریں جہاں اوپر نیچے رہنے والوں کے درمیان لڑائی رہتی، خواتین ایک دوسرے کو کوسنے دیتیں،لیکن پھر ’’ہانڈی روٹی‘‘ کا وقت ہوتا تو گھروں کے باہر کھڑکی کے راستے ’’توا‘‘ لٹکا دیا جاتا یہ سیز فائر کی علامت ہے۔ یوں سیز فائر ہو جاتی اور گھر کا کام کاج کر لیا جاتا، پھر فارغ ہونے کے بعد توا ہٹا لیا جاتا اور لڑائی پھر سے شروع ہو جاتی، ہمارے سیاسی رہنما بھی ایسا ’’توا‘‘ لٹکا کر سیز فائر کر لیں اور دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی بھرپور جدوجہد کریں کہ قومی اتفاق رائے ہی میں سلامتی مضمر ہے۔ یہ بھی گزارش کر دیں کہ خارجہ پالیسی پر پھر غور کر لیں، مشاورت پھر سے کریں،حزبِ اختلاف کو بھی بلائیں۔