کرکٹ کا فائنل،سوشل میڈیا پر
ہماری دسویں کلاس کی انگریزی کتاب میں قائداعظمؒ کے لڑکپن کا ایک واقعہ درج تھا جس سے اُن کی کرکٹ میں دلچسپی کا پتا چلتا ہے ۔ نوعمر محمد علی نے ، جس کے والدین کا گھر کراچی کی نیونہم روڈ پہ تھا ، بارہا دیکھا کہ ارد گرد کے لڑکے فرصت کے اوقات میں کنچے کھیلتے رہتے ہیں ۔ مراد تھی بلور کی رنگین گولیوں کے کھیل سے جس میں جیتنے والا بالآخر گولیوں کا مالک بن جاتا ہے ۔ چنانچہ ایک دن محمد علی نے عجیب حرکت کی ۔ وہ بیٹ اور گیند اٹھائے ہوئے آیا اور لڑکوں سے کہنے لگا ’’گرد میں کنچے کھیلنے سے ہاتھ گندے اور کپڑے میلے ہوجاتے ہیں ۔ اِس کھیل کو چھوڑو ، آج سے ہم کرکٹ کھیلیں گے‘ ‘ ۔ لڑکوں نے بات مان لی اور ہر روز کرکٹ کھیلنے لگے ۔ کتاب کے مطابق ، جب وہ بیرسٹری کے لئے انگلستان جانے لگے تو انہوں نے کرکٹ کا سامان اپنے دوست نانجی جعفر کے حوالے کر دیا تاکہ کھیل جاری رہے۔
اگر ہم یہ کہانی موجودہ پاکستان کی کسی نصابی کتاب میں شامل کر لیتے تو ہر طرف شور مچ جاتا کہ گندے ہاتھوں اور میلے کپڑوں کا طعنہ دے کر قوم کے بچوں کی توہین کئی گئی ہے ۔ کچھ لوگ کہتے کہ کنچے کھیلنا مشرقی روایت ہے اور کرکٹ فرنگیوں کا کھیل ۔ اِس بہانے سے نئی نسل پر ایک ایسی سوچ مسلط کی جا رہی ہے جو ملکی مفاد اور قومی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ۔ پھر بحث میں اِس پانامہ لِیک کے سبب یک دم شدت آجاتی کہ کتاب کی ترتیب و تدوین کا کام ڈی وائی مورگن نامی ایک غیر ملکی ماہرِ تعلیم کو سونپا گیا ہے ۔ یوں ہنود و یہود کی نئی سازش کے ٹِکر بھی چلنے لگتے ۔ پچاس سال پہلے کی دسویں جماعت کے بچے ، اُن کے والدین اور اساتذہ ، سیدھے سادے لوگ ہوں گے ، جن کی سادگی کی بدولت کرکٹ کے کھیل کو کوئی گزند نہ پہنچا اور ہمارے قائداعظمؒ بھی بال بال بچ گئے۔
قائد کے بعد جن مقبول شخصیات نے اپنی اپنی سطح پہ کرکٹ کھیلی اُن میں پہلے نمبر پہ روزنامہ پاکستان ٹائمز کے اولین ایڈیٹر فیض احمد فیض ہیں ۔ ظاہر ہے فیض کو شہرت تو اُس شاعری کی بدولت ملی جو متن اور ہیئت کے نئے تجربات کے باوجود اردو اور فارسی کے کلاسیکی مزاج سے وابستہ تھی ۔ اُن کی کئی نظموں پہ انیسویں صدی کے انگریز شعراء کی رومانوی فضا بھی سایہ فگن ہے ۔ ساتھ ہی وہ محبت کی علامتوں کو سیاسی مفہوم عطا کر گئے ۔ پھر بھی انہیں عمر بھر حفظِ قرآن نامکمل رہنے کی حسرت رہی اور دوسرے یہ کہ کاش وہ نامور کرکٹر بن سکتے ۔ اگر میرا حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو1960ء کی دہائی میں صہبا لکھنوی نے ماہنامہ ’افکار‘ کراچی کا جو فیض نمبر نکالا اُس کی تصاویر میں سے ایک میں فیض صاحب کو پاکستان ٹائمز الیون کے بیٹس مین کے طور پہ پیڈ باندھ کر ہاتھ میں بلا تھامے دکھایا گیا ۔
اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی جانتے ہیں کہ مرحوم زمانۂ طالب علمی میں کرکٹ کے شوقین تھے ۔ بہت سے لوگوں نے کرکٹ کی سفید کِٹ میں ملبوس نوجوان بھٹو کی تصویر بھی دیکھی ہوگی اور یہ علم بھی رکھتے ہوں گے کہ وہ آزادی سے پہلے مایہ ناز مسلمان کھلاڑی مشتاق علی کے کھیل سے متاثر تھے ۔ اِس پس منظر میں سب سے منفرد واقعہ امیر بیگم سے بھٹو کی پہلی شادی ہے ۔ تحریری شہادت کے مطابق ، جب یہ کم عمر کھلاڑی کسی طرح رشتۂ ازدواج پہ آمادہ نہ ہوا تو اُس کے والد سر شاہ نواز بھٹو نے اُسے کرکٹ کا قیمتی بیٹ لے کر دینے کی پیشکش کی، جو برضا و رغبت قبول کر لی گئی ۔ یہ بہت پرانی بات ہے ۔ ایٹمی دھماکوں کے زمانے میں باغِ جناح لاہور میں بطور وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زوردار کرکٹ کا مَیں خود چشم دید گواہ ہوں ، مگر صرف بیٹنگ کی حد تک، بولنگ یافیلڈنگ کا نہیں۔
اگر کرکٹ سے وابستگی کو معیار بنائیں تو آج کے سیاست دانوں میں عمران خان کی ریٹنگ سب سے اوپر ہو گی ۔ کوئی تیس سال پہلے جب اُن کی کتاب ’آل راؤنڈ ویو‘ لندن سے شائع ہوئی تو پاکستان ٹیلی ویژن اور بی بی سی کی رپورٹوں کی خاطر مَیں نے ہنگامی طور پہ اردو اور انگریزی میں مصنف کے انٹرویو کئے تھے ۔ تب عمران نے ریجنل لیگ کی طرز پر پاکستان میں کرکٹ کو منظم کرنے کے لئے دلائل تو دئے ، مگر اُن میں سیاسی عزائم کا اشارہ دور دور تک نہیں تھا ۔ یوں سیاستدانوں میں قومی ٹیم کے بانی کپتان عبدالحفیظ کاردار ہی اپنے مرتے دم تک ہمارے لئے قائدِ کرکٹ رہے ۔ کاردار پیپلز پارٹی کے اولین دور میں پنجاب کے وزیر تعلیم اور پھر پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ بھی تھے ۔ ہاں ، پچھلے اتوار چیمپئن ٹرافی کے فائنل میچ کے موقع پر اگر اُن کی یاد آئی تو اُس کا سبب ایک ذاتی واقعہ ہے۔
کسی خبر کے لئے میں بھٹو مرحوم کے قریبی ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن سے ملنے گلبرگ میں اُن کے گھر گیا تو دیکھا کہ ڈرائنگ روم میں عبدالحفیظ کاردار بیٹھے ہیں ۔ چھٹے ورلڈ کپ کے سلسلے میں ، جو پاکستان اور بھارت میں کھیلا گیا ، اُس روز ٹی وی پہ ایک ون ڈے میچ دکھایا جا رہا تھا ۔ سوچا کہ اگر قائد کرکٹ سے ون ڈے میچوں کے بارے میں گفتگو ہوجائے تو بی بی سی اردو کے اسپورٹس پروگرام کے لئے ایک ہلکا پھلکا آئٹم بن سکتا ہے ۔ ریکارڈنگ ڈیوائس کا بٹن دبا یا اور یہ کہہ کر بات شروع کی کہ کیا آپ آجکل میچ دیکھتے ہیں ۔ کاردار صاحب نے ٹی وی کی طرف بازو لہرایا اور میری مت مار دی ’’یہ کرکٹ ہے ؟ اِسے آپ کرکٹ کہتے ہیں؟‘‘ ڈرتے ڈرتے پوچھا ’’گویا بالکل دلچسپی نہیں رہی؟‘‘ ۔ مسکرا کر کہنے لگے ’’خود نہیں دیکھتا ، تھوڑی تھوڑی دیر بعد جا کر لڑکوں سے پوچھ لیتا ہوں کہ سکور کیا ہوا ہے‘‘۔
میری عمر کاردار مرحوم سے ستائیس سال کم ہے ، پھر مجھے نئی نسل کے ووٹ پکے کرنے کا شوق بھی ہے ۔ اِس لئے ون ڈے کرکٹ سے الرجک تو نہیں ہوں ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ریڈیو اور ٹی وی پروڈکشن سے تعلق کی بنا پر سکرین پہ میچ دیکھتے ہوئے مَیں کیمروں کی سوئچنگ سے اکثر مطمئن نہیں ہوتا ۔ اب دیکھئے نا ، بولر اپنے بولنگ مارک کی طرف گیا ، وہاں سے واپس مُڑا ، اسٹارٹ لیا ، رائٹ آرم اوور دا وکٹ۔۔۔ پھر گیند کا ٹِپا پڑتے ہی فَٹٹ بیٹس مین والا کیمرا آن۔۔۔ ڈرائیو ، سویِپ یا ہَک جو بھی ہو ۔۔۔ اب آپ کی نظر گیند کا پیچھا کر رہی ہے ۔۔۔ مگر آ گیا کسی طرحدار خاتون کا کلوز اپ کہ اینھاں نوں ویکھو ۔ یا اِس سے بھی بدتر کسی مشروبِ مشرق کا کمرشل اور فرنگیوں کا مُلک ہو تو مشروبِ مغرب ۔ یوں انسانی آنکھ کی فطری موومنٹ جس تسلسل کا تقاضا کرتی ہے ، وہ ’قیں‘ ہو جاتا ہے۔
بھارت کے خلاف تازہ فائنل میں دوسرا مسئلہ ٹی وی ناظرین کے حد سے بڑھے ہوئے جو ش و خروش کا تھا۔ مَیں نے برسوں پہلے مانچسٹر کی اولڈ ٹریفورڈ میں اپنی موجودگی کے دوران آزاد کشمیر کا پرچم لہراتا دیکھا تو جی خوش ہو ا، لیکن پچھلے اتوار تو حالت یہ تھی کہ ایک فائنل میچ اوول میں کھیلا جا رہا ہے اور دوسرا سوشل میڈیا پر ۔ فیس بُک پر مسلسل ’رن ٹِپ‘ جاری رہی ۔ ’’انڈیا شرمناک شکست سے دوچار‘‘ ’’بس جی ، مکافاتِ عمل ہے‘ ‘ ’’اِس بار ہم رمضان کی برکت سے جیتیں گے‘‘ ۔باتوں کے چوکے چھکے لگانے والے بعض کھلاڑیوں کو پاکستانی سٹروک پلے میں دو قومی نظریہ صاف دکھائی دے رہا تھا اور لگتا تھا کہ ابھی فضا میں1965ء کی پاک بھارت لڑائی کا یہ نغمہ گونجنے لگے گا کہ ’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘ ۔ اِسی مرحلے پہ مجھ سے ایک حرکت ہوئی جو میری حب الوطنی کے لئے سوالیہ نشان بن گئی۔
حرکت تھی فیس بک پر یہ اسٹیٹس لگانے کی کہ ’’کرکٹ کھیلتے اور دیکھتے ہوئے ہمیں تحمل اور باہمی احترام سے کام لینا چاہئے‘ ‘ ۔ بیشتر احباب نے اِس کا خیرمقدم کیا ۔ تاہم ، دوستوں میں دو اسلام آبادی صحافی ایسے تھے جن میں سے ایک نے سنجیدہ اور دوسرے نے قدرے ڈانٹ ڈپٹ کا رویہ اختیار کیا ۔ نمونۂ کلام ملاحظہ ہو ’’بھارت کے خلاف ہر میچ جنگ ہوتا ہے اور اِس سوچ اور جوش کو بدلنا ایسا ہی ہے جیسے سمندر کا رخ ہاتھوں سے تبدیل کرنا ۔ مسئلہ بھارت کے تکبر ، غرور اور فرعونیت کا ہے اور اگر اُن کا تکبر ٹیم نے خاک میں ملا دیا ہے تو یہ معجزے سے کم نہیں ۔ قوم کی مائیں اور بہنیں دعائیں کر رہی تھیں ۔ رشی کپور ذہنی پسماندگی اور پاکستان دشمنی کا نام ہے اور بھارت میں ننانوے فیصد لوگ ایسے ہی ہیں‘‘۔ مَیں نے یہ پڑھ کر ہمیشہ کی طرح قائد اعظم سے رجوع کیا اور پہلا والا فکر انگیز جواب ہی ملا ’’گرد میں کنچے کھیلنے سے ہاتھ گندے اور کپڑے میلے ہوجاتے ہیں ۔ اِس کھیل کو چھوڑو، آج سے ہم کرکٹ کھیلیں گے‘‘۔