ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے
اس میں کوئی شک نہیں کہ مُلک میں غیر یقینی کی کیفیت ہے۔ اس کی شدت تاحال 2014ء کے دھرنا ون پلان سے کم ہے مگر نجی و سرکاری محفلوں میں لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پائے جاتے ہیں کہ آگے کیا ہو گا۔ سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے ایک ممتاز صحافی نے تو The Party is Over کے عنوان سے کالم بھی لکھ ڈالا ہے‘ ان کا اندازہ ہے کہ جولائی یا اگست میں نواز شریف حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے گا تاہم فاضل کالم نگار نے یہ کہہ کر کئی دیگر آزاد لکھاریوں و غیر جانبدار حلقوں کی اس رائے پر مہرثبت کر دی ہے کہ اگر کوئی خفیہ راستہ یا ڈیل کا معاملہ طے پا گیا تو کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔اس فقرے کا ایک ہی مطلب ہے کہ لڑائی سول حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ہے، باقی سب سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کالم میں ماضی میں چند حکومتوں کی رخصتی کے آخری دنوں کا ذکر کر کے بعض حوالے بھی دیئے گئے ہیں،مگر اس وقت کے معاملات میں بہت سوں کو پہلے ہی سے علم تھا۔ بینظیر حکومت کی 1990ء میں برطرفی کی خبر اسی روز ایک قومی اخبار میں لیڈ سٹوری کے طور پر شائع ہو گئی تھی۔ 1993ء میں نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان حکومت چھوڑنے کا معاملہ غلام اسحاق خان کی ’’قربانی‘‘ کی شرط پر طے پایا۔ 1996ء میں صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں بینظیر حکومت کی برطرفی کے بارے میں راقم الحروف خود بھی بہت اچھی طرح سے آگاہ تھا۔ ان دنوں نجم سیٹھی کے ملکیتی اخبار ’’آج کل‘‘ کے مدیر کے طور پر ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے کئی اور باتیں بھی میرے علم میں تھیں اور بھی کئی حلقوں کو معاملات کا ادراک تھا۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف کی فوجی بغاوت کا تو بچے بچے کو پتہ تھا۔ حاضر سروس باوردی افسران کھلے عام سول حکمرانوں کو گالیاں تک دے رہے تھے۔ کارگل کی انکوائری کئی ایک کے لئے ڈراؤنا خواب بن سکتی تھی سو چھٹکارا پانا ہی پانا تھا۔
اب آگے کیا ہو گا وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ہاں مگر میرے دوست کالم نگار نے لکھا ہے کہ ’’پارٹی از اوور‘‘ کے بعد ٹرمپ کارڈ عمران خان کے ہاتھ میں ہو گا۔ کئی سیاسی رہنماؤں کا پہلے احتساب ہو گا پھر الیکشن، عمران خان کے لئے، مگر یہ ضروری ہے کہ وہ ابھی سے واضح موقف اپنائیں کہ آئین کے مطابق ہر صورت 90 روز کے اندر الیکشن ہو۔ ایک بھی دن کی تاخیر کو ماننے سے انکار کر دینا چاہئے۔ عمران خان کے پالیسی گروپ کو چاہئے کہ اس حوالے سے فوراً ایک آل پارٹیز کانفرنس بلا کر انتخابات اور احتساب کے لئے اپنی ترجیحات کا واضح اعلان کرے‘ ‘ہو سکتا ہے یہ اندیشہ ہائے دور دراز درست ہی ہوں مگر ایسا لگتا نہیں قرائن اور منطق تو یہی بتاتے ہیں کہ اگر نواز شریف نااہل ہوئے تو عمران خان کی نااہلی بھی دِنوں کی بات ہو گی۔ ملکی معاملات منشا کے مطابق چلائے رکھنے کے لئے اگر نواز شریف کی ضرورت نہیں تو عمران خان کو بھی تو ایک رکاوٹ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ صاف چلی شفاف چلی کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کے سربراہ کی نااہلی کیسے ہو گی یہ جاننا مشکل نہیں۔ بعض معاملات تو عدالتوں میں ہیں اور بعض لائے جا سکتے ہیں۔ نااہلی کے لئے کس نوع کے مزید نکات اٹھائے جا سکتے ہیں ان کا ذکر کرنا ابھی مناسب نہیں، تاہم کہا جا سکتا ہے کہ اس حوالے سے ٹھوس قانونی مواد موجود ہے۔یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ موجودہ حکومت کو نیست و نابود کئے جانے کے بعد بھی ٹرمپ کارڈ عمران خان کے ہاتھ کیسے آئے گا؟ بھائی لوگ ایسا کبھی نہیں کریں گے دیگر تمام جماعتوں کی طرح تحریک انصاف میں بھی اسٹیبلشمنٹ کے مہرے موجود ہیں۔ جہانگیر ترین کو ہی دیکھ لیں عمران خان جب کبھی بھی شدید غصے کے عالم میں شریف خاندان پر برس رہے ہوتے ہیں تو ساتھ کھڑے ترین کے لبوں پر وقفے وقفے سے ’’میسنی‘‘ مسکراہٹ کھیلنے لگتی ہے۔ میسنی لفظ اس لئے استعمال کرنا پڑا کہ فی الوقت اس سے زیادہ موزوں کوئی اور لفظ ملا ہی نہیں اور شاید وہ دل ہی دل میں کہہ رہے ہوتے ہیں نیازی صاحب آپ تقریریں جھاڑتے رہیں وزارت عظمیٰ کے لئے ’’میں ہوں نا‘‘ اس سے پہلے کہ اس امر کا جائزہ لیا جائے کہ پورے شریف خاندان کی نااہلی کی صورت میں آگے کیا ہو گا آئیے ایک اور شریف کی بات کر لیں ۔جی ہاں شکریہ والے راحیل شریف ‘ چند روز قبل سابق آئی جی برادر ذوالفقار احمد چیمہ نے پول کھولا تھا کہ 2016ء میں اپنی ٹویٹ مقبولیت کے زعم میں جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم نواز شریف کو استعفیٰ دینے کا ’’حکم‘‘ دیا تھا۔ سنگدل وزیراعظم نے موقع پر ہی ٹکا سا جواب دے کر فارغ کر دیا۔ اب حامد میر نے انکشاف کیا ہے کہ 2016ء میں ہی مسلم لیگ (ن) کے بعض ’’عناصر‘‘ نے علاج کے لئے لندن گئے وزیراعظم کو مشورہ دیا تھا کہ آپ واپس نہ آئیں حامد میر کو پتہ چلا تو وزیراعظم سے رابطہ کر کے کہا کہ آپ پاکستان ضرور واپس آئیں۔ حامد میر کی اس گستاخی نے جنرل راحیل کو بہت ناراض کر دیا تھا (یہ الگ بات ہے کہ نواز شریف نے واپس تو آنا ہی آنا تھا) کیونکہ وہ ڈر کر وہیں دبک جاتے تو سیاست کے ساتھ پارٹی بھی فنا ہو جاتی۔ ویسے بھی کرسی کوئی کہاں آسانی سے چھوڑتا ہے؟
پانامہ کیس پر جج صاحبان کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی نے جس چابکدستی اور رفتار سے معاملہ آگے بڑھایا اس کی داد نہ دینا زیادتی ہو گی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی پارٹی نے اپنے طور پر ’’شہباز سپیڈ‘‘ کی اصطلاح نکال رکھی ہے (یعنی شہباز شریف ترقیاتی کام بہت تیزی رفتاری سے مکمل کرتے ہیں)، مگر اب انہیں اندازہ ہوا ہو گا کہ انصاف کے ایوان بھی سپیڈ میں کسی سے پیچھے نہیں کاش زیر التواء پڑے دیگر مقدمات کو بھی ایسی ہی رفتار سے نمٹایا جا سکے۔ مُلک کے سارے نہیں تو آدھے مسئلے ضرور حل ہو جائیں گے۔ وزیراعظم کی نااہلی کے امکانات کیا ہیں؟ اس نوع کے متوقع فیصلے کے بارے میں سب سے پہلے انصار عباسی نے ایک رپورٹ تحریر کی تھی۔ چند ہفتے قبل شائع ہونے والی اس رپورٹ میں بے لاگ انداز میں واضح کر دیا گیا تھا کہ جے آئی ٹی درحقیقت کن عناصر کے کنٹرول میں ہے اور یہ کہ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کا موڈ کیا ہے۔ پھر بھی اگر کوئی رہی سہی کسر باقی رہ گئی تھی تو جاوید ہاشمی نے اپنی پریس کانفرنس کے ذریعے پوری کر دی ہے انہوں نے پانامہ کیس کو سیدھا سیدھا وزیراعظم نواز شریف کو نااہل کرنے کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ساری کارروائی احتساب نہیں،بلکہ کسی کے کہنے پر نواز شریف کو ہٹانے کے لئے کی جا رہی ہے ۔سپریم کورٹ کو کس نے حق دیا کہ کسی کو گاڈ فادر یا سسلی مافیا کہے۔ جاوید ہاشمی نے سارا پول ایک ہی فقرے میں کھولتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا کیا طریقہ ہے کہ مشرف کو نہ بچایا تو تم بھی نہیں بچو گے۔ 2014ء کے دھرنوں کے دوران تحریک انصاف کے اندرونی حلقوں تک رسائی رکھنے والے جاوید ہاشمی نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے پر بھی کمیشن بنایا جائے۔ سپریم کورٹ تمام لوگوں کو بلائے تاکہ قوم کو پتہ چلے کہ کون کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جاوید ہاشمی نے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ جنرل راحیل شریف سے بھی تحقیقات کرنے کا کہا ہے۔ جاوید ہاشمی نے ایک بار پھر سب کو یاد دلایا کہ دھرنوں کے دوران جنرل ظہیرالاسلام بار بار پیغام دے رہے تھے ۔عمران خان نے کئی بار کہا کہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی ٹھیک آدمی نہیں،اس کے بعد جو آئے گا وہ ٹھیک ہے یعنی اصل منصوبہ یہی تھا کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے ذریعے برطرف کرایا جائے گا کیا یہ جوڈیشل مارشل لاء کا کوئی منصوبہ تھا؟ حق بات تو یہ ہے کہ 2014ء کے دھرنوں کے حقائق سامنے لا کر کارروائی کی جاتی تو شاید اس کے بعد کسی طالع آزما کو ازسرنو کوئی بساط بسانے کی جرأت نہ ہوتی۔ ایک بڑی اور جامع انکوائری کے نتیجہ میں ماڈل ٹاؤن میں 13افراد کی ہلاکت کے بارے میں بھی مکمل سچائی سامنے آ جاتی یہ بھی پتہ چل جاتا کہ دھرنے اور دنگے کی ترغیب کس نے دی۔ سیاست دانوں کو ملنے کون کون جاتا رہا عمران خان اور طاہر القادری کو کس نے اپنا ہتھیار بنا رکھا تھا۔ شاید ’’وسیع تر قومی مفاد‘‘ کا تقاضا یہی تھا کہ صلح صفائی کے بعد سارے معاملے پر مٹی ڈال دی جائے۔ آج نواز شریف اقتدار میں ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ چند باتیں ایسی بھی ہیں جو وقت آنے پر سامنے لاؤں گا اب تو ان کی پارٹی کے اندر سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ اس حوالے سے دیر نہ کی جائے ویسے بھی مانا جاتا ہے کہ ’’جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے‘ اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہئے‘‘ ۔
اب فرض کرتے ہیں کہ جج صاحبان نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ سنا دیتے ہیں۔ اس طرح کے حالات سے نمٹنے کے لئے جو حکمت عملی حکمران جماعت نے طے کر رکھی ہے وہ یہ ہے کہ کسی دوسرے پارٹی رہنما کو وزیراعظم منتخب کرا کے مدت پوری کی جائے گی۔ صورتِ حال اس صورت میں مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے کہ جب کسی عدالتی فیصلے کے باعث پورا شریف خاندان ہی نااہل ہو جائے شاید اس حوالے سے بھی سوچا گیا ہے کہ پنجاب میں نیا وزیراعلیٰ لایا جائے گا یہ تو ہے حکمران پارٹی کا منصوبہ مگر اصل منصوبہ ساز اس میں رنگ بھرنے دیں گے؟ جن قوتوں کا پورا زور ہی شریف خاندان کے اقتدار اور سیاست کے خاتمے کی کوششوں پر لگ رہا ہے وہ تو چاہیں گے نااہلی ٹائپ کا فیصلہ آتے ہی پوری حکومت کا بستر گول کر دیا جائے۔ آئینی طور پر تو ممکن نہیں اگر کسی ناگہانی صورتِ حال میں وفاق میں نیا وزیراعظم اور پنجاب میں نیا وزیراعلیٰ آ سکتا ہے تو سندھ میں پیپلز پارٹی اپنی حکومت وقت سے پہلے کیوں قربان کرے گی۔ بلوچستان میں پہلے ہی سے (ن) لیگ برسر اقتدار ہے۔ ایسی صورتِ حال میں عمران خان نے بحران پیدا کرنے کے لئے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کو کے پی کے اسمبلی توڑنے کے لئے کہا تو ہو سکتا ہے کہ ایڈوائس گورنر کے پاس جانے سے پہلے ہی وہاں ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کرائی جا چکی ہو۔ یوں یہ مرحلہ بھی کٹھن بن سکتا ہے ۔ ایک اور آپشن دھرنے، دنگے وغیرہ کا ہے جو 2014ء میں آزمایا جا چکا ہے ماسٹرمائنڈ اپنے پورے لاؤ لشکر سمیت خود میدان میں تھا، مگر بچ بچاؤ ہو گیا۔ 2016ء میں اسلام آباد لاک ڈاؤن کی کوشش بری طرح سے ناکام ہو گئی ۔یہ بھی واضح ہو گیا کہ ’’بھائی لوگ‘‘ پیچھے نہ ہوں تو تحریک انصاف کے ٹائیگروں سمیت کسی کو گھروں سے نکلنے کا بھی موقع نہیں مل سکتا۔ سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ شریفوں کی اقتدار اور سیاست سے بے دخلی کی مہم سر کرنے کے لئے ایک کے بعد دوسرے ادارے کو خود میدان میں اترنا ہو گا۔ شیدا ٹلی تو فرمان جاری کر چکا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر فوج عمل درآمد کرائے گی ۔ایسے ٹاکرے ماضی میں ہو چکے ہیں اب تک تو نواز شریف کی حمایت میں صرف جاوید ہاشمی ہی بولے ہیں۔ لڑائی بڑھی تو کسی دن اچکزئی ‘ پھر حاصل برنجو ‘ ساجد میر بیانات داغنا شروع کر دیں گے۔ مولانا فضل الرحمن کی انٹری ہر لحاظ سے دھماکہ خیز ہو گی۔ جمہوریت کو خطرے کے نام پر راگ چھیڑا گیا تو پیپلز پارٹی کو تال سے تال ملاتے دیر نہیں لگے گی۔ ایم کیو ایم پاکستان اور چند دوسری پارٹیاں بھی اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں مسلم لیگ کی ہمنوا بن سکتی ہیں، ایسا ہو گیا تو دھما چوکڑی مچ کر رہے گی۔ ہو سکتا ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ سننے کو ملے کہ ابھی تو پارٹی شروع ہونی ہے۔